وزیراعظم شہباز شریف نے “اینٹ، سریے” کے ترقیاتی ماڈل سے ہٹ کر چار برس کے لیے “تعلیمی ہنگامی حالت” کا نہایت خوش کن اعلان تو کیا ہے، لیکن اعلانات کی بھرمار میں انکا یہ اعلان کیا واقعی قابل اعتنا ہے؟ اُنکے اس مژدہ کے بعد کچھ خبر نہیں کہ چراغوں میں روشنی ہوگی بھی کہ نہیں ؟ صوبے بھی چپ سادھے ہیں، جنکی کہ یہ آئینی ذمہ داری ہے اور متعلقہ محکموں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت 5 سے 16 برس کے بچوں کے لیے لازمی و مفت اور معیاری تعلیم کو 2010 میں ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن اس عرصہ میں بننے والی پیپلزپارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی حکومتوں نے اس بارے میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہ کی۔ سیاسی پذیرائی کے لیے ہر طرح کے خیراتی کارڈز تو تھوک کے حساب سے بانٹے گئے، مگر غربت و افلاس، ناخواندگی و بے روزگاری اور آبادی کے خوفناک پھیلاؤ کے مسائل بارے پائیدار ترقی یا انسانی سلامتی و خوشحالی کے لیے کوئی پائیدار منصوبہ نہ کسی سیاستدان، نہ کسی ادارے اور نہ عالمی مالیاتی اداروں کو سوجھا۔ و جہ صرف ایک ہے! مال خور اور کرایہ بٹور مفتی و خاکی اشرافیہ کا قبضہ جو سماج و ریاست کو کھائے جارہا ہے۔ نتیجتاً، سماجی ترقی کے انسانی پیمانوں پر پاکستان کا نمبر 138 ہے یعنی ہم پسماندہ ترین ممالک کی صفوں میں بھی نچلے درجہ پہ ہیں، ہیٹی سے بھی نیچے۔ فقط خواندگی اور تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو معلوم پڑے گا کہ 260 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں اور پاکستان کا لٹریسی ریٹ صرف 62 فیصد ہے جس میں لڑکیوں اور پسماندہ علاقوں کی شرح کہیں کم ہےاور جو خواندہ بھی ہیں، اُن میں 70 فیصد (10 برس کی عمر تک) ایسے ہیں جو نہ پڑھ سکتے ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں اور نہ گنتی کرسکتے ہیں۔ رہے گریجوایٹس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ان میں خال خال ہی اپنی ڈگری کے حقدار ہیں۔ وجہ صرف یہ نہیں کہ پاکستان اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 1.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو کہ یقیناً بنیادی وجہ جہالت ہے۔ قومی سلامتی کی ریاست (جو کہ جدید ہے) کا ماورائے زمینی و مقامی تاریخی اور مذہبی قدامت پسندی کا نظریہ جسکی فکری تاریخ قرون وسطی میں منجمد ہوکے رہ گئی ہے جسکی ایک صورت درس نظامی اور سوشل میڈیا پہ جاہلانہ کج بحثی میں بھی نظر آتا ہے۔ پاکستان کی گھٹی ہوئی نظریاتی فضا “بس علموں بس کریں او یار” کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔ علم کی جستجو ہے، نہ سائنس کی پذیرائی، فکری پرواز ہے نہ تخلیق کی جستجو۔ جنہیں پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے، اُنکی بڑی اکثریت کی فکری کنگالی کا طوطی سوشل میڈیا پہ اندھیر مچائے ہوئے ہے۔ اور کس کی کتنی طلب ہے کا تعین بیہودگی کی بڑھتی ہوئی مانگ پر ہے۔ جو ملک جدید ریاستی و آئینی ڈھانچے کے باوجود ریاست کے بارے میں یہ تعین نہیں کرسکا کہ وہ ایک قومی جغرافیائی ریاست ہے یا پھر ایک ایسی مذہبی ریاست جو تاریخی قومی و ثقافتی اکائیوں کی قبر کھودنے پہ مصر ہے۔ تو پھر اسکے نظریہ علم اور فکری مکتب بھی اسی فکری تضاد کا مظہر ہیں۔ علمائے کرام کا سواد اعظم ہے کہ علم صرف اور صرف مقدس صحیفوں کی دین ہے جبکہ دنیاوی و مادی و سماجی علوم شیطانی بہکاوا ہیں۔ عرب و عجم اس پر بضد رہے اور بالآخر زیادہ تر مسلم ممالک نے قرون وسطیٰ کے فکری ملبے کو خیر باد کہہ کر مغربی احیائے علوم سے رجوع کیا جیسے مغرب نے عرب مفکرین اور سائنسدانوں سے کبھی فیض پایا تھا۔
وزیراعظم کے ایجوکیشن ایمرجنسی کے اعلان کے وقت ہر سال 47 لاکھ نفوس کا اضافہ ہورہا ہے، آبادی کے اس اضافے پہ لوگ خوش ہیں، یہ بھولتے ہوئے کہ انکی پرورش، خوراک، صحت، تعلیم و تربیت اور روزگار کا بندوست کیسے ہوگا؟ آبادی کی منصوبہ بندی ہے نہ نئی نسلوں کی پرداخت کی کسی کو فکر۔ ایسے میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں ہر برس 7 لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے، جو صرف غریبی کا مظہر نہیں، سیاست کی اپنی آئینی ذمہ داری سے روگردانی بھی ہے۔ تعلیمی اعتبار سے 120 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 113 ہے اور جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد سب سے نیچے۔ (سری لنکا 92 فیصد اور مالدیپ 98 فیصد)۔ صوبائی سطح پر جہاں تعلیم صوبائی محکمہ ہے، سب کے سب کا علمی غفلت میں مقابلہ ہے۔ خواندگی میں سب سے پیچھے بلوچستان ہے جہاں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 3.13 ملین، اس کے بعد سندھ 7.63 ملین، پھر پختونخوا 3.63 ملین اور پنجاب میں 11.37 ملین ہیں۔ اس ستم ظریفی میں اگر کوئی ایک اچھی مثال ملی بھی ہے تو میرے دوست سرائیکی دانشور، اسلم رسولپوری مرحوم کے گاؤں رسول پور (راجن پور ڈسٹرکٹ) جہاں 100 فیصد خواندگی بھی ہے اور جرم ندادر۔ خواندگی اور تعلیم میں اگر علاقائی تفریق ہے تو صنفی تفریق بہت ہی خوفناک ہے کہ خواتین پڑھ لکھ کر بھی چادر و چاردیواری میں قید رہیں۔ پڑھ لکھ جائیں تو بھی بیروزگار رہنے اور گھریلو ملازم بنے رہنے پہ مجبور ہیں۔
تعلیمی ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد وزیراعظم کو کونسل آف کامن انٹرسٹ کا اجلاس بلا کر کچھ بنیادی فیصلوں میں صوبوں کی شراکت کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس اجلاس میں قومی آمدنی کا کم از کم 4 فیصد تعلیم کے لیے وقف کیا جائے۔ ہر صوبہ اپنی تعلیمی پالیسی و منصوبہ تمام شراکت داروں کی مدد سے طے کرے۔ ہر طرح کے تعلیمی ادارے، نظریہ تعلیم، مقصد تعلیم، نصاب، طرز تدریس و امتحانی نظام، تعلیمی سہولیات و ضروریات، ورچوول تعلیم کے نظام کے قیام، اساتذہ کی تربیت، طلبا میں سوال کرنے، تحقیق کرنے، لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا کریں، نیز بچوں کی خوراک، افزائش اور صحت کی ضروریات فراہم کی جائیں۔ تعلیم کو تکنیکی صلاحیتوں اور روزگار و معیشت اور معاشرے کی سماجی ضروریات کے ساتھ جوڑنے جیسے معاملات کو زیر غور لانا چاہیے۔ اسکے لیے کانفرنسیں ہوں، سیمینار ہوں، تحقیقاتی گروپ سفارشات مرتب کریں۔ ایک قوم، ایک نظریہ اور یکساں نظام تعلیم کے فرسودہ تصورات سے جان چھڑاتے ہوئے، علم و تحقیق، تعلیم و تربیت کے متنوع مواقع سبھی کے لیے فراہم ہوں اور علمی مقابلے و مسابقت کو فروغ دیا جائے۔ خاندانی و پیشہ وارانہ منصوبہ بندی کو تعلیم و تربیت کے منصوبے اور بچوں و نوجوانوں کی فکری و جسمانی صحت کے ساتھ جوڑا جائے۔ پبلک سیکٹر کو کیسے بہتر اور بارآور بنایا جائے، پرائیویٹ سیکٹر کو صرف فیس بٹورنے اور اساتذہ کے استحصال سے محفوظ کیا جائے۔ پیشہ وارانہ کارکردگی کی مانیٹرنگ، تعلیمی استعداد کی معروضی پرکھ اور تعلیم کے میدان میں حکومتی گورننس میں انقلابی تبدیلی اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ، ہر بچے کو ہر سطح پر مفت اور اعلیٰ تعلیم کی سہولت فراہم ہو ایک ایسی ہونہار نسل تیار ہو جو پاکستان کے روشن مستقبل کی امین بنے، پاکستان کا مستقبل صرف ایک تعلیم و تربیت یافتہ نئی نسل سے محفوظ ہوسکتا ہے، “اینٹ سریا ماڈل” سے نہیں اور نہ ہی انسانی سلامتی کی قیمت پرفوجی سلامتی کا بوجھ بڑھاتے چلے جانے سے ہوسکتا ہے۔ کیا موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ طرفہ طویل المدت منصوبے کی تشکیل کرسکتی ہیں اور اس پر عملدرآمد یقینی بناسکتی ہیں؟ دیکھتے ہیں۔
317
“تعلیمی ہنگامی حالت” کا اعلان: صدا بہ صحرا؟ انگیخت: امتیاز عالم
Spread the love