169

عمران خان کی اگلی مہم جوئی انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

عمران خان اس وقت اپنی عوامی مقبولیت کے عروج پہ ہیں۔ ساڑھے تین برس کی حکومت کی بدترین کارکردگی کے باوجود ان کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت اور جوش و خروش پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے چاہنے والا ہجوم مرنے مارنے کو تیار ہے۔ عمران خان کا کرپشن مخالف بیانیہ بھی خوب بکا تھا اور اب امریکہ مخالف سازشی بیانیہ بھی بہت اثر انگیز ہے۔ ان کے مڈل کلاس حلقہ انتخاب کے لوگ مہنگائی کو بھول بھال کر پھر سے اپنے زخم خوردہ ہیرو کی کال پر متحرک ہوگئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ دوسرے وزیراعظم ہیں جو حکومت سے نکالے جانے کے باوجود مقبول ہیں۔ معاہدہ تاشقند کی پراسرار ”سازش“ کی طرح عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف مبینہ امریکی ”سازش“ کا زبردست استعمال کیا ہے اور امریکہ مخالف جذبات کو خوب بھڑکایا ہے۔ تاشقند کی ”سازش“ کا راز تو راز رہا، لیکن عمران خان کی ”امریکی سازش“ کی تھیوری کو وہ اب خود طشت از بام کیے جارہے ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں اپنے خلاف سازش کی اصل کہانی بیان کرتے ہوئے خان صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ یہ سازش اس سال مارچ میں نہیں جولائی 2021ءمیں پکنی شروع ہوئی تھی جس کے سدباب کے لیے وہ اپنے پسندیدہ آئی ایس آئی چیف جنرل فیض کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ یوں کہیے کہ جونہی آئی ایس آئی کی کمانڈ تبدیل ہوئی اور جس میں کافی بدمزگی ہوئی، عمران حکومت کے ہائبرڈ ڈھانچے کی بنیاد ہل گئی اور اسٹیبلشمنٹ کی نیوٹریلیٹی کے باعث عمران حکومت اپنی فراہم کردہ اکثریت اور اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہوگئی۔ اور عمران خان میر جعفر اور میر صادق کی ”غداری“ کی شکایت لے کر عوام کے پاس چلے گئے۔ اچھی بھلی وسیع البنیاد حکومت کو ”امپورٹڈ حکومت“ قرار دے کر وہ پھر سے ”کرپٹ ٹولے کی واپسی“ کے بیانئے پر پلٹ آئے ہیں۔ اب سازش کی طفلانہ کہانی کس کو یاد رہنی ہے، اس کا تڑکہ عمران خان کی نعرے بازی کی سیاست کو لگ چکا ہے۔ اس کا جادو چل گیا ہے اور سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اپنی حکومت کو جاتا دیکھ کر عمران خان نے پاکستانی سفیر کی سفارتی چھٹی کو خوب استعمال کیا۔ بجائے اس کے کہ مہنگائی سے تنگ آئے عوام ان کی حکومت کے خلاف مظاہرے کررہے ہوتے، اُلٹا عمران خان نے نہایت ہوشیاری سے توپوں کا رُخ موڑ دیا اور لوگ سازش کے ٹرک کی بتی کے پیچھے چل پڑے۔ دوسری جانب اپوزیشن بجائے اسکے کہ سڑکوں پہ ہوتی (ماسوائے بلاول کے لانگ مارچ کے) آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے ڈرائنگ روم سیاست سے عمران حکومت کو مات دے دی۔ یوں بہت قلیل مدت کی حکومت کے عوض پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی عمران حکومت کے چھوڑے ہوئے معاشی و انتظامی بحران کے ملبے کو اُٹھانے پہ تیار ہوگئی۔ ابھی حکومت بنے چند روز ہی ہوئے ہیں کہ تحریک انصاف کے سابق نکمے وزراءاپنی حکومت کے چھوڑے ہوئے ناکارہ اشاریوں کو شہباز حکومت کے سر مڑھنے کو جھپٹ پڑے ہیں۔ غضب تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ تو کہیں خاک ہوا وہ اب اسٹیبلشمنٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے سے رہی، اگر کوئی بیانیہ ہے تو وہ جیسا کیسا بھلے کتنا ہی ہوائی ہو عمران خان کے پاس ہے جس کا توڑ ایک قلیل مدتی پاکستان سپیڈ کی پھرتیوں سے ممکن نہیں۔ مریم نواز عمران خان کے توڑ کے لیے میدان میں تو اُتری ہیں لیکن ان کے پاس اب ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ ہے نہ عوامی اپیل کا کوئی ایجنڈا۔ فقط عمران خان کو برا بھلا کہنے سے آپ پرو عمران اور اینٹی عمران تقسیم کو گہرا کررہے ہیں۔ سیاست کسی اگلے مرحلے میں چلی گئی ہے اور دونوں اطراف کے سیاستدان ایسی سمت میں روانہ ہیں جس کے سنگین نتائج اور خوفناک انجام کا انہیں اندازہ ہی نہیں۔
اب میانوالی کے جلسے سے ”آزادی کی تحریک“ (کس سے آزادی؟) کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے نئے انتخابات کے مطالبے کے لیے 20 مئی کی ڈیڈلائن دے دی ہے، جس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں وہ اسلام آباد پہ پُرہجوم قبضے کی کال دیں گے۔ شیخ رشید نے خوب ٹمی لگائی ہے کہ اسلام آباد کا مجمع بے قابو ہوسکتا ہے جسے عمران خان بھی کنٹرول نہیں کر پائیں گے۔ عمران خان کے عشاقان کے جذبات اتنے بھڑکائے جاچکے ہیں کہ دارالحکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاسکتی ہے۔ اور اس پر ستم یہ کہ آگ بھڑکانے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ آگ پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ گویا خود کش حملے کی تیاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست اپنے دارالحکومت کے جلنے کا انتظار کرتی ہے یا پھر حفظ ماتقدم کے طور پہ کوئی ایمرجنسی اقدام کرتی ہے کہ حادثہ ہونے سے پہلے روک دیا جائے۔ ان غیر معمولی حالات میں شہباز حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ خیال ترک کر دے کہ اس کے پاس موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا مینڈیٹ ہے، گو کہ اسے یہ آئینی و پارلیمانی استحقاق ضرور ہے۔ موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل یہ ہے کہ اگلے انتخابات کا ابھی سے شیڈول کا اعلان کردینا چاہیے۔ اب یہ کب ہوں اور کیسے ہوں پہ اتفاق کی ضرورت ہوگی۔ اگلے انتخابات کو متنازعہ بننے سے بچانے کے لیے واضح اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے نئی مردم شماری، اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں اور ووٹرز لسٹ کی تیاری ضروری ہوگی اور انتخابی اصلاحات پر تمام جماعتوں کا قومی اتفاق رائے ضروری ہوگا۔ ظاہر ہے ان اقدامات کے لیے وقت درکار ہوگا جو نو دس ماہ سے کم نہیں ہوسکتا۔ انتخابات نومبر میں ہوں یا اگلے برس مارچ / اپریل میں، اس پر اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن یہ ایسا اختلاف نہیں جس پر عوامی سر پھٹول کی ضرورت ہوگی۔ دوسری بات اس حکومت کو جو کرنی چاہیے وہ فوری طور پر سپریم کورٹ کے زریعہ ”امریکی سازش“ کی انکوائری کے لیے کمشن کا قیام جو کھلے عام تحقیقات کرنے اور ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کردے تاکہ یہ مسئلہ انتخابی مہم کو پراگندہ نہ کرے۔ تیسری بات شہباز حکومت کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ان کی حکومت قلیل مدتی ، مخلوط ، نحیف اور عبوری ہے۔ اس میں یہ فوری نوعیت کے اقدامات کرسکتی ہے۔ معیشت کو سنبھال سکتی ہے اور انتظامی امور کو بہتر بناسکتی ہے۔ یقینا اس حکومت کو بھی عوامی حمایت کے لیے کچھ بڑے قدم اٹھانے ہوں گے اور اس کے لیے مالی جگہ بنانی ہوگی۔ آئندہ انتخابات کے ناطے سارے امور پر اسے فوری طور پر تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دینی چاہیے اور تحریک انصاف کو نظام سے باہر نکلنے اور نظام کو زمین بوس کرنے کی خود کش سیاست سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ انتخابات کے شیڈول پر اتفاق کے ساتھ ہی تحریک انصاف اسمبلیوں میں واپس آجائے تاکہ آئندہ انتخابات کو غیر متنازعہ، صاف و شفاف بنانے کے عمل میں یہ برابر کی شراکت دار بن جائے۔ لیکن قرائن سے لگتا ہے کہ عمران خان کو اب سپائلر کی سیاست زیادہ سوٹ کرتی ہے اور وہ کسی طور پر سمجھوتا کرتے نظر نہیں آنا چاہیں گے۔ دریں اثناءاسلام آباد کی حفاظت کے لیے پہلے سے ہی ریڈ لائن کھینچ دینی چاہیے کہ دارالحکومت کو یرغمال بننے نہیں دیا جائے گا۔ عمران خان کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ عوامی حمایت کو زیادہ گرمانے سے ان کے پر بھی جل سکتے ہیں۔ جمہوری و پارلیمانی نظام کی بقا ہی میں سب کی بقا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں