133

رانا شمیم بیانِ حلفی کیس، سماعت 20 جنوری تک ملتوی

Spread the love

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک )اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم بیانِ حلفی کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کیس کی سماعت کی۔بیانِ حلفی شائع کرنے سے متعلق توہینِ عدالت کیس میں سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے دورانِ سماعت انصار عباسی سے کہا کہ عباسی صاحب آپ کی درخواست آئی ہے، بتائیں کہ آرڈر میں کہاں کلیریکل غلطی ہے؟ ان پروسیڈنگ سے میں بھی ایجوکیٹ ہو رہا ہوں۔انصار عباسی نے کہا کہ آرڈر میں لکھا گیا کہ اگر غلط حقائق بھی ہوئے تو مفادِ عامہ میں چھاپوں گا، جبکہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے درخواست میں یہ بھی لکھا کہ آپ کو نہیں معلوم تھا کہ بیانِ حلفی درست ہے یا غلط، فریڈم آف ایکسپریشن کا خیال اس بینچ سے زیادہ کسی کو نہیں ہے، اگر کوئی بڑا نام آپ کو کوئی بیانِ حلفی دے گا تو آپ چھاپ دیں گے؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ بیانیہ یہ ہے کہ ثاقب نثار نے ایک کیس میں جج سے بات کی، بینچ میں تو وہ جج صاحب

ہی شامل نہیں تھے، بینچ میں تو میں، جسٹس محسن اختر کیانی اور میاں گل حسن اورنگزیب تھے، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ ہم تینوں ججز انفلوئنسڈ تھے۔
انصار عباسی نے استدعا کی کہ میرے خیال سے فردِ جرم عائد نہیں ہونی چاہیے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ آپ نے نہیں کورٹ نے طے کرنا ہے، آپ عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔ رانا شمیم کے وکیل عبدالطیف آفریدی نے عدالت کی اجازت سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم کسی انٹرنیشنل آرگنائزیشن کو کسی ایشو پر کمنٹ کرنے سے نہیں روک سکتے، ہر روز کوئی نہ کوئی وزیر یا مشیر بیان دیتا ہے اور انہیں شائع بھی کیا جاتا ہے، توہینِ عدالت کے ایک مبینہ ملزم عدالت کے سامنے نہیں تو آج فردِ جرم عائد نہیں ہو سکتی۔انصار عباسی نے عدالت کو بتایا کہ بیانِ حلفی کی اشاعت میں احتیاط برتی اور کورٹ یا اس کورٹ کے جج کا نام نہیں لکھا، میری نظر میں یہ معاملہ زیرِ التواء نہیں تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان سے سوال کیا کہ اگر یہ بیانِ حلفی کے بجائے صرف بیان ہوتا تو بھی آپ چھاپتے؟انصار عباسی نے جواب دیا کہ اگر یہ بیانِ حلفی کے بجائے صرف بیان ہوتا تو پھر یہ بیان نہیں چھاپتا.۔عدالتی معاون فیصل صدیقی نے عدالتِ عالیہ کو بتایا کہ لاپروائی کی اشاعت پر مجرمانہ توہینِ عدالت کا کیس نہیں بنتا، میں صرف صحافیوں کی حد تک فردِ جرم عائد کرنے کی مخالفت کر رہا ہوں، فردوس عاشق اعوان کا توہینِ عدالت کا کیس دیکھیں، فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں توہینِ عدالت کی جسے تمام میڈیا نے دکھایا، اس کیس میں بھی میڈیا کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی تھی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت عام لوگوں کے بنیادی حقوق پر فیصلہ دے تو اسے میڈیا میں وہ جگہ نہیں ملتی،۔افضل بٹ نے کہا کہ ہمیں ایک خوف ہے کہ عدلیہ سے ایسا کوئی آرڈر آگیا تو رپورٹر کے لیے خبر دینا مشکل ہو جائے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم بیانِ حلفی کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں