281

بسلسہ 8 مارچ ، میری زندگی میری

Spread the love

میری زندگی میری

انگیخت

امتیاز عالم

بسلسہ 8 مارچ

میر اجسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ کل (8مارچ) ہے”

دنیا میں گونجے گا۔ کسی بھی انسان کو اپنی زندگی پہ اختیار کیوں نہ ہو؟ آخر اس پر اصرا ر کیوں، کیوں کہ ’’تمہارا جسم، میری مرضی۔‘‘ آج کل دنیا بھر میں نسوائیت پسندی (Feminism) کی چوتھی لہر چل رہی ہے۔ نسائیت پسندی کی یہ لہر 2008ء سے جنسی ہراسانی، صنفی تفریق، تضحیکِ نسواں (Misogny) اور عورت کے ہمہ طرفہ استحصال کے خلاف ابھری ہے۔ جنسی ہراسگی اور زنا بالجبر کا نشانہ بننے والی خواتین شرم و حیا کے ہاتھوں زندہ درگور ہونے کے بجائے سوشل میڈیا پہ پھٹ پڑیں اور MeToo # مہم نے تمام دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ کروڑوں عورتیں جو مرد کی جنسی درندگی کا شکار ہوئیں اور تمام عمر کے لیے ذہنی دبائو اور نفسیاتی مسائل میں گھر کے رہ گئیں۔ ان میں سے بہت کو حوصلہ ملا کہ وہ چیخ اُٹھیں اور مجرموں کو سرعام ننگا کیا۔ سوشل میڈیا پر MeToo ایک عالمی رجحان بنا اور دنیا کے ہر خطے سے احتجاج کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جس پر بہت سے مرد شائونسٹ آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے عورتوں کی نسوانیت کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا لیکن عورتیں فحش کلامی کے آگے جھکی نہیں۔ بلکہ انہوں نے ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کردیا۔ جب مردانہ سفلی ردعمل کے خلاف خواتین نے دقیا نوسی روایتوں میں گھٹ کے چپ ہونے کی بجائے جیسے کو تیسا کر کے رکھ دیا تو ہر قبیل کے حضرات میدان میں اتر آئے۔ یہی کچھ پاکستان میں ہوا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ عورت کے ساتھ گھر میں کیا ہوتا ہے، سڑک پر چلتے کیا بیتتی ہے، سفر کرتے کیا گزرتی ہے، درسگاہوں میں کیا ہوتا ہے اور دفاتر میں کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ جب عورت ریپ کا شکار ہوتی ہے تو اُلٹا اسے ذمہ دار اور شرمندہ کیا جاتا ہے۔ عورتیں تو مردانہ فحاشی، فحش نگاہی اور جنسی جرائم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں جس سے مرد شاہی کو دھچکا تو لگنا ہی ہے۔

عورتوں کی اس لہر کے پیچھے ایک نیا تجزیاتی سانچہ سامنے آیا ہے جسے (Intersectionality)کہا جاتا ہے۔ یہ عورت کے سوال پہ نسل، طبقے، قومیت، رنگ، صنفی شناخت، جنسی رجحان اور دیگر سماجی و معاشی عوامل کا مربوط تجزیاتی فریم ورک ہے جس سے عورت سے کی جانے والی ہر نوع کی تفریق کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کی خالق ایک سیاہ فام امریکی خاتون ہیں، جن کا نام کمبرلے کرین شا (Kimberele Crenshaw) ہے۔ نسائی تحریک اتنی ہی پرانی ہے جتنی صنفی تفریق۔ اور نسائیت (Feminism) کا مطلب فقط عورت کو بطور مکمل انسان منوانا ہے۔ جب نسائیت کی پہلی لہر (1848-1920) چلی تو انہوں نے عورتوں کے حق رائے دہی، منتخب ہونے کے حق اور جائیداد کی ملکیت کے حق کے مطالبات کیے۔ بالآخر امریکہ میں انہیں 1920ء میں ووٹ کا حق مل گیا۔ یہ تحریک بنیادی طور پر سفید فام متوسط طبقے کی خواتین کی تھی۔ نسائیت کی دوسری لہر (1963-1980) بہت ریڈیکل تھی۔ اس تحریک نے جنسیت پسندی (Sexism) کو نشانہ بنایا، عورتوں کی نابرابری و محرومی، صنفی عدم مساوات، تولیدی حقوق (Reproductive Rights)، صنفی حقوق، برابر کی اجرت مساوی واقع اور عورتوں کی طاقت مندی ( Empowerment) کے مطالبات کے ساتھ ساتھ عورت کے بطور بازاری شے اور اشتہاری استعمال، خوبصورتی کے مقابلوں، عورتوں کو جنسی جنس (Sexual Commodity) بنانے اور گھریلو نمائش اور مرد کی تسکین کا ذریعہ بنائے جانے کے جنسیت پسندانہ رجحانات کے خلاف جدوجہد کی۔ یہ ایک تاریخ ساز لہر تھی جس نے پدرشاہی نظام کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ منڈی میں عورتوں کے بطور شے کے استعمال کو بھرپور طریقے سے چیلنج کیا۔ اس کی تجزیہ کار سائمن ژی بیوائر (Simon De Beauvoi) تھیں جن کی کتاب ’’سیکنڈ سیکس‘‘ نے تہلکہ مچا دیا۔ اس رجحان کے اندر بھی کئی رجحان تھے جس میں اشتراکی نسائیت بھی شامل تھا جو عورت کی نجات کو طبقاتی استحصال کے خاتمے سے جوڑتا تھا لیکن اس تحریک میں بھی سیاہ فام عورتیں زیادہ شامل نہ ہو سکیں اور یہ بھی زیادہ تر متوسط طبقوں کی خواتین تک محدود رہی۔ نسائیت کی تیسری لہر ایک طرح سے منڈی کے نئے تقاضوں کی نذر ہوگئی۔ اب نسوانیت اور بنائو سنگھار کا رواج بڑھا۔ انفرادیت پسندی اور صنفی کثرت کے سوالات اور حقوق کی بات ہونے لگی۔ یہ ایک طرح سے دوسری لہر کی ریڈیکل نسائیت کے خلاف شوخ ردعمل تھا۔

آج کل جو لہر ہے وہ تمام طرح کی صنفی کثرت اور محروم صنفوں کے حقوق کے لیے سرگرداں ہے۔ اس کا ابھار سوشل میڈیا کے پھیلائو کے ساتھ ہوا۔ اس لہر میں بھی کئی رجحانات ہیں لیکن اس کا مرکزی نکتہ جنسی استحصال، جنسی ہراسگی اور صنفی تفریق ہے۔ خواتین کی اس طویل جدوجہد کے مختلف مراحل میں عورتوں نے بہت سے اہداف حاصل کئے اور وہ آگے بڑھتی گئی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں عورتوں کی تحریک کے سامنے چاروں نسائی لہروںکے ایشوز بدستور موجود ہیں۔ عورتوں کو حق رائے دہی تو ملا ہے لیکن اس پر مکمل عملدرآمد تشنہ تکمیل ہے۔ اسمبلیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پہ عورتوں کی نمائندگی محض نمائشی ہے۔ عورتوں پہ گھریلو تشدد عام ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلیم و روزگار کے مواقعوں کا فرق بہت زیادہ ہے۔ عورتوں کی محنت کا اعتراف اور مساوی معاوضے ناپید ہیں۔ صنفی تفریق، صنفی عدم مساوات، جنسی جبر و ہراسگی، کم عمری کی شادی، کثیر الازدواجی اور پدر شاہی خاندان اور مردانہ بالادستی کے سماج کی تمام بدعتیں اور زیادتیاں عام ہیں۔ ایسے میں عورت جب اپنے جسم کی حفاظت اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق مانگتی ہے تو پورا پدر شاہانہ سماج اس پر پل پڑتا ہے۔ حالانکہ خواتین اور مردوں کے مابین مساوات سے نہ صرف عورت صحت مند اور توانا ہوتی ہے بلکہ مرد بھی انسا ن کا بچہ بن جاتاہے لہٰذا عورت کی آزادی میں مرد کی آزادی بھی مضمر ہے۔ مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں