بات ساحر لدھیانوی کی نظم “بہت گھٹن ہے” سے کہیں آگے جاچکی۔ امیر شہر کو خبر ہو کہ:
فقیر شہر کے تن پہ لباس باق( نہیں) ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
یو این ڈی پی کی انسانی ترقی کے اشاریوں (ایچ ڈی آئ انڈیکس) پر 2023-24 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار 193 ممالک میں 164ویں نمبر پر ہے اور اب یہ ملک درمیانے ترقی پزیر ممالک کی برادری سے خارج ہوکر کم آمدنی والے 32 ممالک کی صفوں میں شامل ہوچکا ہے۔ جہاں اچھی زندگی گزارنے کی کنجائش ہے، نہ تعلیم کی، نہ روزگار کی اور نہ انسانی گزر بسر کے سامان کی۔مسلم دنیا کی واحد نیوکلیئر پاور اور سب سے بڑی فوجی قوت کی حالت انسانی ترقی کے اشاریوں پر تباہ حال ہیٹی سے بھی بد ترہے۔جب سے یہ حکومت آئ ہے اجلاسوں پہ اجلاس کیئے جارہی ہے لیکن کسی ایک اجلاس سے یہ خبر نہیں آئ کہ انسانی ترقی کی مخدوش تر ہوتی صورت حال پہ بھی غور کیا گیا۔ نئی اسمبلیوں کے کئ ھنگامہ خیز اجلاس ہوچکے، لیکن کسی ایک اجلاس میں مجال ہے کہ کسی رکن نے انسانی عدم سلامتی کو موضوع بحث ہی بنایا ہو۔ وہ جو تمام مسلوں کے حل کے لیئے آئینی دائروں سے ماورا اور وفاقی اور صوبائ اداروں سے بالاتر سپر کونسل (SIFC) بنائ گئ ہے، اسکے کسی اجلاس کی کسی کاروائ میں انسانی سلامتی کی تباہ حالی پہ سلامتی کے اجارہ داروں نے چند لمحوں کے لیئے غور کیا؟
فکر ہے تو اُمرا کے استحصالی غلبے اور انکی سلامتی کے اداروں کی۔ کُلی حکومت کی بس ایک ہی نوید ہے کہ خدا خدا کرکے آی ایم ایف اگلے پروگرام کے لیئے راضی ہوا لگتا ہے، لیکن پہلے سے سخت ترین شرائط کے ساتھ۔ پاکستان کی قرض خور ریاست اور اُمرا کی کرایہ خور معیشت کو دست نگری کے بحران کو برقرار رکھنے کے لیئے اگلے تین برس میں 72 ارب ڈالرز کے نئے قرضے درکار ہونگے جبکہ اسوقت کل قرض سن 2006میں 37 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 131 ارب ڈالرز سے بڑھ گیا ہے جو اگلے تین سال میں مزید بڑھ کر 203 ارب ڈالرز سے کہیں زیادہ ہو کر معیشت کے لیئے سوحان روح بن جائے گا۔ جبکہ اس سال مزید ایک کروڑ لوگ پہلے سے موجود آبادی کے خطِ غربت سے نیچے سسکنے والے 40 فیصد مفلوک الحال لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ المیہ یہ ہے کہ نوازشریف کی تصویر کے ساتھ خوراک کے نگہبان تھیلے مستحقین میں تقسیم ہونے سے پہلے ہی منتخب اُمرا کی ہوس کی نذر ہوگئے۔ خیراتی پروگراموں بشمول بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، یا نگہبان خیراتی امداد، یا تحریک انصاف کےاحساس پروگرام سے تو اشک شوئ بھی نہیں ہوپائیگی۔ کسی حقیقی غریبی ہٹاوُ پروگرام اور پائیدار انسانی ترقی کے ٹھوس عوامی ترقیاتی پروگرام کے بغیر مفلسی کے انبار کے بوجھ تلے آبادی کی الثریئت تو دم توڑتی نظر آئیگی ہی لیکن اُمرا کا کے شکم کا جہنم بھرنے والا نہیں۔اس طبقاتی تفریق میں ایک طرف یورپیئن طرز کے محفوظ محلات اور دوسری جانب مفلوک الحال لوگوں کی ہر طرح کی شہری سہولتوں سے محروم غیر محفوظ کچی بستیوں کے پھیلتے جنگلوں میں آگ پھیلنے کے سوا کچھ ہونے والا نہیں۔ کہ خزانہ تو فقط قرض اور اسکے سود کی ادائیگی میں ختم ہوتا رہے گا اور پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے لبادے میں منڈی کے اژدہا کا لقمہ بن جائے گا۔ جبکہ ترقی کی نمو اگلے تین برس میں بمشکل آبادی کی نمو کے برابر ہو پائے گی۔ خاک ایسی “قومی سلامتی” پہ جس میں انسانی سلامتی حذف کردی گئ۔ اور لعنت ایسی سیاست پر جو حکمت کاروں کے ھاتھوں بانجھ اورشرمسار ہوئ اور جسے عوام کی خبر گیری کی بجائے سوائے اپنے اپنے گروہی مفادات کی تسکین کے لیئے فروعی جھگڑوں سے فرصت نہیں۔
ان حالات میں سبھی فریق اداراتی ہوں یا سیاسی پاکستانی سماج کو “کھوبے”یعنی عمیق دلدل سے نکالنے کی بجائے اپنا اپنا لُچ تلنے میں تن دہی سے مصروف ہیں۔ تو پھر “تیرا کیا بنے گا کالیا؟”، سوائے بیچاری مملکت خداد کو جس اللہ نے دی اسے لوٹانے کے؟ ایسے میں پھر سے میدان میں اترا بھی ہے تو ایک اور اپوزیشن محاز جو سویلین آئینی وپارلیمانی اور وفاقی بالا دستی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیئے پہلے سے دندناتے بحران کے سمندر میں سونامی بپا کرے گا۔ ماضی میں بھی ھم نے ایسے کئی جمہوری محاز بنتے بگڑتے دیکھے ہیں جو حصہ بقدر جُسہ پاکر تاریخ کے ڈھیر میں کہیں گُم ہوگئے۔تحریک انصاف کی اگوائ میں جن پانچ جماعتوں نے جو محاز تشکیل دیا ہے اس کی برکت سے جمہوری منشاتو کچھ واضح ہوئی ہے جسکا بنیادی مقصد مقتدرہ کے اقتدار اعلی کا خاتمہ ہے اور عوام کی حکمرانی کے گمشدہ باب کو قومی ایجنڈے پہ لانا ہے۔ کیا اسی طرح کے نکات پی ڈی ایم کے 26 نکاتی ایجنڈے میں شامل نہیں تھے؟ کیاچارٹر آف ڈیموکریسی کا اعلامیہ اسی جمہوری مقصد کا امین نہیں تھا؟ لیکن سب نے ایک ایک کرکے ان اعلانیوں سے روگردانی نہیں کی تھی؟ آخر کب تک یہ سرکس چلتا رہے گا جبکہ ہر کوئ اس پر متفق ہوا لگتا ہے کہ “کافی ہوگیا، اب بس کرو”! سیاسی استحکام لائے بنا کچھ چلنے والا نہیں اور یہ کسی ایک فریق یا ادارے کے بس میں نہیں۔ لیکن اگر بھیڑیوں کی خواب غفلت میں ایک دوسرے پہ جھپٹنے کی طرح کی جبلت سے جان چھڑالی جائے تو باری باری اسی کھوکھلی سویلئئن تنخواہ پہ صبر شکر کرنے کی ذلت سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ ۔ سیاسی مخاصمت کے اس بے ثمر ماحول میں پیپلز پارٹی کے کونے میں لگے چیئرمین بلاول بھٹو کی رگ جمہور پھڑکی بھی ہے تو اپوزیشن اور حکومت کو اس پر کان دھرنا چاہیئے۔ شہید زوالفقار علی بھٹو کی اس برسی پہ بلاول بھٹو نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے تشنہ تکمیل عہد پر عمل کرنے کی یاد دلاتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیئے سیاسی مخالفین کے مابین “میثاق مصالحت” کی تجویز پیش کی ہے۔ لیکن یہ میثاق تبھی ہو پائے گا جب متاثرہ فریق یعنی عمران خان اور انکی جماعت کی جائز شکایات کو منصفانہ اور جمہوری جذبے سے سنا اور ممکنہ طور پہ حل نہیں کیا جاتا۔ پارلیمینٹ کی بالادستی کے لیئے تحریک انصاف کے اپوزیشن محاز نے جو نکات اور مطالبات پیش کیئے ہیں، ان میں سوائے دوبارہ نئے انتخابات کے کوئ ایسا مسلہ نہیں جسے جیسی کیسی موجودہ پارلیمینٹ ہے اس میں بیٹھ کرسب باہم مل کر حل نہیں کرسکتے۔ نئے انتخابات کی جگہ متبادل کے طور پہ ایک طاقتور پارلیمانی کمشن ان تمام حلقوں جہاں نتائج تبدیل کرنے کاالزام ہے پر سبک رفتاری سے پیش قدی کیوں نہیں کرسکتا۔ سال گزرنے کو ہے، وہ تمام سیاسی کارکن جو 9 مئی کے ھنگاموں میں ملوث پائے گئے کو رہا کیوں نہیں کیا جاسکتا اور عمران خان اور پی ٹی آئ کی قیادت کے خلاف تھوک کے حساب سے بنائے گئے مقدمات واپس اور سنگین الزامات والے مقدمات میں اُن کو ضمانتوں پہ رہا کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ متحارب سیاستدان ایک وسیع تر میثاق جمہوریت جس میں پارلیمانی بالادستی ٹاپ پر ہو اور میثاق معیشت جس میں انسانی ترقی و سلامتی بنیادی عنصر ہو پارلیمینٹ کے ایجنڈے پہ لاکر کیوں قومی اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکتے۔ وگرنہ مارا گھٹنا، پھوٹی آنکھ کے مصداق یہی طوفان بیہودہ سیاست چلتا رہے گا۔ لگے رہو منا بھائ، ہم جمہورئیت کے مارے کر بھی کیا سکتے ہیں؟
بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے