352

بلا کا شب و روز تماشہ، انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

”حکومتی تبدیلی کی عالمی سازش“ تو طشت از بام ہوئی، البتہ اندرونی معاملات میں ”غیر سفارتی زبان“ کے استعمال کی ”مداخلت“ کی دُم کتنی عمران خان کی ”امریکہ مخالف“ طوفانی مہم، ”امپورٹڈ حکومت“ کے خلاف نئے انتخابات کے مطالبے کو جلا بخشتی ہے یا پھر ایک وقتی اُبال ثابت ہوتی ہے؟ آئندہ چند ہفتوں میں پتا پڑجائے گا کہ ”قومی آزادی“ کی احتجاجی لہر کہاں جاکے رکتی ہے۔ گزشتہ رات بھی کراچی میں قومی پرچموں کی بہار میں امریکہ مخالف قوم پرست جذبات خوب آپے سے باہر ہوتے رہے، بھلے نعرہ زن یوتھیوں کومعلوم نہ تھا کہ وہ یہ مستانہ نعرہ ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے“ کیوں لگارہے ہیں۔ البتہ پشاور کے جلسے کی طرح تحریک انصاف کا کراچی کا ہجوم بھی تین باتوں پہ بپھرا نظر آیا۔ آئینی و پارلیمانی طریقے سے حکومتی تبدیلی کی ”سازش“ کی طفلانہ کہانی، اپنے فالن ہیرو سے یکجہتی اور ”بدنام زمانہ“ ولنز (حریفوں) کی کامرانی۔ گویا غصہ تین آتشہ ہوا جو جلد ٹھنڈا پڑنے والا نہیں، لیکن وقت کی دھول میں زیادہ چلنے والا بھی نہیں۔ اقتدار سے عدمِ رغبت کے باوجود یہ اتنا پیارا نکلا کہ آئین، قانون، انصاف اور پارلیمان کے سارے لبادے تار تار کر کے پھینک دئیے گئے۔ اور قومی سلامتی و خارجہ تعلقات کو ناراض بچوں کی تضحیک کی مشق ستم بنادیا گیا۔ چالو موقولہ ایک ہی ہے محبت اور جنگ میں سب ”جائز“ ہے۔ اور میں نہیں تو کچھ نہیں۔ آئینی، عدالتی ، پارلیمانی اور اخلاقی شکست اور تمام تر بے اصولی وغیر جمہوری حدوں کو پھلانگنے کے بعد بھی کوئی مقبول زمانہ شخصیت (Celebrity) اور اپنے زخم خوردہ ہیرو سے دیوانہ وار محبت مڈل کلاس میں چھپی محرومیت و غصے کا فسطائی رجحان نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے۔ پاپولسٹ و فسطائی عمران خان کی سیاسی و سماجی افراتفری کی سیاست کوئی مقامی مظہر نہیں۔ اسے ہم امریکہ میں ٹرمپ، ترکی میں اردوان ، فرانس میں لی پین، سری لنکا میں راجہ پکشے اور ہنگری میں جانوس آڈر جیسی آمرانہ، قوم پرست اور نفرت خیز لیڈروں کے عروج و زوال میں دیکھ رہے ہیں۔ یک قطبی دنیا اور گلوبلائزیشن کے انحطاط اور عالمی معاشی، طبقاتی و قومی نابرابری کے منظر نامے پہ بھانت بھانت کے سورمے نمودار ہورہے ہیں اور غروب ہورہے ہیں۔ سو، پاکستان کیوں استثناﺅں میں پیچھے رہے۔ ساڑھے تین برس کی ناکارہ و نامراد کارکردگی کو شرم چھپانے کی جگہ نہ ملی اور ریاست مدینہ ثانی کسی بھی ثواب سے محروم رہی تو المعروف کے دعوے کے توشہ خانہ سے 14 کروڑ کے تحائف کی چوری کی مُنکرات کے ہاتھوں شرمساری پلے پڑی تو بائیں بازو کے دیرینہ امریکی سامراج مخالف پھریرے کو لہرانے میں کیا مضائقہ ہے۔ بھلے سامراج جو عالمی اجارہ دار سرمایہ داری اور بین الاقوامی، مالیاتی تفریق اور امریکی ورلڈ ایمپائر وڈالر کے غلبے سے عبارت ہے سے رتی بھر بھی آگاہی نہ ہو۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی دراصل ہائبرڈ نظام کی اندرونی خلفشار کا پھل ہے۔ یہ ہائبرڈ نظام قائم بھی مقتدرہ کے زور پہ ہوا، دائم بھی اس کے سہارے رہا اور جب سہارہ ”نیوٹرل“ ہوگیا تو یہ راہ عدم سدھارا۔ یہ سارا ہنگامہ میراثی کی رضائی ہتھیانے کا بچگانہ قصہ نہیں۔ نہ امریکہ بہادر کو بھولے بسرے اتحادی کے کسی ڈیماگوگ (جذباتی لیڈر) کو کسی بڑے مقصد کی خاطر راہ سے ہٹانے کی کوئی ضرورت تھی۔ افغانستان جنگ کے خاتمہ پر سوائے انخلا کے امریکیوں کو پاکستان کی کوئی ضرورت نہ رہی، گو کہ امریکہ سے دست نگری کے رشتے برقرار رکھنے اور طفیلی ریاست بنے رہنے کی تمنا بے قرار ہے۔ ٹرمپ کی گود میں بیٹھنے کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ مفت کی امریکی شفقت بائیڈن کے دور میں بھی برقرار رہتی۔ جس طرح کی بات چیت امریکی سفارت کار اورپاکستانی سفیر کے مابین ہوئی اس سے سخت انسانی حقوق کی پامالی پر امریکہ اور بھارت کے نریندرا مودی کے درمیان ہورہی ہے جسے بھارت بھی ”اندرونی معاملات میں مداخلت“ قرار دے کر بار بار رد کررہا ہے، لیکن کسی محاذ آرائی میں پڑے بغیر۔ پاکستانی سفیر کے خفیہ مراسلے کے غبارے سے ہوا تو افواج کے ترجمان جنرل افتخار بابر نے یہ کہہ کر نکال دی کہ کابینہ کی قومی سلامتی کے اجلاس کے اعلامیہ میں ”سازش“ کا کہیں ذکر ہے تو کوئی بتائے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر کی 14 اپریل کی پریس کانفرنس دراصل ہائبرڈ نظام سے کنارہ کشی کا بڑا اعتراف ہے۔ 74 برس سے فوج کی سیاست سے دست برداری کا جو تقاضہ سول سوسائٹی کررہی تھی یا پھر ساڑھے تین سال سے اپوزیشن نیوٹریلیٹی کا جو مطالبہ کررہی تھی، آخر کار پاک فوج نے اسے آئینی تقاضے کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ سلامتی سمیت جو سلامتی کے اداروں کا فریضہ ہے تمام امور پر فوج منتخب انتظامیہ کی تابعدار ہے کا اقرار خوش آئند ہے۔ اس آئینی پوزیشن کی تحفیر وہی کررہے ہیں جو اس کی پامالی پہ سرخرو ہورہے تھے۔ تحریک انصاف کی کھسیانی بلی نے تو کھمبا نوچنا ہی تھا۔ اور خیر سے کپتان اپنی بوکھلاہٹ میں اب عدلیہ اور افواج سمیت تمام ریاستی اداروں پہ حملہ آور ہے۔ عمران خان کی حکمت نراجیعت پسندانہ ہے۔ جو ان کی شخصی بالا دستی سے لگا نہیں کھاتا، ان کی کانپتی بندوق کے نشانے پہ ہے۔ سب کے مخالف کھڑے ہوکر کپتان اپنی اننگز ڈیفیٹ کی تیاری کررہے ہیں تو ان کے لیے دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔ اب افواج کے بھی مارشل لا نہ لگانے کے عہد اور سیاست سے دست کشی کے وعدے کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن کھیر کا ذرائقہ تو کھانے میں ہی پتا لگ پائے گا۔ اس مثبت تبدیلی کے لیے ریاست کے تصور، اقتدار کے ڈھانچے اور اداراتی دائرے سمیت سول ملٹری تعلقات کے تمام پہلوﺅں کو از سر نو تربیت دینے کی ضرورت ہوگی۔ امید ہے کہ جنرل باجوہ 29 نومبر کو ریٹائرمنٹ سے پہلے کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے سامنے جامعہ منصوبہ پیش کریں گے تاکہ جس کا کام اسی کو ساجھے کے کلیہ یہ واقعتا عمل ہوسکے۔ تادم تحریر، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سوری کی ایک اور غیر پارلیمانی حرکت ناکام ہوئی اور وہ اپنے مواخذے سے پہلے مستعفی ہوگئے۔ پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف سپیکر کا عہدہ سنبھالیں گے اور کچھ روز میں سینیٹ کے سلیکٹڈ چیئرمین کی جگہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی مسند سنبھالیں گے۔ اور غالباً آئندہ ہفتوں میں صدر عارف علوی کی علالت فراغت میں بدل جائے گی اور غالباً مولانا فضل الرحمان صدارتی محل میں براجمان ہوجائیں گے۔ ہفتہ ہی کے روز پنجاب اسمبلی ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی صدارت میں پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کرے گی۔ گو کہ تحریک انصاف کے 123 اراکین قومی اسمبلی کا استعفیٰ چھٹ پٹ منظور کروالیا گیا ہے، لیکن بہت سے منکر ہونے پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ صوبوں سے مستعفی ہونے کا امکان ابھی نہیں۔ کیونکہ منتخب اراکین اپنے حلقے مخالفوں کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہونا چاہیں گے۔ رہی خادم پاکستان شہباز شریف کی حکومت تو وہ ایک انتہائی وسیع البنیاد عمران مخالف اتحاد کی حکومت ہے۔ اسے وہ پنجاب کے لاشریک خادم اعلیٰ کی طرح نہیں چلاسکتے۔ وسیع تر اتحاد کی یہ حکومت فقط تین اراکین کی اکثریت پہ قائم ہے جسے زیادہ عرصہ جاری رکھنا ایک نہایت صبر آزما ، مشکل اور پیچیدہ کام ہوگا۔ وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں کی باتوں سے معلوم پڑتا ہے کہ ان کا ارادہ اس اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک اقتدار پہ براجمان رہنے کا ہے۔ ایسے میں اسے عمران خان کی حکومت کا خوفناک ملبہ بھی اٹھانا ہوگا اورملک کو مجموعی بحران سے نکالنے کے لیے بڑے پاپڑ پیلنے پڑیں گے۔ اوپر سے عمران خان کی طوفانی مہم اور جلد انتخابات کا مطالبہ ضرور زور پکڑے گا۔ ایک تو اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت کو قبل از وقت چلتا کرنے کی جلدی کی اور اب وہ اپنی حکومت کو طول بھی دینا چاہتی ہے تو امتحان تو سخت تر ہوجائے گا۔ عوام کی ٹوٹی ہوئی توقعات کی بحالی، معاشی بحران کا حل، سیاسی افراتفری کا مقابلہ اور اوپر سے پرانے پاکستان کے گھسے پٹے فارمولوں پہ انحصار جانے اس حکومت کا مستقبل کیا ہو؟ فی الحال دعائے خیر!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں