841

حجاب، عفت و عصمت اور عورت مارچ

Spread the love

انگیخت: امتیاز عالم
وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے خط میں 8مارچ کو ہر سال منعقد ہونے والے عورت مارچ کو ”اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیا و پاکدامنی اور پردہ و حجاب وغیرہ پہ کیچڑ اچھالنے یا ان کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہ دینے“ اور اس کی جگہ ”بین الاقوامی یوم حجاب“ منانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یوم حجاب منانے کا مطالبہ انہوں نے بھارت کی ریاست کرناٹک کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی صوبائی حکومت کی جانب سے مسلم طالبات کے لیے کالج یونیفارم کو لازمی قرار دئیے جانے کی آڑ میں حجاب کرنے یا برقہ پہننے پر پابندی لگائے جانے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ کرناٹک میں حجاب یا برقعہ

پہننے پر پابندی کیا لگائی گئی کہ سیکولرو لبرل حلقوں اور ہندو قدامت پسندوں کے مابین ایک نظریاتی جنگ چھڑ گئی۔ آبادی میں پاکستان سے بڑے صوبہ اُترپردیش کے انتخابی سیمی فائنل میں ”لو جہاد“ کے بعد اب حجاب پہ بندش ہندوتوا کی 80/20 کی فرقہ وارانہ تقسیم کا بڑا حربہ بن گئی ہے۔ حجاب کرنے یا برقعہ پوشی کا آئین میں دی گئی شخصی و مذہبی آزادی کے حوالے سے جہاں سول سوسائٹی کی جانب سے زبردست دفاع کیا جارہا ہے، وہیں جدیدیت پسند مسلم دانشور یہ انتباہ کررہے ہیں کہ کہیں شاہ بانو کیس میں عورت کے نان و نفقہ کے حق میں دئیے گئے فیصلے کے خلاف علما کی مخالفت اور زبانی بیک وقت تین طلاق کے ہاتھوں عورتوں کے حقوق کی پامالی پہ مودی حکومت کی شاطرانہ بندش کی مذمت کی طرح کہیں حجاب یا برقعہ پوشی پہ اصرار مسلم عورتوں کو زندگی کی دوڑ میں پچھاڑ نہ دے۔ لگتا ہے پاکستان کے مسلم قدامت پسند اور بھارت کے ہندو انتہا پسند عورتوں کی شخصی و مذہبی آزادی کے خلاف متحد ہوگئے ہیں کہ سرحد کے آر پار فرقہ پرست اور کٹر مذہبی حلقے تقوئیت پاسکیں۔
عورتوں کے حقوق کے لیے ہر سال عورت مارچ پہ اُسی طرح کے لغو الزامات دھرے جاتے ہیں جن کا اظہار وزیر مذہبی امور نے کیا ہے اور جس کی مخالفت میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری بھی میدان میں اُتر آئے ہیں ،جس کی پیپلز پارٹی کی لبرل قیادت نے بھرپور مذمت کی ہے اور پی ڈی ایم کی مذہبی جماعت جمعیت العلمائے اسلام نے عورت مارچ کو بزور طاقت روکنے کی دھمکی دے ڈالی ہے جو اس کے جمہوری دعویٰ کی نفی اور فسطائیت کا اظہار ہے۔
حجاب ہو یا پردہ ان الفاظ کا قرآن پاک میں کہیں ذکر نہیں۔ بقول غامدی صاحب یہ شخصی آزادی کے زمرے میں آتا ہے۔ قرآن کی دو سورہ، سورہ نور کی آیات ۳۱/۳۰ اور سورہ احزاب کی آیات ۵۹/۵۸ میں جو احکام صادر ہوئے ہیں ان کا مدعا مروجہ حجاب /برقع/ عبایہ سے قطعی مختلف ہے، گو کہ یہ ثقافتی علامات ضرور ہیں۔ سورہ نور کی آیات (۳۱/۳۰) میں مردوں اور عورتوں دونوں سے کہا گیا ہے کہ ”مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیاءکی حفاظت کیا کریں۔“ (۳۰) ”اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کیا کریں ۔۔۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں۔“ سورہ احزاب (آیت ۵۹) میں ارشاد ہے کہ ”اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔“ اور یہ ہدایت کفار کی ستم ظریفی سے بچاﺅ کے لیے دی گئی تھی۔ ممتاز محقق محمد اسد نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آیت میں لفظ ”خمیار“ سر کی اوڑھنی کے

لیے استعمال ہوا ہے جو عرب خواتین سر پر رکھ کر پیچھے کی طرف ڈال لیتی تھیں۔ اس زمانے میں عورتوں کی قمیض کا گلا سامنے سے کھلا رہتا تھا، لہذا حکم دیا گیا کہ سینے کو ڈھانپ لیں۔ سر چھپانے اور نہ منہ ڈھانپنے کا حکم ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت کو چادر پہنا کر گھروں میں بند کردیا جائے، بلکہ یہ اُنہیں آزار و ازیت سے بچانے کے لیے تھا۔ قرآن کریم میں اس کی جزئیات بیان کی گئی ہیں نہ ایسا نہ کرنے پر کوئی سزا مقرر کی ہے۔
رہا عورت مارچ، یہ خواتین کی اپنے حقوق و آزادیوں کی ایک تاریخی جدوجہد کا تسلسل ہے جس کا سارا زور عورتوں کے مساوی انسانی حقوق پر ہے اور جنسی تفریق کے خلاف ہے۔ اپنی عفت و عصمت لوٹے جانے اور عورت کی جنسیت کے کاروبار اور جنسی استحصال کے خلاف ہے۔ تاریخ سے نابلد حضرات

کو معلوم نہیں کہ جسے مغربی یا عیسائی دنیا کی تہذیب کہا جاتا ہے ، اس میں عورتوں کے حقوق و آزادیاں ویسے ہی صدیوں تک معدوم رہیں جیسے اب بھی مشرق میں ہیں۔ مغرب میں ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ عورتوں کے حق تولیدگی کے حوالے سے لگا تھا۔ زنا کاری، جنسی کاروبار، جنسی ہراسگی اور عورت کی جنس کو کاروبار اور منڈی کے بکاﺅ مال بنائے جانے کے خلاف تحریک نسواں چلی اور ابھی بھی جاری ہے۔ پہلے یہ قانون و سیاسی حقوق کے لیے لڑی گئی جو ناپید تھے، پھر یہ عورتوں کے جنسی استحصال کے خلاف لڑی گئی اور یہ مختلف صورتوں میں پدرشاہی غلبے اور صنفی جبر کے خلاف جاری ہے۔ پاکستان میں جب ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ لگا تو پدرشاہی روایات اور مردانہ جنسیت پرست شعائر اور مرد پردھانی کے جذبات بہت مشتعل ہوئے۔ جہاں اوباش زانی جو عورت کو محض ایک جنسی مال سمجھتے ہیں سیخ پا ہوئے، وہاں قدامت پسند حلقے پدرشاہی سماجی روایات اور پدرشاہی خاندان

کے دفاع میں ہر طرح کے فتووں کے ساتھ میدان میں کود گئے۔ عورتوں کے کسی مظاہرے یا مارچ میں کب کسی عورت نے اپنی شرمگاہ کی نمائش کا تقاضہ کیا اور کس نے اپنی عفت و عصمت کی بے توقیری کی بات کی۔ اُلٹا انہوں نے معاشرے میں جاری جبری زنا، عورتوں کی خرید و فروخت، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، اٹے سٹے، گھر، شہر، دفتر اور درسگاہ میں ہونے والے بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور ہراسگی کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ اخلاقی قدروں کے دعویدار ان مطالبات پہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے، ان کی کس منہ سے مذمت کرسکتے ہیں۔ عورتوں کو گھروں میں قید رکھ کر خاندان کو بچانے والے حضرات کو غالباً علم نہیں کہ نجی جائیداد کی طرح ریاست اور خاندان بھی ایک تاریخی عمل کی پیداوار ہے۔ اٹل اور ناقابل تغیر حقیقت نہیں۔ سماجی روایات، خاندانی مراسم اور تہذیبی تقاضے حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ پدر شاہی خاندان کا نظام مدرسری نظام کے غیر طبقاتی معاشرے کے خاتمے پر وجود میں آیا تھا۔ ”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے کے خلاف آواز اُٹھانے والے مرد حضرات کو معلوم نہیں کہ سب سے پہلے یہ نعرہ اُجرتی غلاموں نے سترہویں صدی میں لگایا تھا جیسے ہمارے ہاں بندھوا مزدوری (Bonded labour) کے خلاف ابھی بھی یہ جدوجہد جاری ہے۔ ”میرا جسم میری مرضی“ کا مطلب عورت کی زندگی پہ اس کا اپنا اختیار ہے۔ مرد اگر یہ اختیار رکھتا ہے تو عورت یہ اختیار کیوں نہ حاصل کرے۔ اور مرد کو عورت کی زندگی کے تمام پہلوﺅں کو متعین کرنے کی اجارہ داری کیوں دئیے رکھی جائے ، بھلا اس سے مردانگی کیسے ہی بِھنّائے۔ در حقیقت مرد و زن کے مابین نابرابری سے دونوں ہی ہم پلہ شرف انسانی سے محروم رہتے ہیں۔ مسئلہ لبرل ازم کا نہیں، فسطائیت کا ہے اور عورت مارچ پر پابندی کا مطالبہ کرنے والے دراصل فاشسٹ اور انسان دشمن ہیں۔ اب عورتیں حجاب پہنیں یا بے نقاب ہوں یہ ان کا شہری حق ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں