309

دست نگر معیشت، مفت خور طبقات اور سلامت کی موکل ریاست کا بحران

Spread the love

انگیخت: امتیاز عالم
(مکمل کالم)


چند استثناﺅں کو چھوڑ کر، کوئی نہیں ہے جو معیشت کے اصل بحران کی نشاندہی کررہا ہو یا پھر دست نگر معیشت، مفت خوری اور موکل ریاست کی سیاسی معیشت یعنی نجی و ریاستی مقتدر ڈھانچے کی لائی بربادی پہ توجہ دے رہا ہو۔ تقریباً سبھی کا زور ہے تو بیماری کی علامات (بیروزگاری، مہنگائی اور خساروں) پر اور اس کے بیگانہ مظاہر پر (مالی و کرنٹ خساروں پر)۔ تحریک انصاف ہو، مسلم لیگ ن ہو، پیپلزپارٹی ہو یا مذہبی جماعتیں سب کی سب منڈی کے کھیل اور اُمرا و طاقتور لابیز کے مختلف حصوں کی نمائندہ ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ واشنگٹن اتفاق رائے اور نیو لبرل اکنامکس کی پیروکار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں استحصالی طبقوں اور غالب اداروں کے مفادات سے وابستہ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ عوامی شکایات و تکالیف پہ توجہ دیتی بھی ہیں تو اشک شوئی، خیراتی امداد اور پاپولزم کی نعرہ بازی سے جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مختلف ایڈیشنز۔ سب حکومتیں کاسہ گدائی لیے دنیا بھر میں پھرتی رہیں اور سبھی مشرف پہ آئی ایم ایف پروگرامز ہوئیں۔ کوئی IMF22 پروگرامز پہ دستخط کیے گئے، پورا صرف ایک ہوا اور جس سٹرکچرل تبدیلی کا بیڑہ اٹھایا گیا تھا وہ خرابیاں جوں کی توں ہیں۔ اور اب ہمارے پرائیویٹ سیکٹر کے گُرو وزیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کی سخت تر پیشگی شرائط کو مان کر منہ دکھائیں تو

کیسے سوائے کھسیانی تاویلوں کے۔ پچھلی حکومتوں سے عمران حکومت کو کوئی بات ممیز کرتی ہے تو بس یہ کہ پالیسی کے عدم تسلسل اور بد انتظامی میں اس نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ کوئی شعبہ زندگی ہے جو اس کی نالائقیوں اور مفاد پرستیوں سے بچ رہا ہے؟ اب مہنگائی کا جن ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت کو کھائے جارہا ہے اور عوامی غذب کا لاوا ہے کہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ عمران حکومت کا جو حشر ہونا ہے وہ تو اب سامنے ہے، لیکن آنے والے اپنی ابھی سے خیر منائیں اور ماضی کی یادیں یاد دلا کر خود کو شرمندہ نہ کریں۔ تم زیادہ برے ہو اور ہم کم برے تھے کہ بیانیہ سے مکتی ملنے والی نہیں!
معیشت و سیاسی معیشت کے اصل بحران پر آنے سے پہلے ہم ذرا موجودہ معاشی بحران پہ نظر ڈالتے ہیں کہ اس کی سنگینی کا اندازہ ہوسکے۔ رواں مالی سال میں بیرونی قرض اور اس پر ادائیگیاں 95 ارب ڈالرز (2017-18) سے بڑھ کر 127 ارب ڈالرز ہوگئیں۔ اب مجموعی اندرونی و بیرونی قرضہ اور ادائیگیاں 50.5 کھرب روپے ہوگئیں جس میں 20.7 کھرب روپے کا اضافہ گزشتہ 39 ماہ میں ہوا ہے۔ جو فی کس 144,000 روپے (2018) سے بڑھ کر 235,000 روپے ہوچلا ہے ۔ نتیجتاً ماسوا قرض کی ادائیگی کے تمام تر اخراجات اُدھار لے کر کیے جانے ہیں۔ قرضوں پر 3000 ارب روپے سود ادا کرنے کے بعد تجارتی خسارہ 15 ارب ڈالرز اور قرضوں کی قسط پر 11 ارب ڈالرز کل کرنٹ خسارہ 26 ارب ڈالرز ہوگا۔ درج ذیل اخراجات اُدھار لے کر پورے کیے جانے ہیں: دفاع بمعہ پنشنز 1800ارب روپے، سول ملازمین پنشن 600 ارب روپے، سرکاری کارپوریشنز کے خسارے 850ارب روپے، ان پر قرضوں کی گارنٹی 1500 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات وفاقی سطح پر 600 ارب، صوبوں سمیت انتظامی اخراجات 2000 ارب روپے، بجلی کا سرکلر قرضہ 2500 ارب روپے، یوں نہایت پسنماندہ و نحیف معیشت پہ اخراجات کا بوجھ 10,250 ارب روپے ہوگا۔ یوں کل بجٹ خسارہ آمدنی سے پورا کرنے کے بعد 2750 ارب روپے ہوگا جو جی ڈی پی کا 7 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ تو ہے اخراجات کا بھاری بھرکم بوجھ۔ محاصلات جو جی ڈی پی کا بمشکل 10 فیصد ہے ۔ایک فیصد زمینداروں کے پاس 22 فیصد زمین ہے اور ان کی آمدنی 1000 ارب روپے سے زیادہ ہے جن میں ہمارے الیکٹ ایبل سیاستدان بھی شامل ہیں اور وہ ٹیکس صرف 3 ارب روپے ادا کرتے ہیں۔ شہری جائیدادوں پہ کرائے کی آمدنی 900 ارب روپے ہے جبکہ ٹیکس صرف 8 ارب روپے ہے۔ مطلب یہ کہ مفت خور دیہی و شہری اُمرا کا ٹیکس میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اور ایک فیصد امرا کو 4500 ارب روپے کے قریب استثنائیں اور چھوٹیں دستیاب ہیں۔ جبکہ 75 فیصد ٹیکس بالواسطہ ہیں جن کا زیادہ تر بوجھ عوام پر ہے۔ لیکن عوام کو کیا ملتا ہے؟ تعلیم و صحت پہ صرف 1300 ارب روپے اور ہر طرح کے احساس پروگراموں پر فقط 400ارب روپے یعنی

قومی آمدنی سے ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جارہا ہے۔ رہی سہی کسر اشیائے صرف پر مہنگائی کی شرح 18.64 فیصد اور حساس اشیاءکے انڈیکس میں مہنگائی کی شرح 25 سے 30 فیصد نے پوری کرنی ہے۔ مزدور کی ماہانہ اجرت 20ہزار روپے کی حقیقی قوت خرید 50 فیصد سے کم ہوگئی ہے، جبکہ افراط زر اور روپے کی قدر میں بے بہا کمی کے باعث گزارہ اجرت کا تخمینہ 50 ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔ اس ظاہری یا رسمی اجرت اور گزارہ اُجرت کا فرق عیاں ہوجاتا ہے، بیروزگاری و بیماری اور بے گھری علیحدہ منہ پھاڑے کھڑی ہے جن کی کوئی شماریات نہیں۔ دو پاکستانوں کا فرق یا امیر و غریب کا فرق معاشرے میں بڑھتی طبقاتی و علاقائی تفریق کو ظاہر کرتا ہے جو عمران خان کی حکومت میں تیزی سے بڑھتا چلا گیا ہے۔
ان تمام اعداد و شمار کے پیچھے حقیقی تضادات کی سیاسی معیشت کار فرما ہے جس کا ہمارے معزز معیشت دان ذکر تک گورا نہیں کرتے۔ پاکستان کو بنیادی تضادات اور بحرانوں کا سامنا ہے، جنہیں حل کیے بنا اب چارہ نہیں اور اب ایک ممکنہ انہدام (Implosion)کا سامنا ہے۔ دست نگر و پسماندہ معیشت کا بحران لاینحل ہوگیا ہے۔ پسماندہ ذراعت اور کم ترویلیو کی اشیائے صرف کی پیداوار اور خدمات کا نحیف اور کمزوربنیادی ڈھانچہ جس پر مفت خور جاگیرداروں و ٹھیکیداروں اور بھاڑے دار سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے اور جو عالمی سرمایہ داری کے ساتھ دست نگری کے رشتے میں بندھی ہے جس کا اظہار قرض کے جال کی صورت ”قومی معیشت“ کو جکڑتا چلا جارہا ہے۔ اس کمزور معاشی بنیاد پر ایک دیو ہیکل قومی سلامتی کی موکل ریاست (Client State)لاد دی گئی ہے جس کے بڑھتے غیر پیداواری اخراجات محدود پیداواری ڈھانچے اور محنتی و پیداواری طبقات کو کھائے جارہے ہیں اور ہمارے مالی و

مالیاتی خسارے اسی کی دین ہیں اور اس بنیادی تضاد کو حل کیے بنا حل ہونے والے نہیں۔ IMF کا سارا زور بیماری پہ نہیں بیماری کی علامات پر ہے اور یہی ہمارے گماشتہ حکمران طبقوں کا سردرد بھی ہے کہ وہ اصل بیماری سے فیضیاب ہوتے ہیں اور عوام بیمار۔ دوسرا اہم تضاد حکمران طبقوں، اداروں اور مافیاز کی مفت خوری اور کرایہ خوری ہے جو ہماری قومی دولت کا بڑا حصہ ہڑپ کرجاتے ہیں اور عوام کو سوائے غریبی، محتاجی، بیماری، جہالت اور بے امیدی کے سوا کچھ نہیں ملتا جنہیں فرقہ وارانہ مذہبی جماعتیں خوب استعمال کرتی ہیں۔ اس کے اوپر جو بڑا تضاد ہے وہ ہے قومی سلامتی کی گیریژن ریاست جو نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے اور عالمی استعمار کی موکل ریاست رہی ہے۔ یہ عالمی استعمار کی سٹریٹجک ضروریات کے لیے کرائے کا سپاہی بنے رہنے پہ ہمہ وقت تیار رہتی ہے تاکہ بیرونی امداد کے ذریعہ داخلی ذرائع کی کمیابی کو پورا کیا جائے اور اپنے قد سے بڑھ کر علاقے میں کردار میسر آسکے۔ ابتدائی دھائیوں میں کمیونزم اور سرد جنگ میں سوویت یونین کے خلاف اور بعدازاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اور چالیس برس تک خطے کو تاراج کرنے کی خود کش اجرتوں پہ گزارہ کیا گیا۔ لہٰذا، دست نگری کی مفت خور معیشت کے بنیادی ڈھانچے اور موکل قومی سلامتی کی ریاست کے بالائی ڈھانچے کو بدلے بنا مملکت پاکستان اسی طرح کے بحرانوں کا شکار رہے گی۔ بدقسمتی سے اس کایا پلٹ کے لیے کوئی انقلابی ایجنڈا عوام کے سامنے آیا ہے نہ اُس ایجنڈے پہ محنت کش عوام اور پیشہ ور عناصر کو متحرک کرنے والی قوت متحرکہ موجود ہے۔ لہٰذا، بحران بڑھتا جائے گا تاآنکہ یہ پھٹ پڑے اور آگے کی خبر نہیں کہ کیا ہوگا؟
(کالم میں موجود اعداد و شمار ڈاکٹر حفیظ پاشا کی کتاب سے لیے گئے ہیں)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں