308

قومی خودمختاری/ خودداری اور کاسئہ گدائی انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

کاسئہ گدائی بڑھ چڑھ کر پھیلانے والوں کو داد دئیے بغیرنہیں رہا جاسکتا کہ وہ ”سفارتی مداخلت“ کے سخت بیان پر اپنے عشاق کے قافلوں کو قومی خود مختاری و خودداری کی خلاف ورزی پر اکسائیں اور یہ بھلاتے ہوئے کہ 43 ماہ کی کپتانی میں قومی گداگری اور نااہلی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے گئے۔ پاکستان نے 1947-2018 کے 71 برسوں میں 30 کھرب روپے کے قرضے لئے، جبکہ عمران حکومت نے ساڑھے تین برس (2018-2022) میں 22 کھرب کے قرضوں کا بوجھ قوم پہ لادا اور اگر یہ مدت پوری کرتی تو پانچ برس میں 71برس کے قرضوں کا ریکارڈ توڑ دیتی۔ ظاہر یہ کیا گیا کہ بیچارہ کپتان تو گزشتہ حکومتوں کے قرض اُتارتا رہا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 57ارب ڈالرز کے قرضوں میں سے 26ارب ڈالرز سابقہ قرضوں کی قسطوں میں ادا ہوئے تو 31 ارب ڈالرز اپنے چالو خرچوں کے لیے ادھار لیے گئے جس میں اوورسیز پاکستانیوں کا سب سے مہنگا سودی روشن پاکستان اکاﺅنٹ سر فہرست ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر اب 10.8 ارب ڈالرز ہیں اور اگر ان میں سے سعودی، امارات، چین اور آئی ایم ایف کے ڈالرز نکال دئیے جائیں تو کشکول بالکل خالی ہوجاتا ہے۔ اور مہنگائی ہے کہ اسوقت بھی 15فیصد سے اوپر ہے اور وافر صلاحیت کے باوجودلوڈشیڈنگ عروج پر ہے۔ سابق وزرائے خزانہ اسد عمر، حفیظ شیخ، شوکت ترین اور اب ن لیگ کے مفتاح اسماعیل اسی عطار کے لونڈے سے نسخہ مالیات لینے گئے ہیں جس کے سبب پاکستانی معیشت مستقلاً جان کنی کے عالم میں ہے۔ متحدہ مخلوط حکومت نے اگر جون 2022ءتک 12ارب ڈالرز کے مزید قرضے نہ لیے تو ڈاکٹر حفیظ پاشا نے توازن ادائیگی کے بحران کی وارننگ دے دی ہے۔ اب بیچارے مفتاح اسماعیل واشنگٹن میں دردر خیرات مانگتے پھر رہے ہیں کہ دیوالیہ سے بچا جاسکے۔ عمران خان نے قومی خود مختاری اور خودداری کی عصمت کو بچانے کے لیے کچھ ٹھوس کام کیا ہوتا تو پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی کہ دربدر بھیک مانگتا پھرے۔ سیاسی معیشت کے تقاضے کچھ ہیں اور تمام جماعتوں بشمول تحریک انصاف کے طبقاتی لچھن اور ہیں۔ مٹھی بھر امراءکے جس اجارہ دانہ قبضہ کا ذکر کیا جاتا ہے، اس میں تمام بڑے سیاسی، اداراتی اور طبقاتی کردار شامل ہیں۔ بس سیاست کی دکان چمکانے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بوقت ضرورت بیانیے گھڑ لیے جاتے ہیں۔ حالانکہ سابقہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کھسیانی بلی کھنبا نوچے کے مصداق اعتراف کیا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اُن کے (عمران خان کے) ساتھ ہوتی تو وہ حکومت میں ہوتے اور عمران خان نے اپنی سابقہ سرپرست مقتدرہ سے کہا ہے کہ اگر (مجھے نکالنے کی) غلطی سرزد ہوگئی ہے تو اس کے ازالہ کے لیے فوری انتخابات کرادئیے جائیں۔ جب فواد چوہدری نے ٹویٹر پر یہ ٹرینڈ چلایا # غلطی سدھارو۔ الیکشن کراﺅ، تو میں نے اس پر یہ تبصرہ کیا تھا ”مطلب یہ ہوا کہ (فوج) عمران خان کی سرپرستی ترک کرنے کی غلطی سدھارے، 2018 جیسے انجینئرڈ الیکشن کرائے اور پھر عمران کو سلیکٹ کرنے کی غلطی دہرائے“۔ لیکن عمران خان کا انکی حکومت کو نکلوانے کی مبینہ امریکی سازش کو قومی خود مختاری اور خودداری پہ حملے کا بیانیہ شہری مڈل کلاس میں ان کے سابقہ کرپشن مخالف بیانیے سے زیادہ بک رہا ہے۔ ڈاکٹر وسیم نے اپنی کتاب پولیٹیکل کانفلکٹ ان پاکستان میں اس ماسٹر بیانیہ کو مڈل کلاس سے موسوم کیا ہے جس کے دل و دماغ پر قومی غیرت، اسلامی حمئیت اور منافقانہ مغرب دشمنی چھائی ہوئی ہے جو پاکستان کی جدید نوآبادیاتی ریاست کے جدید ڈھانچوں اور ریاست کے تاریخی طفیلی کردار سے متصادم ہے۔ جس سفارتی ٹیلیگراف کو عمران خان نے موصول ہونے کے 20روز بعد اسلام آباد کے اجتماع میں لہرایا تھا، اس میں پاکستان کے سفیر مجید نے تجویز کیا تھا کہ امریکہ سے پوچھا جائے کہ امریکی سفارتی نمائندے نے جو زبان استعمال کی کیا وہ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی ہے۔ عمران خان کی زیر صدارت ہونے والا قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو یا گزشتہ روز کا شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہونے والا اجلاس ہو، ہر دو اجلاس میں ”بیرونی سازش“ کو رد کیا گیا اور اب یہ دہرایا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کو کسی سازش کی کوئی شہادت نہیں ملی۔ جس مداخلت کا ذکر ہے، اس کی مذمت کے لیے امریکہ کو احتجاجی مراسلہ دے دیا گیا ہے۔ اور معاملہ ختم ہوا۔ لیکن عمران خان ”بیرونی سازش“ پہ بضدہونے کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور عدلیہ مخالف بیانیہ کی آگ بھی بھڑکارہے ہیں۔ ان کے بقول امریکہ، پاک فوج، عدلیہ اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں انہیں نکلوانے میں ملوث ہیں۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں کو اور کیا چاہیے تھا، انہوں نے سوشل میڈیا اور سڑکوں کو گرم کردیا۔ لیکن بہرکیف بات ہورہی تھی کنگال معیشت کی اور اوپر سے قومی غیرت کی اُچھل کود کی۔ جب تک دست نگر معیشت عالمی سامراج کا طفیلی پن اور امرا کے ہمہ طرف قبضے کی سیاسی معیشت کے دائمی بحران سے نکلا نہیں جاتا، تب تک قومی خود مختاری و آزادی گرہن رہے گی۔ آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں ویسے بھی ریاستی اقتدار اعلیٰ کئی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت گنوا بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کے دقیانوسی مالی ومالیاتی نسخوں سے کام چلا اور نہ چلے گا۔ بجٹ خسارہ تمام آمدنیوں پر ترقی پسند ٹیکس اور امرا کو حاصل مراعات و استثنیات ختم کر کے اور غیر پیداواری و غیر ضروری دفاعی اخراجات کم کر کے بہ آسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح امرا کو دی گئی بیشمار سبسڈیز ختم کی جانی چاہئیں اور ان کا رُخ صرف کم آمدنی والے طبقات کی طرف کردینے سے غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق امرا کو 4200 ارب روپے کی مراعات حاصل ہیں۔ زرعی آمدنی پہ ٹیکس محض 2 ارب روپے اور شہری کرایوں کی مد میں صرف 6 ارب وصول ہوتے ہیں۔ رہا تجارتی خسارہ تو وہ تمام لگژری و غیر ضروری اشیا جن پر بھاری زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے ان کی درآمد فی الفور مکمل بند کرنے سے اس میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ پاکستانی برآمدات کو چین اور بھارت کی منڈی میں بڑھانے کے لیے بھی بڑے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ اور توانائی کی ضروریات خاص طور پر سستی گیس، ایران اور روس سے بھی منگوائی جاسکتی ہے۔ یہ سب اسی وقت پر ہوسکتا ہے جب پاکستان پر امرا کے قبضے کو ختم کیا جائے اور اقتدار کی سیاسی معیشت کی کایا پلٹ ہو۔ لیکن یہ عمران خان سمیت کوئی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان تو الٹا جنرل ایوب خان کے طبقاتی و علاقائی تفریق اور امریکی ایڈ کے زمانے کو سنہرا دور کہہ کر بار بار اس کی یاد دلاتے ہیں۔ رہی بات موجودہ انتظامیہ کی یہ ان اسمبلیوں کی موجود مدت پوری نہیں کرسکتی، نہ ایک محدود عبوری عرصہ میں کوئی بڑا کرشمہ دکھاسکتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی پھرتیوں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ نئی مردم شماری کے ہوتے ہی اس سال کے آخر میں نئے الیکشن کی تاریخ کااعلان کردیا جائے اور عمران خان واپس اسمبلیوں میں آجائیں تاکہ قومی اتفاق رائے سے منصفانہ و آزادانہ انتخابات منعقد ہوسکیں۔وگرنہ اگلے انتخابات بھی متنازعہ رہیں گے۔ بھلا عمران خان کو کوئی کیا سمجھائے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں