360

ٹرمپ ازم اور امر بالمعروف

Spread the love

ٹرمپ ازم اور امر بالمعروف

انگیخت: امتیاز عالم

عدم اعتماد کے پھندے میں پھڑ پھڑاتے وزیراعظم عمران خان اس کرسی کو بچانے کے لیے مرنے مارنے پر تلے نظر آرہے ہیں جس کی انہیں طمع نہیں۔ انداز سیاست اور طرز تکلم تو وہی لگ رہا ہے جو سابق صدر ٹرمپ کا خاصہ تھا۔ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل (پارلیمنٹ) پر حملہ تو انتخابات ہارنے پر کروایا تھا، مگر ہمارے کپتان نے عدم اعتماد کا ووٹ پارلیمنٹ میں پڑنے سے پہلے ہی اپنے ہی دارالحکومت پہ آج ہلہ بول دیا ہے اور وہ بھی امر بالمعروف کے نیکی پھیلاﺅ کے نام پر۔ اور ان کے وزیر اطلاعات نے دھمکی یہ لگائی کہ اراکین قومی اسمبلی ووٹ ڈالنے جائیں گے بھی اس ہجوم سے گزر کر اور ان کی واپسی بھی اسی سے گزر کر ہوگی۔ کچھ ایسا ہی متشدد محاصرہ امریکی کانگرس مین کو چھ جنوری 2021ءکو درپیش آیا تھا جب وہ صدر بائیڈن کی جیت کی تصدیق کرنے والے تھے۔ امریکی سینیٹ کے چیئرمین و نائب صدر اور ہاﺅس کی سپیکر کو بلوائیوں سے مشکل ہی سے بچایا جاسکا تھا اور پارلیمنٹ کو تاراج کردیا گیا تھا۔ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کے نام پہ تحریک چلائی گئی تھی تو وہ مذہبی حلقوں کو خوش کرنے کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کرنے پہ مجبور ہوئے تھے۔ لیکن عمران خان کے خلاف تو کوئی مذہبی فسادی میدان میں نہیں۔ پھر مدینہ کی ریاست کے نعرے کے باوجود امر بالمعروف کا نعرہ لگا کر بھلا وہ کس برتے پر مذہبی مصلح یا اوتار ہونے کے دعویدار بننے کی کوشش میں ہیں۔ وہ جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور لبیک یارسول اللہ والوں کے دام میں تو نہیں پھنسنے جارہے۔ مولانا فضل الرحمان بہت دیدہ بینا ٹھہرے۔ انہوں نے ترکی بہ ترکی والنہی عن المنکر یعنی برائی کو روکنے کی کال دیتے ہوئے اسلام آباد میں جلسے اور دھرنے کا اعلان کردیا جو 26مارچ سے 28 مارچ تک یا اس سے آگے جاری رہے گا جب تک عدم اعتماد کے ووٹ پر پارلیمنٹ ہاﺅس میں کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی۔ بروز ہفتہ مسلم لیگ نواز اور جمعیت کے کارواں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوچکے ہیں اور بلاول بھٹو نے پارا چنار اور عمران خان نے کمالیہ میں بڑے جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ آج اور کل اسلام آباد میں گھمسان کا سیاسی رن پڑے گا۔ حکومتی پارٹی کی گالی کلوچ اور خود وزیراعظم کی رعونت سے بھرپور اہانت آمیز تقاریر نے امر بالمعروف کو جن منکرات سے نوازا ہے وہ وفاقی وزرا کے خود کش حملہ کے اشتعال انگیز بیانات سے اور اپوزیشن کے جوابی عوامی حملے سے راجدھانی کی اگر اینٹ سے اینٹ بج جاتی ہے تو بیچاری پارلیمنٹ کے بچے رہنے کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ ایسے میں ہیومن رائٹس کمیشن، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پی ایف یو جے کی ہر دو فریقوں کو اپنے اپنے جلسے جلوس معطل کرنے کی اپیلیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کی اپوزیشن کو جلسہ ملتوی کردینے کی تجویز غیر موثر ہوکررہ گئی۔قرائن سے ظاہر ہے کہ عمران خان کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک اور اپنی جماعت کے مخرفین اور مبینہ ضمیر فروشی کو انہوں نے اپنے کرپشن کے خلاف احتساب کے پٹے ہوئے بیانیے میں پھر سے ہوا بھرنے کے لیے شدت سے استعمال کیا ہے۔ جس صوبہ پختون خوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تحریک انصاف پٹ گئی تھی، وہیں عمران خان نے بڑے جلسے کیے ہیں اور اپنے حمایتوں کو پھر سے ایک نیا ولولہ دیا ہے۔ وہ حکومت میں ہونے کے باوجود اور اس کی مدد سے سڑکوں کو گرم کرنے کی راہ پہ چل نکلے اور یہ پرواہ کیے بغیر کہ پارلیمانی جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترتی ہے تو اتر جائے، ان کی بلا سے۔ وہ عدم اعتماد کا ووٹ بھی پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر لینا چاہتے ہیں۔ سڑکیں زیادہ ہی گرم ہوگئیں تو کیا کیا خاکستر ہوسکتا ہے اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ ہائبرڈ سیاسی نظام جس کی کہ وہ خود پیداوار ہیں گرے گا تو اس کی جگہ کیا آئے گا اس کا انہیں کوئی گمان نہیں۔ وہ بس سیاسی شہید بن کرپھر سے میدان میں اترنے کی فکر میں ہیں۔لیکن ہائبرڈ نظام اور ”سلیکٹڈ حکومت“ سے لڑتے لڑتے پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلزپارٹی اور اب مشترکہ حذب اختلاف اپنے اساسی مقاصد سے پیچھے ہٹ گئیں ہیں جس کا بنیادی ہدف سول ملٹری تعلقات میں صفتی تبدیلی لانا اور جمہور کی بالا دستی کو یقینی بنانا تھا۔ اپوزیشن کے لیے ہائبرڈ نظام کے بنیادی ستون یعنی مقتدرہ کا ”غیر جانبدار“ ہوجانا ہی صلح حدیبیہ کے لیے کافی تھا۔ ”سلیکٹڈ حکومت“ نے تو دھڑام سے گرنا ہی تھا، لیکن اپوزیشن کا ووٹ کی حرمت کا نعرہ بھی عدم اعتماد کے ووٹ کی بے حرمتی کے ساتھ شرمندہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر دو اطراف ایک دوسرے کے اراکین کو توڑنے کے دعوے کررہے ہیں اور حکومت کے اتحادی ہیں کہ خوب دام لگوارہے ہیں۔ شواہد سے لگتا ہے کہ 155ارکان پر مشتمل تحریک انصاف کے لیڈر ایوان زیریں کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ اتحادی بلیک میل کررہے ہیں۔ ساڑھے تین سال کی پاکستان کی سب سے ناکام حکومت کے پلے سوائے ایک ہیلتھ کارڈ اور احساس پروگرام کے عوام کو بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ عمران حکومت اپنے کرپشن کے خاتمے اور دو پاکستانوں کی تقسیم ختم کرنے کے ماسٹر بیانیے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، جو معاشی حالت اسے ورثے میں ملی تھی آج حالات اس سے کم از کم دگنے برے ہیں اور یہ آئندہ حکومت سے بھی جلد ٹھیک ہونے کو نہیں۔
اب جب ڈراپ سین ہونے کو ہفتہ دس دن رہ گئے ہیں۔ عدم اعتماد کامیاب ہوتا ہے تو بھی بحران رہے گا، ناکام رہتا ہے تو بحران اور بھی بڑھ سکتا ہے۔ سیاسی تعطل کی صورت کسی بھی سیاسی فریق کے لیے مفید ہوگی، نہ ملک کے لیے۔ بہتر ہوگا کہ پارلیمنٹ کا معاملہ پارلیمنٹ ہی میں طے کیا جائے۔ عدالتیں اس میں ملوث ہوں نہ ادارے۔ سڑکوں پہ مارا ماری کی بجائے سیاسی قوتیں ہوش کے ناخن لیں۔ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں رائے دھندگان سے فوری رجوع ضروری ہوگیا ہے۔ یا تو عمران حکومت اس برس عام انتخابات کا اعلان کردے اور انتخابی اصلاحات اور جنوبی پنجاب کے صوبہ پہ قومی اتفاق رائے کے لیے دونوں اطراف یا مقصد مذاکرات کریں، یا پھر عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں انتخابی اصلاحات کے ساتھ ہی نئے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا جائے۔ اس سیاسی بحران کے جمہوری و پارلیمانی اور پرامن حل سے جمہوری عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ جو بھی اس راہ سے ہٹے گا جمہوریت دشمن کہلائے گا ۔ اور اس ملک میں جمہوریت دشمنوں کی کوئی کمی نہیں۔ جو جمہور کے علمبردار ہیں اپنی اپنی پارٹیوں کو گھر کی باندی بنا کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسی سیاسی جتھہ بندیوں کے ساتھ عوام کی حاکمیت کی جنگ نہیں لڑی جاسکتی اور نہ جیتی جاسکتی ہے۔ تینوں بڑی پارٹیوں پر خواص کا قبضہ ہے جو دولت اور طبقاتی و قبائلی اثر و رسوخ کی بنیاد پر انتخابی عمل سے عوام الناس کو بے دخل کر کے نہ صرف اسمبلیوں پر قابض ہوجاتے ہیں بلکہ سیاسی مصلحتوں کے تحت اپنی پارٹیاں بدلنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا خواص کی اس لولی لنگڑی جمہوریت سے اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ نیا پاکستان کا نعرہ ہو یا پرانے پاکستان کی واپسی عوام الناس کے لیے ان میں کوئی خاص کشش نہیں ۔ آمرانہ قوتوں کی شکست اور جمہور کی حکمرانی کے لیے ایک وسیع تر جمہوری عوامی انقلاب چاہیے۔ باشعور و آزاد اور منظم رائے دہندگان ، منظم عوام دوست جماعتوں ، آزاد و خود مختار میڈیا اور ایک روشن خیال سول سوسائٹی کے بغیر جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترتی چڑھتی رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں