158

بھارت کی پانچ ریاستوں کے انتخابات اور مودی کا مستقبل

Spread the love

انگیخت: امتیاز عالم

بھارت میں پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے چار ریاستوں میں میدان مار لیا ہے، جبکہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی (آپ) نے کانگرس اور اکالی دل کا صفایا کردیا ہے۔ سب سے بڑا معرکہ اتر پردیش (جس کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے) میں ہوا جہاں پہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مسلسل چوتھی فتح ہے اور اس کے ”نئے ماڈل“ یوگی ادتیاناتھ دوسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ اترا کھنڈ میں بی جے پی (48 سیٹیں) نے کانگرس (18سیٹیں) کو شکست دی ہے۔ گووا میں 20 سیٹوں کے ساتھ بی جی پی نے کانگرس (12سیٹیں) کو ہرایا ہے اور مانی پور میں بی جے پی نے 31 سیٹوں کے ساتھ کانگرس (8) کو مات دی ہے۔ پنجاب میں بڑا مقابلہ دہلی کے چیف منسٹر کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے منقسم کانگرس اور اکالی دل کو بھاری اکثریت (92 سیٹیں) کے ساتھ دندان شکن شکست دی ہے۔ بھارتی سیاست کے منظر کو سمجھنے کے لیے پہلے اُتر پردیش کے انتخابی معرکہ کا جائزہ لینا ضروری ہے جسے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے سیمی فائنل قرار دیا جارہا تھا۔ جس کے زبردست نتائج کی بنیاد پر وزیراعظم نریندرا مودی نے آئندہ عام انتخابات میں اپنی کامیابی کا دعویٰ ابھی سے کردیا ہے اور اس دعویٰ کو چیلنج کرنے والے کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ اتر پردیش میں وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے مقابلے میں سماج وادی پارٹی کے اکلیش یادیو اور ان کی اتحادی جاٹوں کی جماعت راشٹریہ لوک دل تھی۔ کہا یہ جارہا تھا کہ ہندتوااور ”سب کی ترقی، سب کا ساتھ“ کے نعروں پہ جو وسیع جاتی واد اتحاد بی جے پی نے گزشتہ عام انتخابات (2019) اور صوبائی انتخابات (2017) میں بنایا تھا، شاید اس بار وہ منڈل کمیشن کی پیدا کردہ جاتی واد قوتوں کے ہاتھوں بکھر جائے گا اور مہنگائی، کرونا کال، بیروزگاری اور کسان اندولن کے ہاتھوں بھارتیہ جنتا پارٹی کو سبکی اٹھانی پڑسکتی ہے۔ لیکن یہ سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مودی کا کرشمہ اور ادتیا ناتھ کی جوگی گورننس نے پانسہ پلٹ دیا۔ اس بار پھر ہندتوا اور جے رام کے نعروں اور ترقی و فلاحی منصوبوں کے زور پہ بی جے پی نے مختلف طرح کے سماجی، جاتی واد اور دیہی و شہری علاقوں سبھی میں کامیابی حاصل کی۔ پری وار واد (خاندانی سیاست)، جاتی واد (نچلی جاتیوں کی سیاست) اور بھرشٹہ چار (غندہ گردی و کرپشن) کے خلاف بھاجپا (BJP) کی جوابی مہم نے مخالفین کے چھکے چھڑادئیے۔ یہاں تک کہ لکھم پور میں جہاں بھاجپا کے لیڈر نے کسانوں پہ گاڑیاں چڑھادی تھیں، وہاں بھی ساری کی ساری آٹھ سیٹیں بی جے پی نے جیت لیں۔ دلتوں کے علاقے میں بی جے پی نے 123 سیٹیں لیں اور سماج وادی پارٹی (SP) نے صرف 63 سیٹیں حاصل کیں، جبکہ دلتوں کی اصل جماعت بہوجن سماج پارٹی (BSP) صرف دو سیٹیں حاصل کرسکی۔ یہاں یہ لگتا ہے کہ دلت ووٹ نہ صرف تقسیم ہوا بلکہ زیادہ تر بی جے پی کو چلا گیا۔ جاٹوں کے علاقے میں جہاں کسان اور مسلمان یکمشت ہوگئے تھے بی جے پی نے 113 اور سماج وادی پارٹی نے 9سیٹیں جیتیں۔ کسان اندولن کے باعث جو حکومت مخالف جذبات پائے جاتے تھے وہ ووٹوں میں تبدیل نہ ہوئے۔ اسی طرح یادیو اور مسلم علاقے میں بھی بی جے پی 39 سیٹیں لے کر سماج وادی پارٹی کی 36 سیٹوں سے آگے رہی۔ 403 اراکین کی اسمبلی میں کل ملا کر بی جے پی نے 273 نشستیں جیتیں اور 43.82 فیصد ووٹ لیے۔ جبکہ گزشتہ صوبائی انتخابات میں اس نے 325 سیٹیں اور 41.35فیصد ووٹ لیے تھے۔ اب کے ووٹ زیادہ پڑے سیٹیں کم رہیں۔ البتہ سماج وادی پارٹی نے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں 8.25فیصد زیادہ ووٹ اور 71 سیٹیں زیادہ لیں۔ یعنی بی جے پی کے 40,383,487 ووٹوں کے مقابلے میں 33,471,407 ووٹ حاصل کر کے 125 سیٹیں جیتی ہیں۔ کانگرس کو صرف 2.33 فیصد ووٹ ملے اور صرف دو سیٹیں ملیں۔ بی ایس پی کے ووٹ آدھے رہ کر 12.88 فیصد رہ گئے جس کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوا۔ اویسی کی مسلم جماعت کو دو لاکھ ووٹ بھی نہ پڑے۔ یوں مایا وتی (BSP) اور اویسی سپائلر کے طور پر سامنے آئے۔ یوپی کے الیکشن نے ہندتوا کی لہر کو مربوط و وسیع کیا ہے اور مودی کی ترقی اور فلاحی سکیموں اور گورننس نے سیکولر قوتوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ماہانہ راشن چھ ہزار روپے کیش اور مفت گیس سلنڈر نے شاید کام کردکھایا۔ کانگرس خاندانی سیاست اور ہندتوا کے مقابلے میں سافٹ رویہ کے باعث قومی منظر سے پسپا ہوتی چلی گئی ہے۔ گو کہ آئندہ پانچ ریاستوں میں مقابلہ کانگرس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہی میں ہوگا۔ چار ریاستوں کے نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی کی قیادت کو مستحکم کردیا ہے۔ اور اس کے مقابل ڈھلمل سیکولر قوتیں کھڑی نہیں ہوسکیں گی۔ سخت گیر ہندتوا کے مقابلے میں نرم ہندتوا چلنے والی نہیں اور سیکولر قوتوں خاص طور پر کانگرس کی اس بارے ہندو مصالحت پسندی کا دیوالیہ پٹ گیا ہے۔ اب اگر نریندرا مودی 2029 تک بھارت کے وزیراعظم رہ سکتے ہیں تو ان کے جلو میں یوگی ادتیا ناتھ آئندہ لیڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔جن انتخابی نتائج پہ کوئی حیرانی نہیں وہ ہے پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے جھاڑو پھیر دیا جو اس کا انتخابی نشان بھی ہے۔ کرپشن کے خلاف چلائی گئی انا ہزارے کی تحریک کے بطن سے پھوٹنے والی عام آدمی پارٹی اور اس کے سربراہ اروند کیجریوال دہلی کی ریاست میں کامیاب ہوکر ابھرے تھے اور اس کے اثرات پنجاب، ہریانہ، گووا اور دوسری ریاستوں تک پھیل گئے۔ گو کہ یہ گزشتہ عام انتخابات میں دہلی سے لوکھ سبھا کی ساری نشستیں ہار گئی تھی، لیکن بعدازاں صوبائی انتخابات میں کیجریوال پھر سے کامیاب ہوگئے تھے۔ پنجاب کے گزشتہ الیکشن میں بھی عام آدمی پارٹی نے بہت ووٹ لیے تھے، لیکن اس بار اس نے تین چوتھائی سیٹیں جیت کر کانگرس اور اکالی دل کو نکال باہر کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے 117 سیٹوں میں سے 92 سیٹیں لیں، جبکہ کانگرس نے 18 اور اکالی دل (SAD) نے 3 اور بی جے پی نے صرف 2 سیٹیں لی ہیں۔ پنجاب میں یہ بڑی تبدیلی نئے ابھرتے ہوئے درمیانے طبقے کی ہے جس کا سکھ خالصتان اور سکھ علیحدگی پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ عام آدمی پارٹی ایک غیر مذہبی جماعت ہے جو ابھرتی ہوئی نئی نسل اور آزاد سرمایہ داری کی قائل ہے۔ کسان اندولن کی حمایت سے بھی اسے بہت فائدہ ملا اور ممکن ہے کہ یہ ہریانہ اور ہماچل میں بھی کامیاب ہوجائے، پنجاب میں کانگرس میں خوفناک دھڑے بندی اور کیپٹن امریندر سنگھ اور انہیں چیلنج کرنے والے نوجوت سنگھ سدھو بھی بری طرح سے ہار گئے۔ پنجاب میں جیت کے بعد مغربی بنگال میں ترینا مل کانگرس (TMC) کی لیڈر ممتا بینرجی اور پنجاب کے چیف منسٹر اروند کیجریوال اب قومی سطح پر مودی کو چیلنج کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ جبکہ گاندھی خاندان پر کانگرس کی قیادت چھوڑنے کے لیے باغی گروپ متحرک ہوگیا ہے۔ یہ نہیں لگتا کہ اگلے دو برس میں بھارتی اپوزیشن نریندرا مودی کے خلاف کوئی بڑا موثر متبادل لاسکے گی۔ اگلے سات برس کے ممکنہ اقتدار کے دوران راشٹریہ سیوک سنگھ اور اس کے ہندتوا کے ایجنڈے اور بھارت کو ایک ہندو راشٹرا بنانے کی طرف پیشرفت ہوگی اور اس کے سامنے سیکولر قوتیں بھی میدان میں اتریں گی۔ دریں اثنا پاکستان کے پاس اب کوئی چارہ نہیں کہ وہ وزیراعظم نریندرا مودی کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولے کہ اب یہی آپشن ہے۔ بھارتی عوام جانیں اور مودی جانے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں