972

بلوچستان کاپُرانا قضیہ اورحل ندارد

Spread the love

انگیخت: امتیاز عالم
پنجگور ، نوشکی اور کیچ میں حالیہ بلوچ مزاحمت پسندوں کے فدائی حملوں کے بعد بلوچستان میں جاری خونی تصادم ایک نئی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اگر بلوچ مسلح مزاحمت کار ہنوز بٹے ہوئے ہیں تو ان کی پانچویں مسلح مزاحمت کو گزشتہ 21 برس میں ریاستی طاقت سے کچلا بھی نہیں جاسکا ہے۔بلوچوں کی

سرکشی کو کچلنے اور بلوچوں کی طویل مزاحمتی تحریک کا قضیہ بھی بہت پرانا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا تاریخی سیاق و سباق جانا جائے۔
برٹش انڈیا کی پرنسلی اسٹیٹس کی ریاستوں کے ہندوستان اور پاکستان سے الحاق کی داستان جتنی پیچیدہ ہے، خانات ءقلات (1955-1512) کی شاہی بھی طویل تاریخی دار وگیر سے گزری ہے۔ یہ پہلے مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی سلطنت کی باجگذار رہی۔ بعدازاں 1839 میں برٹش انڈیا کا حصہ بنی اور معاہدہ مستونگ کے بموجب 1876 میں بلوچستان ایجنسی کہلائی۔ انگریزوں نے شمال مغرب میں چیف کمشنر صوبہ بنایا اور جنوب مغرب میں بلوچستان ایجنسی یا قلات اسٹیٹ تشکیل پائی۔ جب ہندوستان اور پاکستان آزاد مملکتیں بنے تو خان اعظم میر احمد یار خان احمد زئی نے 15 اگست 1947 کو ریاست قلات کی آزادی کا اعلان

کردیا۔ 27مارچ 1948ءکو کرنل گلزار نے ریاست قلات پر قبضہ کرلیا اور میجر جنرل اکبر خان خان آف قلات کو کراچی لے گئے جہاں 28مارچ کو ریاست قلات کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا گیا اور الحاق کی دستاویز پہ گورنر جنرل محمد علی جناح نے 31مارچ کو دستخط کردئیے۔ چار محکموں کے علاوہ ریاست قلات کو مکمل صوبائی خودمختاری دے دی گئی۔ لیکن اس کے خلاف 1948 میں پہلی مزاحمت نے جنم لیا۔ بلوچستان اسٹیٹ یونین میں قلات، خاران، لسبیلہ اور مکران شامل تھے اور پھر قلات ڈویژن میں کونسل آف رولرز بنائی گئی جس میں خان آف قلات، جام آف لسبیلہ اور خاران و مکران کے نواب شامل تھے۔ 14 اکتوبر 1955 کو جب ون یونٹ بنا تو بلوچستان کے تمام علاقے اس میں ضم کردئیے گئے۔ ون یونٹ کے خلاف مغربی پاکستان میں قوم پرست جماعتوں نے ایک طویل جدوجہد کی اور بالآخر ون یونٹ کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران 1958 اور 1962 میں جنرل ایوب خان کے دور میں فوج کشیاں ہوئیں جن کے خلاف دو بڑی بلوچ مزاحمتیں ہوئیں اور نوروز خان کو وعدہ شکنی کرتے ہوئے قید کردیا گیا اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ بلوچستان کی پہلی بڑی مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کو 1964 میں جمعہ خان نے دمشق میں قائم کیا جس نے 1968-1973 کے دوران ایران کے صوبہ سیستان میں مسلح مزاحمت شروع کی جو 1973-1997 کے دوران پاکستانی بلوچستان میں پھیل گئی۔ جس کی قیادت انقلابی قوم پرست شیر محمدی مری نے کی۔ اس کا دوبارہ آغاز اللہ نذر بلوچ کی قیادت میں 2003ءمیں ہوا۔

مشرقی پاکستان میں شکست اور بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کی منتخبہ حکومتیں قائم ہوئیں۔ عام انتخابات کے نتیجے میں 30 مارچ 1970ءکو بلوچستان میں پہلی منتخب صوبائی اسمبلی وجود میں آئی۔اور پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کے سہہ فریقی معاہدے کے تحت 1973ءکا متفقہ آئین منظور کیا گیا۔ لیکن 1974ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے عطا اللہ مینگل کی حکومت ختم کردی جس کے خلاف ایک لمبی مزاحمت ہوئی اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر حیدر آباد جیل میں نیپ کے رہنماﺅں کو غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں بلوچ قوم پرستوں کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا گیا اور افغان جہاد کا دھندہ چلا۔ بعدازاں مختلف حکومتوں میں بگٹی، مینگل و دیگر سرداروں کی حکومتیں برسراقتدار رہیں ۔ نواز شریف کی تیسری حکومت میں ڈاکٹر مالک کی ترقی پسند حکومت کو آدھے عرصہ کے لیے وزارت اعلیٰ ملی جس دوران خان آف قلات سلمان داﺅد سے بات چیت چلی لیکن سرے نہ چڑھی۔ بعدازاں جنرل مشرف کے دور میں جب نواب خیر بخش مری کو 2000ءمیں قتل کے کیس میں گرفتار کیا گیا تو پھر سے بلوچ مزاحمت پھوٹ پڑی۔ جنوری 2005 میں ڈاکٹر شازیہ کا کیس سامنے آیا اور مارچ 2005 میں ڈیرہ بگٹی پر فوجی یلغار کردی گئی، پھر 26 اگست 2006کو نواب اکبر بگٹی کے قتل پر بلوچ مزاحمت آگ کی طرح پھیل گئی جسے اب 21 برس ہونے کو آئے ہیں۔ اگست 2006 ہی میں خان آف قلات سلیمان داﺅد احمد زئی نے ایک گرینڈ جرگہ منعقد کیا جس میں بڑی تعداد میں بلوچ عمائدین اور سرداروں نے شرکت کی۔ اس جرگے نے خان آف قلات کو اختیار دیا کہ وہ ”بلوچستان کی آزادی“ کے لیے دنیا میں بلوچوں کا مقدمہ لڑیں۔
1973 کے وفاقی و جمہوری آئین اور اٹھارویں ترمیم کے باوجود وفاق اور بلوچستان کے تعلقات میں قدرے بہتری تو آئی، لیکن مرکز پسند آمرانہ قوتوں کے ہاتھوں بلوچستان کے عوام کو ان کے حقیقی حقوق نصیب نہ ہوئے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد ایک جدید نوآبادیاتی رشتے کے تحت بلوچستان کو کم و بیش ایک نوآبادی ہی کے طور پر کنٹرول اور استحصال کیا جاتا رہا۔ خود بلوچ قیادتوں اور سرداروں میں اختلافات کو نہ صرف ہوا دی جاتی رہی بلکہ انہیں ”تقسیم کرو

اور قابو رکھو“ کے اصول پر زیر نگیں بنایا گیا۔ پھر بلوچ سرداروں کے کردار بھی بدلتے رہے اور وہ جاگیردارانہ تسلط کے تقاضوں کے تحت آمرانہ قوتوں کا آلہ کار بنتے رہے۔ یہ اکبر بھگٹی ہی تھے جو سردار عطا للہ مینگل کی پہلی بلوچ قوم پرست جمہوری حکومت کو گرانے میں پیش پیش تھے اور آج کی مزاحمتی تحریک کے ایک شہید ہیرو بھی۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے بڑے کمانڈر میر ہزار خان بجرانی جو بلوچ انقلابی رہنما شیر محمد مری کے زیلی قبیلے سے تھے افغانستان سے واپس آکر جنرل ضیا الحق سے مل گئے تھے۔ اسی طرح کا دوہرا کردار ہم گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے دیکھتے ہیں، جیسے براہمداخ بگٹی بلوچستان ریپبلکن آرمی کی قیادت کررہے ہیں تو سرفراز بگٹی حکومت میں ہیں۔ حیر بیار مری بلوچستان لبریشن آرمی کے قائد ہیں تو چنگیز مری مزاحمت کے خلاف کھڑے ہیں۔ جاوید مینگل اگر لشکر بلوچستان چلارہے ہیں تو اختر مینگل باپ کے بزنجو گروپ سے معاہدہ کرتے نظر آتے اور ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نذر جیسے مڈل کلاس لیڈر ہیں جو پرانے بلوچستان لبریشن فرنٹ کی قیادت کررہے ہیں جس کے ساتھ مکران

کے نوجوان ہر اول دستہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مجید بریگیڈ ہے جس نے حالیہ فدائی حملوں میں حصہ لیا ہے۔
پنجگور، نوشکی اور کیچ میں گزشتہ دنوں جو حملے ہوئے ہیں، وہ بلوچ مزامت کی نئی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور یہ ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب وزیراعظم نہایت اہم دورے پر چین گئے ہیں۔ ماضی میں اگر سوویت یونین اور افغانستان کی قوم پرست حکومتیں بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کی مدد کرتی تھیں تو گزشتہ برسوں میں امریکہ نواز افغان حکومتیں بلوچ علیحدگی پسندوں کو پناہ اور امداد دیتی رہیں اور اس میں بھارت اور را بھی متحرک رہیں۔ یہ جو واہمہ تھا کہ افغان طالبان کے آنے سے بیرونی ہاتھ کٹ جائے گا غلط ثابت ہوا ہے، سوال یہ ہے کہ بلوچ ناراضگی، بیگانگی اور مزاحمت بیرونی عناصر کی پیدا کردہ ہے یا یہ اندرونی ناانصافی، نابرابری اور قومی جبر کی پیداوار ہے۔ بنیادی طور پر یہ اندرونی تضادات اور عوامل کی دین ہے اور آمرانہ قوتیں اور علیحدگی پسند عناصر اس اندرونی خلفشار کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں اور کررہی ہیں۔ بلوچستان جس کا رقبہ نہایت دشوار گزار اور پاکستان کا 43فیصد ہے اور آبادی نہایت قلیل ، میں اگر بلوچ مسلح جدوجہد کو کچلنا مشکل ہے وہاں کسی بھی قومی آزادی کی تحریک ایک کامیاب دھارا

نہیں بن سکتی۔ بلوچستان کی کم ترین آبادی اور بڑے علاقے کا تضاد اور بلوچوں کی پانچ طویل مزاحمتوں کے بعد یہ خام خیالی دور ہوجانی چاہیے کہ بلوچ مزاحمت کو بزور طاقت کچلا جاسکتا ہے۔ اور بلوچ مزاحمت پسندوں کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ایک مرکوز و مجتمع مزاحمت نہیں بن سکتے۔ نوآبادیاتی روائیت کے مطابق پاکستان کی جدید نوآبادیاتی مقتدرہ کی طویل عرصے سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ سرداروں اور جاگیرداروں کے ایک کا سہ لیس حصے پر مشتمل ڈمی حکومتیں بنوائی جائیں اور انکے ذریعے بلوچستان کے معدنی ذرائع اور جغرافیائی محلِ وقوع کااستحصال کیا جائے اور اگر بلوچ مزاحمت کریں تو انہیں غدار قرار دے کر ریاستی تشدد کا نشانہ بنا کر دبانے کی کوشش کی جائے۔ بار بار یہ نسخہ آزمایا جاتا رہا ہے اور ہر بار بری طرح سے ناکام رہا ہے۔ اب بھی وفاقی سیاست کرنے والی قوم پرست جمہوری جماعتوں کو تنہا کرکے اور ابن اُلوقتوں پر مشتمل لوٹوں کی بلوچستان عوامی پارٹی بنواکر اور انتخابات میں بدترین دھاندلی کرکے ایک جعلی حکومت بنوائ گئ ہے۔ اور مزاحمتی قوم پرست گروپوں کے خلاف فوجی کاروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔ وفاقئیت پسند قوم پرستوں کو جہاں تنہا کیا گیا ہے، وہاں متشدد قوم پرست انہیں اسلام آباد کا ایجنٹ قرار دے کر قابل گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ جعلی بزنجو کرپٹ حکومت نہ تو اچھی حکومت دے سکتی ہے نہ رائے عامہ اور عوام کی حمائت حاصل کرسکتی ہے۔ جسکے باعث ایک طرف نہ تو سی پیک کے عظیم ترقیاتی منصوبے میں بلوچ عوام کی اونرشپ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی گوادر پورٹ محفوظ رہتی ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی افواج پر ساری زمہ داری آن پڑتی ہے اور وہ تنقید کا نشانہ بنتی ہیں جس سے ملک کی خودمختاری پہ آنچ پڑتی ہے۔ اس سلسلےکو اب بند کرنا ہوگا اور ماضی کی قومی جبر کی پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا-
اصل سوال بلوچوں کا قومی سوال ہے جس کے جمہوری وآئینی اور سیاسی حل کے بنا بلوچ مزاحمت ختم ہوگی نہ وفاق مستحکم ہوگا۔ ایک کثیر القومی ملک میں قومیئتوں کے مسلہ کا حل “کوئ قومی جبر نہیں اور کسی طرح کی قومیتی عدم مساوات نہیں” کے اصول پر کیا جاسکتا ہے۔ ہم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے بڑے چیمپیئن بنتے ہیں لیکن بلوچستان کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لیے راضی نہیں۔ اس پرانے قضیہ کا نیا انسانی و جمہوری حل ڈھونڈنا ہوگا اور بلوچستان پر بلوچوں کے حق کو تسلیم کیے بنا بات آگے نہیں بڑھے گی۔ بلوچوں کو ان علاقے کی ترقی ، مقامی ذرائع اور خود پر حکمرانی کا پورا پورا حق دیا جائے۔ مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد جو تاریخی سبق ملنا چاہیے تھا وہ یہی ہے کہ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کی مساویانہ اور جمہوری شراکت داری سے پاکستان کا وفاق جمہوری ہوسکتا ہے اور قائم رہ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں