332

قاضی جی دبلے کیوں شہر کے اندیشے میں انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

محاورے کا قاضی شہر کے اندیشہ میں دبلا بھی ہوتا تو کیا فرق پڑجاتا۔ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کو آئین کی بالادستی ، انسانی حقوق اور خود اپنے آئینی ادارے کی ساکھ عفت و عظمت کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں اترنا چاہیے کہ یہی آئینی و عوامی منشا ہے اور انصاف کا تقاضہ بھی۔ جب جسٹس قاضی پہ ناروا بپتا ٹوٹی تھی تو وہ بڑی آن و شان سے سینہ سپر ہوگئے تھے۔ اب رفقا ججوں کی دہائی ہے اور عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ کی توقیر بھی داؤ پہ ہے۔ عجب طوفان توہین عدالت مچا ہے اور پسند و ناپسند کی سیاسی انتہا پر ۔ فارم 47 کے مستفضین کرائے کے ڈھنڈورچی بیک زبان ہوکر چھ شکایت کنندہ معزز ججوں اور خاص طور پر جسٹس ستار کی حالیہ مداخلت بے جا کے خلاف احتجاج پر کپڑوں سے باہر ہوچلے ہیں۔ محترم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے توہین عدالت پر نہایت متحمل نوٹس کے باوجود توہین کے مرتکب ملزمان نوٹس ملنے کے باوجود مقبوضہ میڈیا پر “اداروں” کی بے جا مداخلت پر ججوں کے احتجاج پر سینہ کوبی کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن اپنے پروگرام میں اینکر شاہزیب خانزادہ نے توہاً و کرہاً پوچھ ہی لیا کہ سابق پاک سرزمین کے مجاہد کس کے اشارے پہ برافروختہ ہورہے ہیں۔ غصہ و تلملاہٹ ویسی ہی ہے جسے میں پچاس برسوں سے جاگیردارانہ اسٹیٹس میں دیکھتا آیا ہوں، جہاں جب کسی مزارع کا قتل کردیا جاتا ہے یا پھر کسان کی بیٹی کی عصمت دری کردی جاتی ہے تو ایسے سنگین جرم میں ملوث طاقتور مجرم یا اُسکے کارندوں کا نام زبان پہ لانا، جوابی ستم کے سلسلے کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ مظلوم چپ کا روزہ رکھ کر زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا جرم کی پردہ پوشی ہی چالو چلن (وہار) ٹھہرتی ہے۔ خفیہ ہاتھوں کی دست درازی بارے کون نہیں جانتا۔ جب کوئی صحافی تنک کر اپنے مہمان سے پوچھتا ہے کہ آپ کس “ہاتھ” کی بات کررہے ہیں تو جواباً جب مہمان اُلٹا سوال کرتا ہے کہ آپ ہی بتائیں کہ آپ بھی تو جانتے ہیں تو بیچارہ اینکر کھسیانی ہنسی سے سوال ٹال دیتا ہے۔ اسے کہتے ہیں “طاقت کی دہشت”! جسکی تاثیر کا ذائقہ چکھنے کی کس میں ہمت؟ جبری گمشدگی میں ہمت کام آتی ہے، نہ منت۔ سہمے ہوئے لوگ چپ کے روزے میں عافیت جانتے ہیں۔ معاملہ چھ معزز ججوں کے گناہ بے لذت تک محدود نہیں رہا۔ مقہور و مجبور لیکن پُرجلال منصفوں کی شکایات کے انبار لگ گئے ہیں، فقط وکلا گردی کے نہیں ہر سطح کے طاقتوروں کی لامتناہی زورہ وری کے۔ تمام ہائیکورٹس یک زبان ہوکر فریادی بن گئی ہیں۔ اس پر اب ڈھکنا ڈالے تو کون، لاوا پھٹنے کو ہے۔ اگر تمام متاثر جج صاحبان قطار اندر قطار کھل کر سامنے آن کھڑے ہوئے تو پراکسی توپچیوں کی توپوں میں ڈالا گیا بارود گیلا ہوجائے گا۔ جس طرح آزاد کشمیر کی متحدہ عوامی ایکشن کمیٹی کی کامیاب عوامی مزاحمت کے آگے سب ڈھیر تو ہوگئے اور عوامی مطالبات کو ماننا پڑا، لیکن احتجاج ختم ہوتے ہی زبان کھولنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے جیسے کشمیری شاعر احمد فراز کی “جبری گمشدگی”۔ ویسے ہی اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف اِک زہریلی مہم چلائی جارہی ہے اور عدلیہ اور وزارت دفاع کے محکموں میں تصادم کھل کر سامنے آرہا ہے اور حکومت کی سٹی گم ہوتی لگ رہی ہے۔
قرائن سے ظاہر ہے کہ جسے “مقتدرہ” کہا جاتا ہے وہ کبھی سے میڈیا میں “ریاست” کے نام سے پکاری جاتی ہے، جو کہ ریاست کی آئینی تشریح کے منافی ہے، وہ تقسیم ہوگئی ہے۔ عدلیہ کے اندر بھی اختلاف رائے ہے اور عدلیہ و انتظامیہ کے محکمہ دفاع کے محکموں میں بھی رسہ کشی بڑھ گئی ہے۔ ایسا ہی ایک مرحلہ جنرل پرویز مشرف اورچیف جسٹس افتخار چوہدری کے مابین جھگڑے کی صورت سامنے آیا تھا اور عدلیہ کی “آزادی” کی تحریک اتنی کامیاب رہی کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو نیچے لگا کر ٹرائیکا کا ایک طاقتور مرکز بن گئے تھے اور انہوں نے ایک جھٹکے میں ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا تھا۔ بالعموم منتخب حکومتیں، عدالتوں کی ہٹ دھرمی کے آگے سجدہ ریز ہوتی رہیں۔ پھر جس طرح چیف جسٹس ثاقب نثار اور اسکے رفقا نے وزیراعظم نواز شریف کو نہ صرف نااہل قرار دیا بلکہ 2018 کے گرینڈ الیکٹرل فراڈ کا حصہ بنتے ہوئے نواز شریف کو انتخابات سے چند روز پہلے طویل سزا بھی دے ڈالی۔ اسی طرح عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ انصاف کا جو سرقہ بالجبر ہورہا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ یوں سیاست میں عدلیہ کی متحارب مداخلت کے ہاتھوں خود عدلیہ بھی تقسیم ہوتی چلی گئی جسے نواز لیگ اور تحریک انصاف نے اپنی باہم چپقلش میں تحقیر و توصیف کا نشانہ بنایا۔ دریں اثنا قاضی فائز عیسیٰ ایک راست اورآزاد منش جج کے طور پر سامنے آئے اور انہوں نے فیض آباد دھرنے کے مقدمہ میں ایجنسیوں کے سربراہ سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو جرأت سے ذمہ دار ٹھہرایا۔ چیف جسٹس بننے پر اُن سے بڑی توقعات وابستہ ہوگئیں اور خود سپریم کورٹ کے اندر انہوں نے بہت مناسب اصلاحات کا آغاز کیا۔ گو کہ انہوں نے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا لیکن بدقسمتی سے وہ ایک ہائبرڈ رجیم کی جگہ دوسرے ہائبرڈ رجیم پلس کے لیے مقتدرہ کی بڑی اسکیم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی الیکشن کمیشن کی تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے بطور جماعت کے اخراج کی سازش کو نہ روک پائے اور قانون و ضوابط کی لفظی تشریح کا شکار ہوکر تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھینے جانے کی غیر جمہوری کوشش پہ مہر لگا بیٹھے۔ انکے لیے بھی سنبھلنے اور توازن بحال کرنے کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ انکی سربراہی میں سپریم کورٹ کو چھ ججوں کی شکایت سمیت، عدلیہ کی خود مختاری اور شفافیت کے لیے دور رس اصلاح احوال کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہونگے جس میں نہ صرف انتظامیہ کی عدلیہ کے معاملات میں در اندازی اور عدلیہ کی انتظامی معاملات میں دخل اندازی کو روکنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں بھرتیوں کے طریقہ کار اور ججوں کے احتساب کے لیے نہ صرف بطور ادارہ فل کورٹ میں بڑے فیصلے کرنے ہونگے بلکہ پارلیمنٹ کو 19 ویں ترمیم کی غلط روی کی تصیح کے لیے سفارشات بھیجنی چاہئیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوام کے حق رائے دہی کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کے بڑے محافظ کے طور پر بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بہت سے مقدمات کو جلد سن کر تاریخ ساز فیصلے کرنے ہونگے۔ انہیں اکتوبر میں اپنی بروقت ریٹائرمنٹ کا بھی اعلان کردینا چاہیے۔ اندریں حالات وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کی وزیراعظم کو صدر کو اداروں میں صلح صفائی کرانے کے لیے جرگہ بلانے کی تجویز خوشنما ہونے کے باوجود غیر آئینی ہے۔ حل سیدھا سادہ ہے، ہر ادارہ اپنی آئینی حد میں رہے اور ہر سربراہ ادارہ خاص طور پر فوج کے سربراہ اپنے پیشرو کی چھوڑی ہوئی غلط روایات سے خلاصی حاصل کرے۔ سیاستدان سیاسی اختلافات کو جمہوری طریقے سے مذاکرات کے ذریعہ حل کریں اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف غیر آئینی مداخلت کا آلہ کار بننے کی بجائے عوام کے حق رائے دہی کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ایک میثاق آئین و جمہوریت پر قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔ اللہ اللہ خیرصلہ!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں