297

ایف آئ آر بنام وزیر آعلی مریم نواز

Spread the love

ڈیٹ لائین بہاولنگر: آیاتو تھا اپنے آبائ شہر اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ پُر امن عید منانے اور ارادہ تو پسمانہ ترین ضلع بہاولنگر کی سماجی ومعاشی بدحالی پر لکھنے کا (جس کی حالت زار تر و تازہ اور پُر عظم وزیرآعلی کی خدمت میں آخر میں پیش کرنی ہے کہ انکی مدری شفقت کی توجہ بہاولنگر کی پسماندگی اور اسکے لاکھوں بے کس افتادگان خاک کی عُسرت و غربت کی جانب مبذول کرائی جاسکے)، لیکن بیچ میں آن پڑی اک خوفناک مُڈ بھیڑ جو شروع تو ہوئ کسانوں کے بے جا پولیس مداخلت کے خلاف مقابلے سے اور ختم ہوئ بھی تو فوجی جوانوں کی ماورائے قانون پولیس کی دُھنائ پر۔ 8 اپریل کو قانون سے ماورا کرپٹ پولیس پارٹی کا چک سرکاری کے کسانوں سے عید بھتہ وصولی کے لیئے حملہ، بہادر دیہاتیوں کے ھاتھوں بدنام زمانہ ایس ایچ او رمضان اور اسکے گینگ کی ہزیمت، پھر پولیس کی یلغار اور مظلوم انور جٹ کے خاندان کے مرد و خواتین جن میں ایک فوجی جوان خلیل بھی شامل تھا کی مدرسہ تھانہ میں خوفناک دُرگت اور 8 اپریل کو درج کی گئی ایف آئ آر کی طوطا کہانی۔ زخمی مغویوں کا 24 گھنٹے میں پولیس ریمانڈ نہ لینے پر فوجی حکام کی مداخلت، زخمی محبوس کسان خاندان کی ھسپتال منتقلی، 9 اپریل کو تھانے کے عملے کے خلاف پرچہ درج اور پروٹوکول کے ساتھ بہاولنگر سٹی تھانہ اے ڈویژن باعزت منتقلی۔ فوجی دستے کی عید کے روز (10 اپریل)اپنے سپاہی کی میڈیکل رپورٹ کے لیئے ھسپتال میں مسلح مداخلت اور پھر گرفتار پولیس ملزمان کو سبق سکھانے اور اپنے فوجی بھائ کا بدلا لینے کے لیئے ملزم پولیس اہلکاروں پر سٹی تھانہ پہ فوجی یلغار اور پولیس عملے کے ساتھ بہیمانہ سلوک۔ آخر میں ڈپٹی کمشنر زولفقار علی بھون اور ڈی پی او نصیب اللہ خان کی دانشمندانہ مصالحانہ مداخلت اور مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے قیام پر پاک فوج اور پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے اور سارا دوش سوشل میڈیا کے سر۔ ان سارے واقعات کا نچوڑ بس ایک ہی ہے کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس! اگر پولیس بدنام نہ ہوتی اور کسانوں کے ساتھ پولیس گردی نہ ہوئ ہوتی تو عوام فوجیوں کے پولیس مخالف ایکشن پہ خوش نہ ہوتے۔اور اگر مظلوم کسانوں میں ایک فوجی بھائ شامل نہ ہوتا تو فوجی مداخلت نہ ہوتی۔ اس مجرمانہ کہانی کا سبق ایک ہی ہے پولیس شہریوں کے ساتھ جو مرضی بدمعاشی کرتی پھرے کوئ پوچھنے والا نہیں، لیکن کسی سویلیئن ادارے نے اگر کسی فوجی پہ ھاتھ ڈالا تو قانون و ضابطہ سے ماورا کسی کی خیر نہیں۔
اب وزیرآعلی محترمہ مریم نواز اور انکی سویلیئن انتظامیہ کرتی بھی تو کیا؟ اب بدمعاش پولسیوں کااحتساب تو ہوگا ہی ہوگا۔ کیا پاک فوج قانون کو ھاتھ میں لینے والے اپنے اہلکاروں اور سویلیئن شہری سلامتی کے ادارے پہ حملہ کرنے والوں کا بھی کورٹ مارشل کرے گی؟ ریاستی اور آئینی بحران کے مظہر ان واقعات کا سلسلہ نہ ہوتا تو اس فریادی کالم کا آغاز “اے بہاولنگر تو کیا تھا، کیا سے کیا ہوگیا اور کبھی اور کیسے تیری قسمت جاگے گی؟ سے کرتا۔
تو پنجاب اور پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر آعلی محترمہ مریم نواز صاحبہ! ہم آپکے ووٹ کو عزت دو کے مشکل وقت کے بھولے بسرے خیر خواہ ٹھہرے اورھمیشہ کی طرح راندہ درگاہ بھی۔ لیکن پژ مُردہ دل کے ساتھ بہاولنگر کی حالت زار پہ درخواست گزار ہیں کہ: ضلع بہاول نگر پاکستان کے پسماندہ ترین 18 اضلاع میں شامل ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی بدترین غربت وناداری ، ناخواندگی اور بیماریوں کی شکار ہے۔ 75 % لوگ ناخواندہ اور 25% سے زائد بیروزگار ہیں ۔ 15 لاکھ لوگوں کو غربت سے نکالنے اور 8 لاکھ بیروزگار نوجوانوں کے لیئے روزگار مہیا کرنے کے بڑے چیلنجز ہیں۔ پینے کو صاف پانی ہے نہ نکاسی فضلہ کا کوئ بندوبست ۔ الائیش ذدہ پانی سے ہونے والی اموات پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ بچوں اور نوجوان نسل کے لیئے معیاری تعلیم کا کوئ جدید نظام ہے نہ ترقی و روزگا کے کوئ مواقع ہیں۔اس بدحالی کےزمہ دار غیر حاضر جاگیردار اور کرپٹ سیاستدان ہیں جن کا سیاسی قبضہ نسل در نسل برقرار ہے۔لیکن یہ جتلانا بہت ضروری ہے کہ بہاولنگر کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ضلع ہے، لیکن یہاں کوئ ایک ٹیکسٹائیل ملز نہیں ہے جبکہ سینکڑوں جننگ فیکٹریاں ترقی یافتہ علاقوں کی ٹیکسٹائل ملز کو خام کپاس پراسس کرکے فراہم کرتی ہیں۔ یہاں کا بہترین چاول بھاری مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے، لیکن کوئ جدید رائس تحقیقاتی ادارہ موجود نہیں۔ یہاں بھاری مقدار میں اوون پیدا کی جاتی ہے لیکن نہ ہی میٹ پراسیسنگ انڈسٹری ہے اور نہ ایک وولن ملز۔ساری ترقی ستلج کے دوسری طرف، اور ساری محرومی و علاقائ پسماندگی ستلج کے اس طرف مرکوز ہے۔کٹے پھٹے ترقیاتی پروگرام کے جو چند منصوبے ادھر پھینکے جاتے ہیں وہ کمشن خور “منتخب نمائندوں” اور انکے حصہ دار ٹھیکے داروں کی جیبیں گرم کرنے کے کام آتے ہیں۔ جسکی ایک بدترین مثال بہاولنگر شہر کا سیوریج نظام ہے جسکی سڑاند سے پورا شہر بیت اُلخلا بن گیا ہے۔ تعفن اور فضلہ ملا پانی شہریوں کے لیئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ ورلڈ بنک نے شہر کے فضلے اور پینے کے صاف پانی کے لیئے جو منصوبے شروع کیئے تھے انکی مشینری لہیں پڑی گل رہی ہے۔ اسی طرح 22 موضع جات کی ترقی کے ورلڈ بنک کے منصوبے کھٹائ میں پڑے ہیں کہ صوبائ حکومت نے بھی اپنا حصہ دینا ہے۔ وزیرآعلی شہباز شریف نے جس میڈیکل کالج اور زچہ وبچہ ھسپتال کی بنیاد رکھی تھی وہ ایک عرصہ سے عدم تکمیل کا شکار ہے۔ 7 لاکھ ایکڑ خالی زمین آبپاشی اور خود کاشتکار کسانوں کی منتظر ہے۔سیم و تھور سے زمینیں بنجر اور نکاسی کے نالوں کی بندش سے ماحولیاتی تباہی بے مثال ہے۔ اور تو اور بہاولنگر کبھی ایک بہت بڑا ریلوے جنکشن ہوتا تھا جس کے گرد یہ 15/20 ہزار کا خوبصورت شہر تعمیر ہوا تھا جسکی اب شہری آبادی 180,00سے تجاوز کرچکی ہے اور پرانا بنیادی ڈھانچہ دم توڑ چکا ہے۔ اب طاقتور لوگ فورٹ مروٹ اور ھیڈ سلیمانکی سے بہاولنگر تا بہاول پور ساری پٹڑی اُکھاڑ کر چلتے بنے ہیں اور لوگ ریلوے اسٹیشنز کی اینٹیں تک اکھاڑ لے گئے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ محترمہ وزیر آعلی آپ نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہیں اعلان کیا تھا کہ بہاولنگر سمیت 4 پسماندہ اضلاع کو ترقی یافتہ ماڈل شہر و اضلاع بنایا جائے گا جو نہائیت خوش آئند ہے۔ لہٰذا، پہلے تو آپکو بہاولنگر کو سماجی و معاشی طور پر تباہ حال ضلع ہونے کا اعلان کرنا چاہیئے۔ اسے 10 برس کے لیئے ٹیکس فری انڈسٹرئیل زون قرار دیں اور صنعتکاری کے لیئے مراعات دیں۔ میڈیکل کالج اور زچہ وبچہ ھسپتال کی تعمیر مکمل کریں، ھیڈ سلیمانکی، مروٹ سے بہاولنگر اور بہاولپور تک ریلوے لائین کو بحال کراکے ریل سروس پھر سے شروع کروائیں۔ چولستان کی 7 لاکھ ایکڑ زمین کی آبپاشی اور وہاں خود کاشتکاری کے لیئے بے زمین کسانوں کو زمینں الاٹ کریں۔ زرعی تحیقاتی کالج، اساتذہ و نرسز ٹریننگ کالجز اور ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹس بنائیں۔ تعلیم و صحت کیلئے ایک مربوط صحت عامہ کا موثر نیٹ ورک تشکیل دیں۔ تعلیم بالغاں کیلئے بے روزگار گریجویٹس کی سپاہ تعلیم بالغاں تشکیل دیں۔ عورتوں کی ترقی میں مساوی شرکت کا اہتمام کریں۔ پولیس گردی ختم کریں۔ پسماندہ اضلاع کے لیئے ایک مربوط ترقیاتی کمشن بنائیں جو نیچے سے اوپر ترقی کا عوامی شرکت سے پائدار ماڈل بنائے۔زمہ دار دو طرفہ (bipartisan)ضلعی حکومتوں کی تشکیل اور انہیں کلی اختیارات کی منتقلی- ہر ضلع میں مربوط تحقیقی و منصوبہ بندی کا کمشن تشکیل دیا جائے۔ لاہور کے مرکزی سول سیکریٹیرئٹ کی جگہ جنوبی پنجاب کا بہاولپور میں سیکریٹرئٹ مضبوط کرتے ہوئے صوبہ جنوبی پنجاب کی 2029 تک تشکیل کے لیئے ابھی سے پہل کریں۔ آپ کی متجسس آنکھوں کی نذر۔
تم ہی سمجھ لو، تم ہو مسیحا
میں تو جانوں، درد کدھر ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں