233

حب الوطنی، عالمی سازش اور اقتدار

Spread the love

حب الوطنی، عالمی سازش اور اقتدار

انگیخت: امتیاز عالم

اقتدار کی سیاست بہت ہی خطرناک ہے، کوئی بھی کسی حد تک جاسکتا ہے۔ آج عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ پر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں فیصلہ ہوجانا چاہیے کہ کون اگلا وزیراعظم اور پنجاب کا وزیراعلیٰ ہوگا۔ وفاق میں تو نمبر گیم واضح ہوگئی ہے۔ البتہ معلوم نہیں کہ پنجاب میں گجرات کے چوہدریوں کا دھوبی پٹڑا سیدھا پڑتا ہے یا اُلٹا؟ لیکن کپتان اور اس کی ٹیم کچھ بھی کرنے پہ تُلی بیٹھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان عدم اعتماد کے ووٹ کے باوجود اگلے وزیراعظم کے انتخاب کو ملتوی کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں کہ اس اثنا میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو گرفتار کرلیا جائے، اپوزیشن رہنماﺅں پہ غداری کے مقدمات قائم کیے جائیں، عالمی سازش کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کردیا جائے۔ غرض کوئی بھی حربہ جو پارلیمانی نظام کو پٹڑی سے اُتار دے۔ وزیراعظم نے آخری وقت میں آرمی سے استدعا کی کہ وہ استعفیٰ دے کر اگلے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں بشرطیکہ اپوزیشن عدم اعتماد کی قرار داد واپس لے لے۔ یہ درخواست کی بھی گئی تو اس وقت جب وہ اپوزیشن کو ان کے خلاف نام نہاد امریکی سازش کا آلہ کار ہونے کا خوفناک الزام لگا کر ”غدار وطن“ قرار دے چکے تھے۔ بات صرف الزام بازی کی نہیں۔ اقتدار میں جمے رہنے یا اقتدار میں واپسی کے لیے عمران خان نے امریکہ پر الزام بازی کا طوفان کھڑا کر کے گری ہوئی عوامی مقبولیت بحال تو کی ہے لیکن ملکی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر کے ۔ وہ خط جس کو 27 مارچ کے جلسے میں لہرایا گیا تھا، امریکہ میں پاکستانی سفیر کی پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ان کی آخری رپورٹ نکلا۔ حکومتی حب الوطنی کی رگ بھڑکی بھی تو تین ہفتے بعد اور کابینہ کی قومی اسلامتی کی کمیٹی نے تیر مارا بھی تو صرف اتنا کہ سفارت کاری کے ذریعہ امریکہ سے احتجاج کیا جائے گا اور ایک احتجاجی مراسلہ امریکہ کے ایکٹنگ چارج ڈی افیئر کے حوالے کر بھی دیا گیا۔ دریں اثنا امریکی وزارت خارجہ اور وہائٹ ہاﺅس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سختی سے تردید کرتے ہوئے پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ اس سے آگے ریاست پاکستان اور ہمارے نئے نئے قوم پرست رہنما کر بھی کیا سکتے ہیں۔ قوم سے خطاب میں ہمارے بیباک وزیراعظم کی زبان گھبراہٹ اور خوف میں امریکہ کا نام لے کر ایسی لڑکھڑائی کہ میڈیا میں ان کا تماشہ لگ گیا۔ اپنی سیاسی زندگی میں عمران خان نے کیا کیا روپ ہیں جو نہیں دھارے۔ کامیاب کپتان، پلے بوائے، مسیحا، کرپشن کے خلاف محتسب اعلیٰ، مدینہ کی ریاست کے خلیفہ ثانی، امر بالمعروف کے مصلح، مسلم نشاة ثانیہ کے الطغرل، اصلاح کار اور اب امریکی سامراج کے خلاف ایک قوم پرست محب وطن رہنما۔ وہ اتنے خود پسند نرگسئیت پسند اور متکبرانہ نفسیاتی خلجان میں مبتلا ہیں کہ اپنے قوم سے خطاب میں انہوں نے 80بار ”میں میں میں“ کی تکرار کی، 18 مرتبہ ”میرا میرا“ کہا اور 14مرتبہ اپنا نام دہرایا۔ ذرا اس عالمی امریکی سازش کی طفلانہ کہانی کا جائزہ تو لیا جائے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستان اب ایک بھولا بسرا اتحادی ہوچکا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے معاہدے سے انخلا تک پاکستان اپنا کردار ادا کرچکا۔ اڈوں کی ضرورت رہی، نہ اڈے مانگے گئے۔ اور اگر امریکی اڈے مانگ لیتے تو انکار کس مائی کے لعل نے کرنا تھا؟ پاکستان امریکہ کے دائمی اتحادیوں میں بڑا اتحادی رہا ہے اور دوبارہ ایسا بننے کے لیے بے چین ہے۔ مگر عالمی سٹریٹجک جتھہ بندی میں اب بھارت چین کے خلاف چار طاقتی محاذ میں امریکہ کا بڑا اتحادی ہے۔ اور پاکستان چین سے اپنے وسیع تر مفاد میں وابستگی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، گو کہ ریاست کسی نہ کسی طریقے سے امریکہ کا دامن پکڑے رکھنے پہ مصر ہے۔ ایسی صورت میں کونسی سازش اور کیسی سازش؟ گزشتہ ساڑھے تین برس میں عمران حکومت نے امریکی انتظامیہ کی مسلسل مدد کی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد کے توسط سے صدر ٹرمپ کے داماد کشنر تک رسائی حاصل کی گئی اور صدر ٹرمپ کو کشمیر پہ ثالث بنا کر دوسرا ”ورلڈ کپ“ اٹھائے ہمارے کپتان واشنگٹن سے کامران لوٹے تو پتہ چلا کہ وزیراعظم مودی نے ٹرمپ کی اشیر باد سے 5 اگست 2019ءکو کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی۔ وہ اسلامی کانفرنس جو عمران خان نے ترکی کے صدر اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر کوالا لمپور میں منعقد کرنے میں پہل قدمی کی تھی، ریاض سے ایک فون پر عمران خان آخری وقت میں بھاگ گئے تھے۔ ابھی جس رپورٹ کا بڑا ڈرامہ لگایا گیا ہے وہ 7 مارچ کو موصول ہوئی تھی جس سے کئی ماہ قبل اپوزیشن نے عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنایا تھا، اس کے بعد بھی اسلام آباد میں آرگنائزیشن آف اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ کو مدعو کیا گیا تھا اور وزیر خارجہ نے امریکہ کے لیے گہرے دوستی کے جذبات اور تعلقات کو وسیع تر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جب عدم اعتماد کا ووٹ سر پہ آیا، اتحادی ساتھ چھوڑ گئے، حکومتی کارکردگی صفر، قرض دگنے اور مہنگائی عروج پہ تو کوئی ”حیران کن“ ڈرامہ رچانے کی سوجھی۔ 27مارچ کے جلسے میں جو سانپ نکالا گیا وہ اب پاکستان کی دست نگر اور طفیلی ریاست کے گلے میں چھچھوندر بن کے رہ گیا ہے۔ پاکستان میں اینٹی امریکن ازم بہت وسیع ہے، اس لئے عالمی سازش کا یہ کارڈ عمران خان کی حب الوطنی اور اپوزیشن کی غداری ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ عمران حکومت کے مالی سال 2019-2020 میں امریکہ پاکستانی بجٹ میں سب سے بڑا ڈونر تھا۔ آئی ایم ایف نے امداد بحال کی اور ایک ارب ڈالرز جاری کردئیے۔ فروری ہی میں ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے تقریباً ایک ارب ڈالرز دئیے۔ کیا یہ امداد عمران حکومت کو گرانے کے لیے دی گئی یا معاشی انہدام سے بچنے کے لیے دی گئی؟ یادش بخیر، جس ایوب خان کے ”ترقی کے ماڈل“ کے گیت گاتے عمران خان نہیں تھکتے وہ امریکی برانڈ تھا اور پاکستان امریکہ کا اتحادیوں میں بڑا اتحادی تھا۔ کسی مفکر نے خوب کہا ہے کہ حب الوطنی یا قوم پرستی بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔ عمران خان در حقیقت ایک پاپولسٹ لیڈر ہیں، ان کی شخصیت نہایت دلکش اور کردار دیومالائی ہے۔ وہ پہلے پاکستان کے ہیرو کے طور پر سامنے آئے، لیکن مقتدرہ کی سرپرستی اور مدد سے اقتدار کے لیے انہوں نے انہی مافیاز کے بڑے جفادریوں کو ساتھ ملایا جن کو ختم کرنے کے لیے وہ میدان میں اُترے تھے۔ ایک دست نگر معیشت میں انہیں وہ کشکول اٹھانا پڑا جو وہ توڑنے کا وعدہ کر کے آئے تھے۔ وہ اب ایک آزاد خارجہ پالیسی کے خالی خولی نعرہ ایک طفیلی ریاست میں لگا رہے ہیں جسکی کہ وہ خود پیداوار ہیں۔ اب جبکہ ہائبرڈ نظام زمین بوس ہورہا ہے، سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ پارلیمانی جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی عمران خان کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے اور جلد از جلد آزادانہ انتخابات کے انعقاد سے نیا عوامی مینڈیٹ حاصل کیا جائے۔ اگلے وزیراعظم کو پہلے ہی خطاب میں پوری پارلیمنٹ کی کمیٹی بنا کر پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر کی رپورٹ کی تحقیقات کرنے، انتخابی اصلاحات اور آئندہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردینا چاہیے۔ وگرنہ عمران خان جمہوری تسلسل کے لیے بڑے ہی خطرناک ثابت ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں