98

آخری بال؟ انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

یہ کیسا اوور ہے کہ جس کی آخری بال بار بار کیے جانے کے باوجود ختم ہونے کو نہیں آرہی۔ لگتا ہے سیاسی خود کش اوور ابھی چلے گاکرکٹ تو شرمندہ ہوئی ہی تھی، اب سیاست اور آئین کی علمداری کی خیر نہ رہی۔ کیا تو وہ وقت تھا جب ایک سپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین آئین ساز اسمبلی کی بحالی کے لیے داد رسی کے لیے عدالت گیا تھا اور اس کے ہاتھ میں ”نظریہ ضرورت“ کا پھرا پکڑا دیا گیا تھا اور مملکت خداداد مسلسل آئین کی حکمرانی سے بار بار محروم کی جاتی رہی۔ اور کیا یہ وقت بھی خیر سے آیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے آئین کی سربلندی کو ہر طرح کی لغزش سے پاک کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 95 کی ڈپٹی سپیکر کے ہاتھوں خلاف ورزی کو بمعہ اس کے خطرناک مضمرات کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ جبکہ بیرونی مداخلت کی طفلانہ کہانی کی بے پرکی دلیلوں کو آئین اور مملکت سے وفاداری کی شق 5 کے بے جا استعمال کو بھی قابل اعتنا نہ سمجھا۔ آئین شکنی پہ عدالت عظمیٰ کا آئینی گھونسہ پڑنے پہ بھی ہمارے انصافیان کو چین نصیب نہ ہوا۔ تادم تحریر قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس عدالت عظمیٰ کے حکم پہ شروع ہوچکا ہے، لیکن عدالتی حکم کی رسمی تعمیل کے باوجود عدم اعتماد کی قرارداد پہ ووٹنگ کرانے کی آئینی ذمہ داری کو بلا چوں و چراں پورا کر نے سے لیٹ و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ اس سب غیر آئینی و غیر پارلیمانی تسلسل سے ظاہر ہے کہ اقتدار سے نکلتی تحریک انصاف اور اس کے قائد کو پارلیمانی نظام کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے وزیرداخلہ تو ”جھاڑو پھرنے“ کی امید لیے دہشتگردوں کی آمد کی سہولت کاری سے بھی شاید باز نہ آئیں۔ معاملہ فقط آئین کی پاسداری کا نہ تھا، بلکہ پارلیمانی نظام کی اندرونی جمہوری عملداری کو تلپٹ کرنے کا ہے جس کے طفیل عمران خان اپنی جماعت کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اتحادی جماعتوں کی مدد سے ایک منحنی اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم کے منصب پر براجما ہوپائے تھے۔ بالکل اسی جمہوری میکنیزم کے تحت اکثریت حاصل کرنے پر متحدہ حذب اختلاف نے عدم اعتماد کی قرارداد پہ مطلوبہ آئینی شق اور قومی اسمبلی کے رولز کے تحت قومی اسمبلی میں رائے شماری کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن جب ہاﺅس کا محافظ سپیکر اور اس کا ڈپٹی ہی پارلیمنٹ کی خود مختاری اور اراکین کے استحقاق کو پاﺅں تلے روند ڈالے اور اس پر عدالتی مداخلت پہ شور مچائے تو تحریک انصاف کے پلے کیا جمہوری و آئینی وصف باقی رہ جاتا ہے۔ اب عدالتی انصاف بھی قبول نہیں تو انصافیوں کی انصاف کی دہائی منافقانہ مکاری کے سوا کیا رہ جاتی ہے۔ وزیراعظم کے گزشتہ شب کے قوم سے اعصاب شکن خطاب سے ظاہر ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں جمہوری شکست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور اگلی منتخبہ حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے اور سڑکوں پر بھوکی عوام کی روٹی کی مانگ پر جواب دینے کی بجائے انہیں خودداری پہ اکسا کر بغاوت پہ آمادہ کریں گے۔ بدقسمتی سے عمران خان کو سر پر چڑھانے والوں نے اتنا خود پسند بنادیا ہے کہ ان کی ”مَیں“ مملکت، آئین اور عوام الناس سے بڑی ہوگئی ہے۔ وہ اقتدار میں نہیں ہیں تو وہ سب کچھ مسمار کرنے پہ تلے نظر آتے ہیں
سہارہ لیا بھی ہے تو ”بیرونی سازش کا اور اپوزیشن کو غداری“ کے کٹھہرے میں کھڑا کر کے۔ ان کے تئیں اب قومی اسمبلی کی اکثریت اور ان کے سابقہ اتحادی بھی”غدار وطن“ ہیں۔ ان کی ”آزاد خارجہ پالیسی“ کے پلے روس کے ایک بے وقت دورے کی حماقت کے سوا ہے بھی کیا۔ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وہ امریکہ نوازی میں اتنے آپے سے باہر ہوئے تھے کہ اپنی امریکہ یاترا کو انہوں نے ”ورلڈ کپ“ جیتنے جیسی کامیابی قرار دیا تھا اور او آئی سی کے اجلاس کے بعد 24 مارچ کو اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ سے اپنی ملاقات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک امریکہ تعلقات کے شادیانے بجائے تھے۔ پھر 27 مارچ کے جلسے میں اچانک وزیراعظم نے وہ پراسرار خط لہرایا تھا جس کے راز سے وہ سیاسی ضرورت کے تحت منتخبہ پردہ اٹھاتے رہتے ہیں کہ ان کے پرانے پٹے پٹائے بیانیے کو نئی آتش مہیا کی جاسکے۔ گزشتہ روز ہی وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے انہیں خط کے مندرجات افشاں کرنے سے منع کیا تھا، لیکن ضدی بچے کو کون سمجھائے جس کا کھلونا (وزارت عظمیٰ) اس سے چھینا جارہا ہو؟ بہرکیف اب پاکستانی سفیر کا مراسلہ ایک کھلا راز ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کو داخلی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے بغیر کسی قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آبیل مجھے مار کی دعوت دی جارہی ہے۔ بھلے ملک کی سلامتی ذاتی سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کیسے ہی خطرے سے دوچار ہوجائے۔ ضرورت تھی کہ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں خفیہ و سلامتی کے اداروں کی تحقیق کے حوالے سے بریفنگ سے ”بیرونی سازش“ کی طفلانہ کہانی کو ٹھنڈا کردیا جاتا۔ محض رائٹرز اور باوثوق ذرائع کے حوالے سے دی گئی وضاحتوں سے ریاستوں کے درمیان تعلقات کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوجاتا۔ اس کے لیے ایک واضح ریاستی سطح کے بیان کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر اب پارلیمنٹ کو اس پر اپنا ایک ان کیمرہ اجلاس کر کے اس معاملے کی تحقیق کر کے کوئی واضح نتیجہ اخذ کرنا چاہیے۔ وگرنہ معیشت اور ملکی سلامتی پہ اس کے گمراہ کن سائے نت نئی مشکلات پیدا کرتے رہیں گے۔
اب آئینی تقاضہ ہے کہ نیا وزیراعظم جمہوری و آئینی طریقے سے چنا جائے۔ نئی مخلوط حکومت کو اور آئندہ وزیراعظم کے یے ضروری ہے کہ وہ پانچ فوری فیصلے کرے۔ اول: پاکستانی سفیر کے خط پر ان کیمرہ اجلاس اور پارلیمنٹ کی حتمی رائے۔ دوم: آزادانہ ، منصفانہ اور غیر متنازعہ انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات کا بل۔ سوم: انتخابات کے اسی سال انعقاد کا شیڈول تاکہ الیکشن کمشن 7 ماہ کے اندر اپنی تیاری مکمل کرسکے۔ چہارم: معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات اور عوام کو ریلیف۔ پنجم: اس عبوری حکومت کا 100 روزہ ایجنڈہ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تو 43 مہینے کی حکومت کے دوران ایک روز بھی حذب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی بجائے مسلسل دیوار سے لگائے رکھا اور پارلیمانی نظام کی بے توقیری میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔ لیکن اگلی حکومت کو تحریک انصاف کی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے لگتا ہے کہ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد ان کے دعویٰ کے مطابق زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ ان کی مہم جوئی اور خوفناک بیانیے کا توڑ تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ایک متبادل جمہوری و عوامی بیانیہ ضروری ہے۔ اب تک تو اپوزیشن جانے کیوں اتنی دفاعی پوزیشن میں پھنسی ہوئی تھی۔ لیکن جوں جوں عمران خان آپے سے باہر ہوتے جائیں گے ان کا اینٹی کلائمیکس شروع ہوجائے گا۔ اپنی سمارٹ، مختصر اور اچھی حکومت کے ذریعہ نئی حکومت یقینا عمران خان کے فسطائی غبارے سے ہوا نکال سکتی ہے بشرطیکہ یہ اپنے مختصر مینڈیٹ تک محدود رہتے ہوئے اگلے پانچ برس کے لیے ایک ایسا پائیدار اور عوام دوست ایجنڈا دے جسے عوام الناس کی قبولیت حاصل ہو۔ اگلے چند ماہ جمہوری تسلسل اور معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ نئی حکومت کیا کرتی ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں