154

محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

سیاسی تماشے اور معاشی بھونچال میں اُمید کی کچھ کرنیں نمودار ہوا چاہتی ہیں۔ دہشت گردی اور نوآبادیاتی جبر کے سامنے اس دھرتی کے جیالے سپوت سینہ سپر ہونے لگے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی دہشت انگیزی کے خلاف خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں اور شورش زدہ اضلاع میں امن کے جھنڈے لیے پختون عوام کا جم غفیر اُمڈ آیا ہے۔ گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کے شہر وانا میں دہشت گردی اور طالبانائزیشن کے خلاف جو عظیم الشان عوامی مظاہرہ ہوا وہ پختون عوام کی امن دوست امنگوں کا مظہر ہے۔ اس سے قبل دیگر علاقوں میں بھی ہم اسی طرز کے مظاہرے دیکھ چکے ہیں۔ خوش قسمتی سے یہ مظاہرے کسی ایک تنظیم کے پرچم تلے نہیں، امن کے سفید جھنڈے کے ساتھ کیے گئے۔ حالانکہ ان میں راندہ درگاہ پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان ہر جگہ ہر اول دستہ کے طور پر موجود تھے۔ امن کی اسی آشا کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف قابل ستائش مضبوط موقف اختیار کیا ہے جس کے باعث وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا مصالحتی بیان واپس لینا پڑا ہے لیکن ابھی تک واضح حربی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ عوامی اُبھار کی نئی صورتیں ہمیں بلوچستان کی ساحلی پٹی پر خاص طور پر گوادر کی بندرگاہ میں حقوق دو تحریک کے جاری عوامی مظاہروں کی صورت نظر آئی ہیں۔ حق دو تحریک میں عورتیں، بچے، جوان اور بزرگ سبھی شامل ہیں۔ ان کے گیارہ نکاتی مطالبات پر پہلے بھی مظاہرے ہوئے ہیں اور انکے تشنہ تکمیل رہنے کے خلاف پھر سے گزشتہ دو ماہ سے زیادہ جلسے جلوس ہوتے رہے، لیکن کٹھ پتلی انتظامیہ نے ٹینکر مافیہ، بڑے سمگلرز اور کرپٹ اداروں کے دباﺅ میں کریک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا، مگر حق دو تحریک دبنے والی نہیں کیونکہ اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے اور یہ بہت وسیع البنیاد ہے۔ اس کے مطالبات میں بڑے بیرونی ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کا سدباب، مقامی ماہی گیروں کے حقوق کا تحفظ، سرحدی تجارت فرنٹیئر کور کی بجائے سول انتظامیہ کے حوالے کی جانے، چیک پوسٹس میں کمی، ایکسپریس وے کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی اور صحت و تعلیم اور روزگار کی مانگیں شامل ہیں۔ ان مطالبات پر معاہدہ گزشتہ برس ہوگیا تھا، لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوا۔ کچھ اسی طرح گلگت و بلتستان کے لوگ برفباری کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں اپنے مقامی ذرائع، زمین کے تحفظ ، روزگار اور فرقہ واریت کے خلاف کئی روز سے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں اور اُن کا پُرسان حال کوئی نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جو سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے تھے، وہ آگے بڑھ کر انسانی و معاشی و سیاسی حقوق و آزادیوں کے لیے میدان میں اُتر آئے ہیں اور یہی مظلوم اور جاگے ہوئے لوگ پاکستان کے دوسرے لوگوں کو راہ نجات دکھائیں گے۔ یہی حقیقی سٹیک ہولڈرز ہیں جو پاکستان کے حقیقی مالک ہیں۔ لیکن پاکستان پر جن استحصالی طبقوں اور نوآبادیاتی آمرانہ قوتوں کا قبضہ ہے وہ کیوں ان کی آواز سنیں گے۔ حالانکہ دہشت گردی اور نوآبادیاتی جبر سے نجات ان غیور محنت کش عوام کی طاقت کے بنا ممکن نہیں۔ اب فیصلہ ریاست کو کرنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑی ہو؟ لیکن بدقسمتی سے مین اسٹریم اردو میڈیا میں ان عوامی تحریکوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی بڑی نام نہاد قومی پارٹیوں کے سیاسی مباحثوں اور بیانیوں میں اس کا کہیں ذکر ہے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور محترمہ شیریں مزاری نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ان کی حکومت میں پچاس ہزار لوگوں بشمول دس ہزار دہشت گردوں کی واپسی کا بندوبست کردیا تھا۔ ضرب العضب اورردالفساد کی فوجی مہموں میں ان سے جو علاقے واگزار کرائے گئے تھے اور انہیں سرحد کے اس پار دھکیل دیا گیا تھا، اس پر پانی پھیر دیا گیا اور پھر سے اس فتنے کی واپسی کا بندوبست کردیا گیا۔ ظاہر ہے یہ کام فوج کی سابقہ قیادت کی رہنمائی میں ہوا جس کا خمیازہ آج پھر ہم بھگت رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اس بارے میں عمران خان پہ جو تنقید کی ہے اس کا تحریک انصاف کے پاس کوئی جواب نہیں۔ دہشت گردی کی چار دہائیوں کی مہم جوئیوں سے جو ناقابل تلافی نقصان ہوا اس کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا جانا چاہیے اور قومی سلامتی کی کمیٹی میں جو فیصلے کیے گئے ہیں اُن پر تفصیلی بحث کر کے ایک قومی راہ عمل طے کرنا ہوگا۔
روشنی کی ایک کرن شاید 9 جنوری کو جنیوا میں منعقد ہونے والی پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ کانفرنس برائے ماحولیاتی بالیدگی (Resilience) ہے جس میں دنیا بھر سے حکومتی اور عالمی اداروں کے نمائندے شریک ہورہے ہیں۔ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلابوں سے آئی انسانی و قدرتی و ماحولیاتی تباہی کے بعد مصر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں ہماری وزیر ماحولیات محترمہ شیری رحمان کی زبردست ماحولیاتی سفارت کاری کے باعث عالمی ماحولیاتی فورم کو ماحولیاتی نقصانات و تلافی کے حوالے سے عالمی ذمہ داری کو تسلیم کرلیا گیا ہے، لیکن ضروری سرمائے اور امداد کا تعین نہ ہو پایا۔ شرم الشیخ میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے پاکستان کے لیے ماحولیاتی انصاف کا مقدمہ جس بالیدگی سے پیش کیا وہ کانفرنس کے لیے بڑا ریفرنس کیس بن گیا۔ اب 9 جنوری کو جنیوا میں ہونے والی کانفرنس کی بھرپور تیاری کرلی گئی ہے۔ ایک ماحولیات دوست بحالی و تعمیر نو کا منصوبہ مرتب کرلیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے اشتراک سے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے، جبکہ بحالی و تعمیر نو کے لیے 16 ارب ڈالرز سے زائد رقم درکار ہوگی۔ اس برس 6 ارب 78 کروڑ ڈالرز چاہئیں۔ ایمرجنسی ایڈ کی اپیل پر آدھی رقم مل سکی تھی، اگر ڈونرز کی دلچسپی اتنی ہی ہے تو کم از کم 4 ارب ڈالرز بھی مل جائیں تو طوفان میں گھری کشتی باہر نکل سکتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چینی، سعودی، اماراتی، قطری، ملائیشی ، انڈونیشی اور ترکی کے رہنماﺅں سے ذاتی طور پر شرکت کی درخواست کی ہے، جبکہ وزارت خارجہ نے بھی بہت سرگرمی دکھائی ہے۔ جنیوا ہی میں عالمی مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف کے وفود بھی ہوں گے اور ان سے ایسے وقت میں بات چیت بہت اہم ہوگی جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر فقط 4.5 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ جلد ہی اس کا وفد اسلام آباد میں نویں جائزہ کے لیے آئے گا اور معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ جونہی یہ ریونیو مکمل ہوا تو چین، سعودی عرب، امارات اور قطر سے اربوں ڈالرز کے وعدوں پر عمل کی اُمید کی جاسکے گی اور پاکستان فروری یا مارچ تک مالیاتی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل کر معاشی و مالیاتی استحکام کی جانب بڑھ سکے گا۔ لیکن اگر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل ہوا تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 250 روپے سے اوپر اور مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے 50 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو اتحادی حکومت کے گلے میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ کوشش تو کی جارہی ہے کہ عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہ پڑے لیکن آزاد منڈی میں بلیک مارکیٹ کا چلن حشر نشر کیے ہوئے ہے اور انہیں روکنے کے لیے صوبائی حکومتیں کوئی جتن نہیں کررہیں۔ بہرکیف اگر مارچ تک ملک معاشی گرداب سے نکل جاتا ہے تو ستمبر اکتوبر تک انتخابات کے لیے بہتر معاشی ماحول بن سکتا ہے۔لیکن۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ن لیگ کا پنجاب میں دھڑُ تختہ ہوسکتا ہے۔
اس دوران اس کا کیا کیجئے کہ عمران خان تلے بیٹھے ہیں کہ سیاسی بحران طوفان کی صورت لے لے اور ملک ڈیفالٹ ہوتا ہے تو ہو کیونکہ اس کا بوجھ اتحادی حکومت خصوصاً پنجاب میں ن لیگ کے سر پر آن پڑے گا۔ لیکن پنجاب کا کِلا لگتا ہے کہ عمران خان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ انکا زخمی ہرن پنجاب کے لومڑ کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لینے نہیں جارہے اور ان کا عمران خان سے اسمبلی توڑنے کا وعدہ لاہور ہائیکورٹ میں دئیے گئے حلف نامے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے کی نذر ہوکے رہ جائے گا۔ آخر گنجلک آئینی سوالات میں لاہور ہائیکورٹ اور فریقین کے آئینی ماہرین نے بھی اپنی فیسوں کو حلال کرنا ہے تو کئی ماہ کے لیے معاملہ لٹک جائے گا اور پنجاب اسمبلی برقرار رہے گی تو موجودہ اسمبلیاں چلتی رہیں گی اور جیسے کیسے اپنی آئینی مدت کی طرف گھٹتی چلی جائیں گی۔ ایسے میں عمران خان اپنے استعفے ہوا میں لہرایا کریں، تب تک اگر وہ اسمبلیوں میں واپس نہ گئے تو انکی نااہلی کے کئی کیس انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔ کوئی عمران خان سے پوچھے کہ وہ اپنی پارلیمانی طاقت اور دو صوبائی حکومتوں کے مورچے کو تباہ کر کے جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کا وقت نکل چکا ہے۔ وہ جمہوری سیاست کے وِلن بننے کی بجائے اس کے ہیرو کیوں نہیں بنتے وگرنہ وہ اس پیرانہ سالی میں پلے بوائے بن کے رہ جائیں گے۔
کی درخواست کی ہے، جبکہ وزارت خارجہ نے بھی بہت سرگرمی دکھائی ہے۔ جنیوا ہی میں عالمی مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف کے وفود بھی ہوں گے اور ان سے ایسے وقت میں بات چیت بہت اہم ہوگی جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر فقط 4.5 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ جلد ہی اس کا وفد اسلام آباد میں نویں جائزہ کے لیے آئے گا اور معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ جونہی یہ ریونیو مکمل ہوا تو چین، سعودی عرب، امارات اور قطر سے اربوں ڈالرز کے وعدوں پر عمل کی اُمید کی جاسکے گی اور پاکستان فروری یا مارچ تک مالیاتی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل کر معاشی و مالیاتی استحکام کی جانب بڑھ سکے گا۔ لیکن اگر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل ہوا تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 250 روپے سے اوپر اور مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے 50 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو اتحادی حکومت کے گلے میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ کوشش تو کی جارہی ہے کہ عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہ پڑے لیکن آزاد منڈی میں بلیک مارکیٹ کا چلن حشر نشر کیے ہوئے ہے اور انہیں روکنے کے لیے صوبائی حکومتیں کوئی جتن نہیں کررہیں۔ بہرکیف اگر مارچ تک ملک معاشی گرداب سے نکل جاتا ہے تو ستمبر اکتوبر تک انتخابات کے لیے بہتر معاشی ماحول بن سکتا ہے۔
اس دوران اس کا کیا کیجئے کہ عمران خان تلے بیٹھے ہیں کہ سیاسی بحران طوفان کی صورت لے لے اور ملک ڈیفالٹ ہوتا ہے تو ہو کیونکہ اس کا بوجھ اتحادی حکومت خصوصاً پنجاب میں ن لیگ کے سر پر آن پڑے گا۔ لیکن پنجاب کا کِلا لگتا ہے کہ عمران خان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ انکا زخمی ہرن پنجاب کے لومڑ کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لینے نہیں جارہے اور ان کا عمران خان سے اسمبلی توڑنے کا وعدہ لاہور ہائیکورٹ میں دئیے گئے حلف نامے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے کی نذر ہوکے رہ جائے گا۔ آخر گنجلک آئینی سوالات میں لاہور ہائیکورٹ اور فریقین کے آئینی ماہرین نے بھی اپنی فیسوں کو حلال کرنا ہے تو کئی ماہ کے لیے معاملہ لٹک جائے گا اور پنجاب اسمبلی برقرار رہے گی تو موجودہ اسمبلیاں چلتی رہیں گی اور جیسے کیسے اپنی آئینی مدت کی طرف گھٹتی چلی جائیں گی۔ ایسے میں عمران خان اپنے استعفے ہوا میں لہرایا کریں، تب تک اگر وہ اسمبلیوں میں واپس نہ گئے تو انکی نااہلی کے کئی کیس انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔ کوئی عمران خان سے پوچھے کہ وہ اپنی پارلیمانی طاقت اور دو صوبائی حکومتوں کے مورچے کو تباہ کر کے جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کا وقت نکل چکا ہے۔ وہ جمہوری سیاست کے وِلن بننے کی بجائے اس کے ہیرو کیوں نہیں بنتے وگرنہ وہ اس پیرانہ سالی میں پلے بوائے بن کے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں