370

چوری پکڑی گئی، سیاست گرم ہوگئی

Spread the love

انگیخت: امتیاز عالم
الیکشن کمشن کی سکروٹنی کمیٹی کی نامکمل رپورٹ میں ایسے خوفناک حقائق سامنے آئے ہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کے قانونی مستقبل پہ نہایت سنجیدہ سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ 55 اکاﺅنٹس چھپائے گئے، صرف 12ظاہر کیے گئے۔ وصول شدہ رقم اور ظاہرہ کردہ فنڈز میں 31 کروڑ روپے کا فرق ہے، بیرونی فنڈز اور کھاتوں تک رسائی نہیں دی گئی، آڈٹ رپورٹس ناقص پائی گئیں، آمدن و اخراجات کے تخمینوں میں بُعد پایا گیا، ذاتی

ملازمین کے کھاتے علیٰحدہ ہیں۔ ابھی مزید تحقیقات باقی ہیں اور جانے فنڈ چوری کا کھرا کہاں جاکے رُکے۔ مقدمے کو 7 سال لگے، سکروٹنی کمیٹی نے 3 برس لیے، 150 پیشیاں ہوئیں اور گند ابھی پورا سامنے آیا نہیں۔ ایک طرح سے تحریک انصاف اور اس کے قائد کی دیانت و امانت کے ڈھول کا پول کھل گیا ہے اور اخلاقی دیوالیہ نکل گیا ہے۔ چور چور کا شور مچانے والے اپنے ہی گھر کے نقب زن کے طور پر بے نقاب ہوگئے۔ پہلے تحریک انصاف کے الیکشن کمشنر جسٹس وجیہہ الدین کی پارٹی کے انتخابات میں دھاندلی کی رپورٹ پہ شریف النفس جج فارغ کردئیے گئے تھے، اب کپتان کرے بھی تو کیا فنڈز کی چوری دن دیہاڑے پکڑی گئی ہے۔ جتنا یہ کیس طول پکڑے گا، اتنا ہی گند اور اُچھلے گا۔ خاص طور پر غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے تو پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 بہت کڑا ہے، تحریک انصاف پر پابندی بھی لگ سکتی ہے اور اس کے چیئرمین کے دستخطوں سے جمع کرائے اقرار نامے غلط پائے گئے ہیں اور انہیں صادق و امین قرار دئیے جانے کا فیصلہ اُلٹ سکتا ہے۔ لوگوں نے بے پناہ چندہ دینے میں جس اندھے اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ اب چکنا چور ہوچکا

ہے۔ اب الیکشن کمشن مقدمہ چلائے گا یا مزید تفتیش کے لیے کوئی تحقیقاتی ادارہ مقرر کرے گا یا پھر فرانزک آڈٹ کرائے گا، تحریک انصاف پہ بجلی تو گرنی ہی گرنی ہے۔ البتہ مقدمے کو اگلے انتخابات سے بہت آگے تک طوالت ضرور دی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ ہی کی بنیاد پر الیکشن کمشن دونوں فریقین سے مزید وضاحتیں طلب کر کے جلد فیصلہ سنادے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی انتخابی امیدوار اپنا سیاسی مستقبل ایسی جماعت پہ داﺅ پہ کیوں لگائے گا جس کا اپنا قانونی مستقبل مشکوک ہوگیا ہے۔الیکشن کمشن کے خلاف وزرا کی دھمکیاں اور اس پر دباﺅ ڈالنے کی مہم کے پیچھے حکومت کا یہ خوف تھا کہ فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ تیاری کے آخری مرحلے میں تھی۔ اوپر سے وزیراعظم کی آمدنی میں سال بھر میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ان کا ٹیکس تقریباً ڈھائی لاکھ روپے سے چھلانگ مار کر ایک کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ وزیراعظم بھی آئندہ تین ماہ کو اہم قرار دے رہے ہیں اور اپوزیشن بھی کسی سیاسی دھماکے کی منتظر ہے یا پھر خود کوئی بڑا دھماکہ کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں کوئی کیوں کسی سے

ڈیل کرے گا جبکہ حالات سیاسی پردہ گرنے کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اور اس کی وضاحت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں واشگاف کردی ہے۔ اور وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی یا موجودہ کی ایکسٹینشن پہ ابھی سوچا نہیں کہ نومبر ابھی بہت دور ہے۔ جانے وزارت عظمیٰ کا یہ صوابدیدی اختیار کون استعمال کرے یا کس سے کرایا جائے؟
اب جبکہ ضروری اشیاءکی مہنگائی 20 فیصد سے اوپر جاچکی ہے اور ملک بھر میں لوگ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں چلارہے ہیں، اپوزیشن نے بھی کمریں کس لی ہیں۔ سوموار سے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ خیز رہے گا۔ منی بجٹ پاس نہ ہوا تو حکومت تو گر جائے گی، لیکن ملک بدترین معاشی و مالیاتی بحران کی لپیٹ میں آجائے گا جسے سنبھالنے کی اپوزیشن میں سکت ہے نہ ریاست اور اس کے ادارے اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ہر

دو صورتوں میں بحران ہے کہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے 27 فروری سے کراچی تا اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کر کے بڑی سیاسی پہل قدمی کی ہے اور انکی حریف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ششدر ہوکے رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم کا 23مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ ویسے بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پیش نظر اس کے مقدر میں ملتوی ہونا لکھا گیا تھا۔ پی ڈی ایم استعفوں اور دھرنے کی راہ سے نظام کے اندر رہ کر اپنی سیاسی بساط کو وسعت دینے کی جانب مراجعت کرگئی ہے اور اسے پختونخوا اور ضمنی انتخابات میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ اور یہی بلاول بھٹو کا مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف سے اختلاف تھا۔ اب سٹریٹ ایجیٹیشن کی سیاست میں بلاول بھٹو نے پہل کرلی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت جاتی ہے یا نہیں، لیکن پیپلزپارٹی کو ملک بھر میں رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا موقع ملے گا۔ غالباً محترمہ بے نظیر بھٹو کی

شہادت کے بعد پیپلزپارٹی پھر سے عوامی جدوجہد کے راستے پہ واپس آگئی ہے۔ اور اسے آئندہ انتخابات سے پہلے بڑے پیمانے پہ سیاسی موبیلائزیشن کا موقع ملے گا۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کا دارومدار اس پر ہے کہ تحریک انصاف کتنی جگہ چھوڑتی ہے اور پیپلزپارٹی اپنی کھوئی ہوئی حمایت کو کتنا واپس حاصل کرتی ہے۔ شاید پی ڈی ایم کو بھی اپنے لانگ مارچ کی تاریخ فروری کے آخر تک آگے لانی پڑے گی۔ بہتر ہوگا کہ پی ڈی ایم پھر سے متحد ہوجائے، تنظیمی طور پر نہیں تو عملی طور پر ایسا ہوسکتا ہے۔ جب سیاسی ہدف ایک ہے اور پی ڈی ایم کی اساسی دستاویز پہ اتفاق موجود ہے تو دوبارہ قومی اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن کی صورت میں پارلیمنٹ کے باہر بھی متحدہ محاذ بن سکتا ہے۔ یا پھر کم از کم لانگ مارچ کے لیے وقت کے تعین پہ اتفاق تو کیا جاسکتا ہے۔
صورت حال واقعی بہت بپھر گئی ہے۔ وقت اور طریقہ کار بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اچھا وقت چنا ہے، پی ڈی ایم بھی ویسے ہی کرسکتی ہے، لیکن اپوزیشن کے دونوں دھڑوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ آئینی و قانونی اور جمہوری دائرے میں رہے۔ ذرا سا تجاوز جمہوریت اور سیاست کو ہی بہا لے جاسکتا ہے اور چوتھے انتخابات کا انعقاد اور چوتھی اسمبلیوں کا قیام جانے کتنے عرصے کے لیے ملتوی ہوجائے۔میری ذاتی رائے تو یہ رہی ہے کہ عمران حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے اور جمہوریت کی واپسی کے بعد قائم ہونے والی تیسری پارلیمنٹ اپنا دورانیہ پورا کرے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان جس تیزی سے اپنی سیاسی ساکھ اور جڑیں اکھاڑ رہے ہیں، اس کے پیش نظر سیاسی طوفان وقت سے پہلے ہی پھوٹ سکتا ہے۔ غالباً، اپوزیشن کی توقعات سے پہلے ہی وقت قریب آگیا ہے۔ اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں