انگیخت: امتیاز عالم
ابھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے شرمناک ترین رپورٹ پر پشیمانی ختم ہوئی نہیں تھی کہ وزیراعظم عمران خان نے پشاور میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوران ایک حیرتناک نیا پاکستان کارڈ میں شامل چھ احساس پروگرامز کا اعلان کر کے حیرت زدہ کردیا۔ نوجوانوں کی تکنیکی تربیت کو چھوڑ کر دیگر پانچ پروگرام پر جو خرچ آنا ہے وہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے تقریباً مساوی ہے۔ پاکستان کا کل جی ڈی
پی 280 ارب ڈالرز ہے، 177روپے کی ڈالرز سے شرح تبادلہ پر یعنی 49,560 ارب روپے جبکہ 5 احساس پروگرام پہ اُٹھنے والا خرچ 49,258 ارب روپے بنتا ہے۔ طلبا اور نوجوانوں کے لیے قرضے علیحدہ ہیں۔ نیا پاکستان کارڈ کا اعلان چونکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے دو روز بعد جاری ہوا تو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو خبر نہ تھی کہ عوامی سہولیات کے لیے اعلان کردہ احساس پروگراموں میں اتنے گمراہ کن و خوش کن تاریخی جھوٹ اتنی ڈھٹائی سے بولے جاسکتے ہیں۔ (کاش! یہ اعلانات گمراہ کن نہ ہوتے؟)
پہلے ہم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی 2021ءکے کرپشن پریسپیشن انڈیکس کو دیکھتے ہیں جس کے لیے ملک کے طول و عرض میں 14 سے 27اکتوبر کے درمیان رائے عامہ جاننے کے لیے سروے کیے گئے۔ خیر سے کرپشن سے پاک عمران حکومت کے دور میں کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 180 ملکوں میں 120 ویں نمبر سے 124ویں نمبر تک گرگیا ہے یعنی کرپشن میں اضافہ چار درجے آگے بڑھ گیا ہے۔ کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑنے اور چوروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرنے کے ایجنڈے پہ قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں 85.9فیصد عوام نے عمران حکومت کے احتساب پر
عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ، جبکہ ان کی حکومت کے دور میں کرپشن اور بڑھ گئی ہے۔ بھاری اکثریت کے خیال میں وفاقی حکومت کی خود احتسابی بھی اطمینان بخش نہیں، جبکہ 66.8 فیصد لوگوں کی رائے میں احتساب یکطرفہ ہے۔ مہنگائی سے بلبلاتے عوام میں 92.9 فیصد کی رائے میں موجودہ حکومت کے دور میں انہیں بدترین مہنگائی کا سامنا ہے۔ اور 85.9 فیصد کے تئیں ان کی آمدنی اور قوت خرید کم ہوگئی ہے۔ پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات لانے کی دعویدار حکومت کے دور میں پولیس کرپشن میں (41فیصد) اول اور عدلیہ (17.4 فیصد) دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ پولیس کی اصلاحات کے بار بار دعوے کیے گئے، لیکن اس کی حالت اور بگڑ گئی۔ عدلیہ کی حالت بھی بہتر نہ ہوئی۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 45,698 اور سیشن کورٹس میں 1,772,90 ہے۔ حکومتی ٹھیکوں میں گھپلوں کا کاروبار بھی جاری و ساری ہے۔ صحت، صفائی، نکاسی آب کے محکموں میں رشوت کا بازار بدستور گرم ہے۔ کرپشن کی ایک بڑی وجہ حکومتی مداخلت اور اس کی عدم کارکردگی یا بری حکمرانی بھی بتائی گئی ہے۔ کرپشن پہ اس عالمی رپورٹ کے بعد کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ لوگوں کا احتساب کرنے والی عمران حکومت کے پلے اخلاقی طور پر بچا ہی کیا ہے اور اس کا سارا بیانیہ زمین بوس ہو چلا ہے اور یہ آئے روز کسی نہ کسی بڑے سکینڈل میں پھنسی دکھائی دیتی ہے۔
اب جب کرپشن اور احتساب کا ایجنڈا اپنی ساکھ کھو بیٹھا تو عمران حکومت کو عوامی فلاح کے سنہرے خوابوں کا نمائشی و فرضی ماحول بنانے کی سوجھی کہ اب عام انتخابات کا موسم شروع ہوا چاہتا ہے۔ نہایت ہی نفیس خاتون محترمہ ثانیہ نشتر کرتیں بھی کیا کہ انہیں صبح و شام خان صاحب کی فرمائشوں کی تکمیل کے لیے نت نئے منصوبوں کا اعلان کرنے پہ مجبور کیا گیا۔ کبھی وہ بے گھروں کے لیے چھتیں فراہم کرتیں اور آرام گاہیں بناتی نظر آئیں، تصیویرں کھنچیں اور دو چار جگہ پہ یہ بنیں بھی اور ویران ہوگئیں۔ پھر بھوکوں کے لیے دسترخوان بنوائے گئے، دو چار ٹرکوں پہ کھانا فراہم کرنے کابندوبست کیا گیا، خان صاحب یہ نفیس نفیس معائنہ کرنے پہنچے اور جانے پھر گھومتے پھرتے ٹرک کہاں غائب ہوگئے۔ پوچھنا پڑتا ہے کہ وہ جو پبلک ٹائلٹس کا پروگرام شروع کیا گیا تھا وہ کہاں میسر ہے؟ اب جو پشاور میں اعلان کیا گیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ غریبوں کے دکھوں کے مداوے کا سب سے عظیم تر پروگرام۔ عقل حیران ہے کہ کسی نے بیٹھ کر حساب کتاب بھی کیا ہے کہ اس پر کیا خرچ آنا ہے اور اتنی رقم کہاں سے اور کیسے آنی ہے۔ بھلا شیخ چلیوں کو اس کی کیا پڑی ہے۔ انتخابی موسم کی آمد پر ایسے خوشنما اعلان کیے جاتے ہی ہیں کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نعرہ باز ایسے خالی خولی نعروں سے اپنی کارکردگی کے خالی دامن کو بھرنے سے باز نہیں رہتے۔
نیا پاکستان کے چھ احساس پروگرامز کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور اوسط خاندان 6.5افراد پر مشتمل ہے۔ عمران حکومت کے نیا پاکستان کارڈ کا زور 37 لاکھ خاندانوں پر ہے، یوں دو کروڑ 22 لاکھ نفوس اس کے چھ احساس پروگراموں سے مستفید ہوں گے۔ 37 لاکھ خاندانوں کے گھروں کے لیے فی کس 27 لاکھ روپے قرض بنکوں سے دلوایا جائے گا جس پر 8.75فیصد سالانہ شرح سود حکومت نے ادا کرنا ہے۔ بنک 9990 ارب روپے کا قرض کہاں سے فراہم کریں گے، جبکہ حکومت کو اس پر سالانہ 870 ارب روپے سود دینا ہوگا (جبکہ کل ترقیاتی پروگرام کٹ کر 700 ارب روپے رہ گیا
ہے) ۔ 37 لاکھ خاندانوں کے لیے فی کس 5لاکھ قرض برائے کاروبار کے لیے بنکوں کو 187ارب روپے قرض فراہم کرنا ہوگا جس پر حکومت کو 211 ارب روپے سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔ 12.5 ایکڑ تک کے مالک کسانوں (56 لاکھ) کو فی کس 5 لاکھ روپے بنک 2800 ارب روپے قرض دیں گے جس پر حکومت سالانہ 320 ارب روپے ادا کرے گی۔ ہیلتھ کارڈ سب کے لیے ہے۔ 3 کروڑ 38 لاکھ خاندانوں پہ کل خرچ 33,800 ارب روپے آئے گا جو حکومت ادا کرے گی۔ دو کروڑ لوگوں کے لیے سستے راشن پر (فی کس 15000 روپے ماہانہ) حکومت 30فیصد ادا کرے گی جو 1080 ارب روپے بنتا ہے۔ نوجوانوں، علما اور ناداروں کے لیے پروگرام علیحدہ ہیں۔ ان سب کو ملا لیا جائے تو کل اخراجات پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی سے کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ آخر یہ عوامی خدمت اور فلاح کا ڈرامہ کیا ہے۔ فرض کریں مستفضین میں سے 5فیصد بھی ان پروگرامز سے فیضیاب ہوجائیں تو باقیوں کو اُمید پہ زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ ابھی سے تحریک انصاف کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور مقامی حکومتوں کے اُمیدواروں کو ہدایات کردی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں جائیں اور احساس پروگرام کے مختلف خالی فارموں کو امداد کے منتظر عوام اور رائے دہندگان سے پُرکروائیں اور تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا لالچ دیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ بعد میں تحریک انصاف اور اس کے لیڈروں کو کوستے پھریں گے۔ جو بات انتہائی قابل اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ جب ناداری کے اور گھریلوں آمدنی کے سروے ہوچکے ہیں اور ان چھ احساس پروگراموں کے لیے سافٹ ویئر بھی بن چکے ہیں تو پھر تحریک انصاف کے امیدوار کیوں فارم بھرواتے پھریں گے، سوائے اس کے کہ وہ ان خیالی کارڈوں کے بدلے ووٹ خریدتے پھریں۔ اس ملک میں کیا کیا تماشے ہیں جو نہیں کیے گئے۔ اِک تماشہ اور سہی۔ لیکن جھوٹ کے پاﺅں کہاں؟