123

کس سے منصفی چاہیں؟ انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

کوئی اکسٹھ برس پہلے کا قصہ ہے نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں قیدی فیض احمد فیض نے انتہائی ابتلا کے حالات میں بھی اْمیدِ سحر کا دامن تھامے علاج لیل ونہار کا قصد کرتے ہوئے ایک رزمیاتی نظم ’’نثار میں تیری گلیوں کے‘‘ میں گلہ کیا بھی تو:
بنے ہیں ااہلِ ہوس، مدّعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
آج بھی منظر کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم جوڑیشل کونسل اور تمام جج صاحبان کو غالباً ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کاسہارہ لیتے ہوئے (جس میں ججوں کے ساتھ کسی زیادتی کے ازالے کا زکر نہیں)انتظامیہ اور اسکے تحت فوج کی خفیہ ایجنسی (ISI) کی عدالتی معاملات اور ججوں کو بلیک میل کرنے کی زاتی شہادتوں کے ساتھ ہائیکورٹ کے ججوں بشمول ضلعی عدلیہ کے حوالے سے جو خوفناک انکشافات کیئے ہیں اور سنگین الزامات لگائے ہیں اس نے ملک بھر میں ایک کھلے راز کے فاش کیئے جانے پر اک تہلکہ مچادیا ہے اور قانون کی حکمرانی کے داعیان و مبلغین کو صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان میں دھائیوں سے جاری اور بڑے بڑے سیاسی موڑوں اور اہم ترین آئینی و قانونی مقدمات میں انتظامیہ کے دباؤ میں بے بس ججوں/بنچوں کے ہاتھوں انصاف کے قتل عام کا نظارہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا سی گئی ہیں۔ ہر بار جب مردِ آہن نے آئین توڑاتو اسے مجذوب عدلیہ کو ( نظریہ) ضرورتاً عدالتی توثیق کے بدلے ملا بھی تو پی سی او ججز کا شرمناک اعزاز۔ یہی وہ روگ عناصر تھے جنہوں نے مخنس ججوں پر دباوْ ڈال کر ان کے ذریعہ بھٹو کو پھانسی دلوائی، بے نظیر بھٹو کی دوبار، نواز شریف کی تین بار حکومتیں قبل از وقت ڈسمس کیں اور اب عمران خان کو جیل کی بند عدالت میں پٹھو ججوں کے زریعہ سرعت سے سزاؤں پہ سزائیں دلوائیں۔ اسلام آباد کے چھ بہادر ججوں نے جس ہمت اور بیباکی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے پورے نظام عدل کے خفیہ ہاتھوں میں ترغمال کیے جانے کی پرانی جانی پہچانی کہانی طشت از بام ہوگئی ہے۔ لہٰذا اسے چھپانے کی کوششیں تو تیز تر ہو ہونی ہی تھیں اور سیاسی محازآراؤں کو اپنے اپنے دکھوں کا رونا تو رونا ہی تھا۔ چھ ججوں کا مشترکہ خط ایک ایسا عامل تھا کہ ریاستی اداروں بشمول اعلی ترین عدالت اور حکومت کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ چیف جسٹس محترم فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اوپر تلے فل کورٹ اجلاس منعقد کیے گئے اور ملک کی اعلی ترین عدالت کو یہ کیس خود سننے یا اپنی نگرانی میں تحقیقات کرانے کی کوئی ترکیب نہ سوجھ پائی یا پھر ہمت ہی نہ ہوئی۔ لہذا، سپریم کورٹ اور انتظامیہ نے باہم رضامندی سے تحقیقات کرانے کی ٹوپی ایک ایسی بے پیندے کی حکومت کے سر پہنا دی ہے جس کے خالق مقتدر ترین محکموں کے منہ زور اہلکاروں کے خلاف بے کس ججوں نے ایف آئی آر کٹوائی ہے۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر معاملے کو ٹھپ کرنے یا مٹی ڈالنے کے لیئے تحقیقاتی کمشن کا آزمودہ نسخہ شہباز حکومت اور اسکے قانونی ماہرین چیف جسٹس کے مشورہ سے سامنے لائے ہیں۔ یہ فیصلہ اسی روز ہوا (جب قبل ازیں سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ کے ملٹری کورٹس کو غیر قانونی قرار دینے کے 23 اکتوبر کے فیصلے کو پانچ/ایک کی اکثریئت سے معطل کرنے کے بعد) چھ رکنی بنچ نے اپنے گزشتہ فیصلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ملٹری کورٹس کواپنا کام جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کو کم سزا والے قیدیوں کو رہا کرنے کا مشورہ دے کر عمللاً سولیئن کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے استحقاق کی تصدیق کردی ہے۔ ایسے میں جب حالیہ چیف جسٹسز کی شرمناک کارگزایوں کے باعث اخلاقی دیوالیہ کا سامنا ہے، کسی گمشدہ شریف النفس سابق چیف جسٹس کی تلاش شروع کی جاچکی ہے۔ یقینا سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا نام ذہن میں آتاہے، لیکن وہ کیوں ایسی اوکھلی میں سر دیں گے جس سے کچھ برآمد ہونے والا نہیں۔ ریاست کااخلاقی دیوالیہ اتنا پٹ چکا ہے کہ کسی کو حکومتی کمشن پہ کوئی اعتبار نہیں۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ حمود الرحمان کمشن، میمو گیٹ کمشن، مسنگ پرسنز کمشن اور صحافی سلیم شہزاد کے قتل پہ بنائے گئے کمشن سے کوئی نتیجہ نکلا نہ کسی طرح کی اصلاح احوال ہوئی۔کیا مسنگ پرسنز اور سلیم شہزاد کمشن کی رپورٹس میں خفیہ ایجنسیوں کے دائرہ کار، حدود قیود اور جوابدہی کے لیئے دی گئی تجاویز پر کسی طرح کا کوئی عمل ہوا۔ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی عیسی کے تاریخی فیصلے پہ ابھی تک عملدرامد نہیں ہونے دیا گیا جس میں اصلاح احوال کے لیئے زبردست ھدایات ہیں۔ حکومتوں میں ہمت تھی، نہ عدلیہ میں اتنا زور تھا او حکومتوں میں ہمت تھی، نہ عدلیہ میں اتنا زور تھا اور نہ پارلیمینٹ اس اہل تھی کہ ریاست کے بے قابو گھوڑوں کو لگام دے پاتیں۔ آئینی ریاست سے بالا بدچلن ریاست کو آئینی دارے میں لانے کی ایسی کسی کوشش کا انجام ہم قومی رہنماؤں اور وزرائے اعظم شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو شہید، بے نظیر بھٹو شہید، نواز شریف، صدر آصف علی زرداری اور اب عمران خان کے انجام کی صورت دیکھ چکے ہیں۔

پہلے تو تحقیقاتی کمشن پر ہی بڑا تنازعہ اٹھ کھڑا ہواہے۔ تحریک انصاف نے تو اسے سرے ہی سے رد کردیا ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ جو نانصافیاں اسکے بانی اور کارکنوں کے ساتھ روارکھی گئیں جسکی گواہی بقول پی ٹی آء وکلا مبینہ طور پہ چھ ججوں نے دے دی ہے پہلے انکا سدباب کیا جائے۔ دوسری طرف نواز لیگ نے شریف خاندان اور لیگی کارکنوں کے خلاف ناانصافیوں کا کھاتہ کھولنے کاتقاضہ کردیا ہے۔ابھی دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی، بلوچ، پختون اور ہزارہ قوم پرست اور مہاجر لسانیئت پسند کون کون سی نا انصافیوں کے کھاتے کھولتے ہیں۔لیکن ان تمام شکایات میں واحد قدر مشترک ’’مقتدرہ اور اسکے لمبے ہاتھوں‘‘ کے بارے میں ہوش ربا داستانیں ہیں اور فوج اور اسکی ایجینسیںوں کی ہر سو مداخلت کاری کو روکنے کاتقاضہ ہے۔ اس حکومت کے مقتدر سرپرست اور محترم وزیر قانون اب ججوں کی شکایت پر ٹرمز آف ریفرنس تیار کریں گے جس میں بڑا سوال یہ ہوگا کہ نظام عدل میں مقتدرہ اور اسکے خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کی فوجداری تحقیق کا سلسلہ کہاں سے شروع اور کہاں ختم کیا جائے، جس میں بقول وزیر قانون شاید یہ بھی شامل ہو کہ چھ مدعی ججوں نے ’’بیرونی مداخلت‘‘ کی شکایت کرکے کہیں اپنے منصبی کردار کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔ شاید اعلی سرکاری ردعمل یہ لگتا ہے کہ ججوں نے ایسا کرکے سلامتی کے اداروں کی اعلی وارفع شان میں گستاخی کرتے ہوئے ملکی سلامتی کو خطرے میں تو نہیں ڈال دیا؟ پاکستان کی تاریخ میں اعلی عدلیہ فوجی مقتدرہ کے اشاروں پہ کھیلتی رہی ہے، لیکن ججز بحالی کی تحریک کی کامیابی کے بعد عدلیہ بھی پاور اسٹرکچر کا حصہ بن گئ اور متعدد چیف جسٹسز حکومتوں کے لیئے درد سر بن گئے اور دو وزرائے آعظم کو گھر بھیج کر رہے۔ اسکے بعد عدلیہ تقسیم ہوگئ جو ھنوز جاری ہے۔ ویسے چیف جسٹس اور حکومت سے زیادہ پاک فوج کے سپہ سالار جناب جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی چیف کی زمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ان الزامات کی تحقیقات کریں اور اداراتی کوڑ آف کنڈکٹ کو واشگاف طور پر از سر نو متعین کریں بلکہ آئینی دائرہ عمل کے اندر رہتے ہوئے اداراتی اصلاح احوال کے لیئے مناسب قانون سازی اور پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہی کے ٹھوس بندوبست کی تجویز پیش کرکے سپاہ پاکستان کی لاج دوبالا کریں۔ کچھ دوستوں نے پارلیمینٹ سے جانے کیوں یہ توقع ظاہر کی ہے کہ وہ بطور سپریم ادارہ بے مہار خفیہ والوں کے بے جا گھمبیر اور غیر آئینی طرز عمل کا سدباب کرے جو اسے آئیڈیلی کرنا بھی چاہیئے۔ لیکن وہ بھول گئے کہ موجودہ پارلیمنٹ تو وجود میں آنے سے پہلے ہی اپنا اخلاقی جواز ووٹ کی گنتی چوری کے ہاتھوں کھوچکی ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ موجودہ متحارب پارٹیاں اپنی اپنی ابن الوقتی کے باعث ایک ہی سراخ سے باری باری ڈسے جانے کے باوجود مشترکہ مقصد کیلیئے اکٹھی ہونے کو تیار نہیں۔
پاکستان کو طے کرنا ہے کہ اس نے ایک آئینی جمہوریہ بننے کی طرف بڑھنا ہے یا پھر ایک قومی سلامتی کی ریاست کو بگڑ کر روگ اسٹیٹ کی جانب بڑھنے سے سختی سے روکنا ہے۔ پاکستانی ریاست کا بحران ہی یہ ہے کہ یہ کس طرز کی ریاست ہو؟ آئینی وفاقی جمہوریہ یا پھر قومی سلامتی کی ریاست کی کوئی بگڑی ہوئی صورت۔جب کوئی ریاست آئین کی پاسدار نہ رہے تو پیپلز اور اسٹیٹ کے مابین سوشل کنٹریکٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ جب ادارے آئینی حدود میں نہ رہیں، جب شہری ماورائے قانون غائب اور قتل ہونے لگیں، میڈیا پر سخت اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بندشیں لگ جائیں اور شہریوں کی زبان بندی ہوجائے، عدالتیں انصاف کی قتل گاہیں بنادی جائیں، شہری و انسانی حقوق پامال کردیئے جائیں، مقتدر اشرافیہ لوٹ مار کی تمام حدیں پھلانگ جائے، لوگ زندگی کی ہر آسائش سے محروم ہوجائیں، دہشت گرد ہر سو خون خرابہ کرتے پھریں، خطے میں سب سے جھگڑہ اور ھمسائے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اندرونی خلفشارکو ہوا دیں، انتخابات کے نتائج بدل دیئے جائیں اور لوگوں کے حق رائے دہی کو روند دیا جائے اور قانون کی حکمرانی ٹرگر ہیپی مجاہدوں کے ہاتھوں پامال ہوجائے تو ججز بھی چلا اُٹھیں۔تو ریاست ریاست نہیں رہتی روگ بن جاتی ہے۔لیکن یہ سب چلنے والا نہیں! پاکستان کو ایک دن جمہوریہ بننا ہے جسک خواب قائدآعظم نے دیکھا تھا۔
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں