200

چوہدری پرویز الہٰی کے ہاتھوں سیاست یرغمال انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

یوں لگتا ہے کہ ملک میں جاری خوفناک سیاسی کشمکش چوہدری پرویز الہٰی کے ہاتھوں یرغمال ہوگئی ہے۔ ہر دو بڑے فریقین تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کو گجرات کے سیاسی پینرے باز نے تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔ بیچارے عمران خان جمعہ کے روز پنجاب اور پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے خواب کے چکنا چور ہونے پر ہاتھ ملتے رہ گئے اور دوسری طرف آصف علی زرداری کی پنجاب میں تبدیلی لانے کی چالیں اپنا سامنہ لے کر رہ گئیں۔ پنجاب کے گورنر کے آئینی شب خون کو سپیکر صوبائی اسمبلی نے غیر آئینی طورپر غیر موثر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو مسکین درخواست گزار کے طور پر لاہور ہائیکورٹ کا دروازہ دکھا دیا۔ گورنر اور سپیکر کی لڑائی میں ایک منتخب وزیراعلیٰ کا قصور کیا تھا۔ جب اجلاس ہی نہ ہوا تو وہ گورنر کے آئینی حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے اعتماد کا ووٹ کیسے حاصل کرتا؟ یہ علیحدہ بات ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی کی جیب میں اسوقت کامیابی کے لیے 186 سکے اس کی جیب میں موجود ہی نہیں تھے اور نہ ہی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے پاس عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے مطلوبہ تعداد تھی۔ گجرات کے چوہدری نے وہی کام کیا جو پنجاب کے چوہدری ”بنے“ کی لڑائی میں حکم امتناعی حاصل کر کے روایتی طور پر کیا کرتے ہیں۔ پھر کیا تھا لاہور ہائیکورٹ نے بھی اپنی منصفانہ آبرو بچانے کے لیے پنچایتی فیصلے میں ہی عافیت جانی۔ گورنر کے آئینی استحقاق (آرٹیکل130کی شق 7 ) کو تو مشکوک قرار نہ دیا گیا۔ البتہ وزیر اعلیٰ کے اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرپانے پر ان کی عہدے سے برطرفی پر حکم امتنازع جاری کرتے ہوئے اس شرط پر کہ سائل (چیف منسٹر) اپنا اسمبلی توڑنے کا اختیار استعمال نہیں کرے گا، بحران کو 11 جنوری تک ٹال دیا۔ البتہ اس کے لیے چیف منسٹر کو اسمبلی توڑنے کے آئینی استحقاق سے بذریعہ بیان حلفی دست بردار ہونا پڑا۔ ذرا غور کیجئے کہ جب عمران خان کے سامنے یہ بیان حلفی پیش کیا گیا ہوگا تو ان پہ کون سی بجلی گری ہوگی یا پھر وہ اس فیس سیونگ پر دل ہی دل میں شرمندہ ہوئے بغیر نہ رہے ہوں گے۔ یقینا ن لیگ نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ چلئے اسمبلی ٹوٹنے کی بلا تو ٹلی اور عمران خان کو ایک اور ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ ہر اعتبار سے چوہدری پرویز الہٰی کامران و شادمان ہوئے اور ہر دو بڑے فریق ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔ سبھی جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے اکثریتی اراکین اور قلیل لیگ اسمبلیوں کی باقی مدت کے فیضان سے محروم ہونے کو تیار نہ تھے۔ المیہ یہ ہے کہ پنجاب کے بڑے ایوان میں جب گورنر کے خلاف قرارداد لائی گئی تو حکومتی اتحاد کے 149 ارکان اور اپوزیشن کے 115 ارکان موجود تھے، گویا کسی کے پاس ہاﺅس کی اکثریت نہ تھی اور آخر میں کسی منچلے نے کورم نہ ہونے کی نشاندہی کردی۔ یہی دو بڑے فریقوں کی عددی کمزوری ہے جو چوہدری پرویز الہٰی کی پینترے بازیوں کی کامیابی کے کام آئی۔ اس سیاسی تماشے سے جو مثبت بات برآمد ہوئی ہے وہ یہ کہ پنجاب اسمبلی عمران خان کے ویٹو کے باوجود تب تک برقرار رہے گی جب تک عدالت عالیہ اس گنجلک آئینی مسئلے کو سلجھانے کے لیے فریقین کے آئینی ماہرین کے شیطان کی آنت کی مانند طویل دلائل سن کر چند مہینے غور و خوض کے بعد اپنا فیصلہ سنا نہیں دیتی، تب تک وزیراعلیٰ اپنے اسمبلی کو توڑنے کے آئینی حق کے مسلوب ہونے پہ خوب کھل کھیلیں گے اور جو احساس محرومی سنٹرل پنجاب میں سرائیکی وسیب کے ڈمی وزیراعلیٰ کے ہاتھوں پیدا ہوا اس کی تلافی میں کوئی کسرنہ اُٹھارکھیں گے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے غیر معینہ التوا کے ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی بھی بچ گئی اور قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کی تصدیق بھی ملتوی ہوئی اور فوری انتخابات کا عمران خان کا مطالبہ اپنی موت آپ مرگیا۔جو خفت ن لیگ کے قائد حزب اختلاف کے طور پر چوہدری پرویز الہٰی کو چیف منسٹر منظور وٹو کے ہاتھوں اٹھانی پڑی تھی، وہ اب کی بار چوہدری پرویز الہٰی کے دست مبارک سے دونوں بڑے سیاسی فریقین کو نصیب ہوئی۔ لیکن اس ناکامی میں ن لیگ کی کامرانی دیدنی ہے اور عدم اعتماد کے ووٹ کی قرارداد واپس لیتے ہوئے اسے رتی بھر تضحیک محسوس نہ ہوئی۔ گو کہ زمان پارک میں بیٹھے خان صاحب کی تلملاہٹ قابل دیدنی ہوگی۔ اب جنرل الیکشنز تو گئے اگلے برس مئی سے آگے اور یہ اگست سے پہلے بھی ہوتے نظر نہیں آتے۔ عدالت عالیہ کے فیصلے سے آئین کی تکریم ہوئی یا نہیں ملک ایک بے چین سیاسی ”استحکام“ کی جانب شاید چل پڑے۔ پختونخوا سمیت چھوٹے اور محروم صوبوں نے بھی کیا سیاسی نظارہ دیکھا کہ کس طرح پہلے منظور وٹو کے سیاسی ”وَٹ“ کے ہاتھوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ یرغمال ہوئی تو اب کیسے گجرات کے چوہدریوں نے سب کو اپنی انگلیوں پہ نچادیا ہے، گو کہ اپنے سیاسی گروُ چوہدری شجاعت کو کھڈے لائن لگا کر جن کے در پر وزیراعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری کورنش بجالانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اگر میکیاولی زندہ ہوتا تو شاید گجرات کے چوہدریوں کی سیاسی چال بازیوں کو دیکھ کر اسے اپنی شہرہ آفاق کتاب پرنس دوبارہ لکھنی پڑتی۔ اب پنجاب میں چوہدریوں اور ان کی دُم چھلا تحریک انصاف کے اراکین کی موجاں ہی موجاں۔ اگر گجرات پیرس نہ بھی بنا تو لاہور ضرور ہاﺅسنگ سوسائٹیز کا ماحولیاتی قبرستان ضرور بن جائے گا۔
غالباً مقتدرہ کی بھی یہی نیوٹرل منشا تھی کہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نہ ہو اور پنجاب عدم استحکام کا شکار نہ ہو جبکہ ان کا مستقل فرمان بردار تخت لاہور پہ براجمان ہو۔ عمران خان کو سیاسی طور پر پسپا کیا بھی تو جنرل باجوہ کے چیلے نے۔ پہلے تو ہمیشہ سے چھوٹے صوبے مقتدرہ کا دردِ سر رہے ، پھر پنجاب پہلے پیپلزپارٹی کے ہاتھوں مشکل کا باعث بنا تو جنرل ضیا الحق نے ن لیگ کو پروان چڑھایا اور پیپلزپارٹی کو پنجاب بدر کیا، پھر تحریک انصاف کو کندھے پہ بٹھا کے پنجاب پرقابض کرایا تو وہ بھی گلے آن پڑی۔ پنجاب دو بڑی متحرب پارٹیوں کے ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر تنکے کا سہارہ ملا بھی تو گجرات کے چوہدریوں کی صورت جو اب اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ پنجاب کا مقتدرہ کے گڑھ کے طور پر ہاتھ سے نکلنا بھی وفاقی جمہوریت کے لیے ایک نیگ شگون ہے اور یہ بھی خوش آئند ہے کہ آخری سہارہ بھی فقط ایک تنکا ہے جسے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا اڑا لے جائے گا۔ اس المیے کا بڑا المیہ ہے کہ تینوں بڑی جماعتیں باہم دست و گریباں ہوکر جمہوری میدان کو اُکھاڑنے میں لگی ہیں اور اوپر سے سویلین بالادستی کے لیے رطب اللسان ہیں۔ عمران خان کی یہ سیاسی منطق کہ فوری انتخابات ہر مسئلے بشمول معاشی انہدام کا واحد حل ہیں قطعی طور پر معروضی حالات کے منافی ہے۔ اگر آزادانہ و منصفانہ انتخابات بھی ہوجائیں (جن پر قومی اتفاق رائے یہ پی ٹی آئی ابھی بھی راضی نہیں) تو بھی معاشی بحران کئی برس چلے گا۔ یہ جلد حل ہونے والا نہیں اور نہ اس سے پیدا ہونے والا بحران ریاستی استحکام کو پیدا ہونے دے گا۔ ایسے میں خاموش طبع اور سیاست سے بیگانہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کا یہ کہنا کہ اقتصادی استحکام و ترقی کے لیے پائیدار امن کو یقینی بنایا جائے گا، یقینا قابل غور ہے جبکہ ایک طرف آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط پہ بضد ہے اور ملک کے پاس صرف چھ ارب ڈالرز کا زرمبادلہ ہے اور کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور فری مارکیٹ کے کالے دھن کے ہاتھوں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں گرتا چلا جارہا ہے اور دوسری طرف دہشت گردوں کی بھیانک کارروائیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ایسے میں ملک فوری انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ بہتر ہوگاکہ سیاسی متحاربین اگست /ستمبر میں عام انتخابات پہ اتفاق پیدا کر کے ملک کو معاشی سانس لینے کا موقع فراہم کریں، انتخابات اب نہیں تو اکتوبر تک ہو ہی جائیں گے اور معاشی بحران اگلی حکومت کو بھی ہڑپ کرنے پر تیار ہوگا۔
بقول فیض: رختِ دل باندھ لو، دل فِگار و چلو!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں