169

‎عمران خان پر قاتلانہ حملے کے سنگیں مضمرات انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

شکر ہے کہ عمران خان ایک خوفناک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے، جس کی کہ اُنہیں کئی ذرائع سے پہلے سے ہی خبر تھی اور وہ ناقص سیکورٹی کے باوجود لانگ مارچ کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ واقع پیش آیا بھی تو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے آبائی علاقے میں۔ جائے وقوع سے ملزم نوید گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے پہلے کہ افواہ سازی کا بازار گرم ہوتا، ملزم کے دو اقبالی بیان بڑی سرعت سے میڈیا پر نشر بھی ہو گئے۔ جائے وقوع سے 9 خول چھوٹے پستول اور دو چھرے والے کارتوس برآمد ہوئے ہیں، جبکہ مبینہ حملہ آور اور برآمد شدہ ہتھیار ایک ہے۔ ابھی تک باقاعدہ تفتیش شروع بھی نہیں کی جا سکی کیوں کہ ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکی، جس کی بنیادی وجہ عمران خان اور پنجاب حکومت کے موقف میں کھلا تضاد ہے۔ عمران خان وزیراعظم، وزیرداخلہ اور آئی ایس آئی کے ایک میجر جنرل کو مبینہ سازش میں نامزد کرنا چاہتے ہیں اور چوہدری پرویز الٰہی عدم شواہد کی بنیاد پر ایسا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ وقوع کے حوالے سے بھی عمران خان کا موقف ہے کہ حملہ دو اطراف سے ہوا اور انہیں چار بلٹ یا چھرے لگے ہیں، جبکہ پولیس کو اب تک دوسرے حملہ آور اور دوسرے ہتھیار کی ابھی تک کوئی بھنک نہیں ملی۔ چونکہ معاملہ ہائی پروفائل سیاست کا ہے، اس لیے تمام قوتیں حرکت میں آ گئی ہیں۔ عمران خان اپنے تین مبینہ ملزموں کی برطرفی تک لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، جبکہ آئی ایس پی آر نے پی ٹی آئی چیئرمین کے فوج مخالف اور اپنے ایک افسر کے خلاف الزامات پر سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ضروری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تادمِ تحریر بحث اس پر جاری ہے کہ یہ کیا عمران خان کو قتل کرنے کی سوچی سمجھی سازش تھی یا محض ایک وارننگ شاٹ تھا یا پھر یہ ایک مذہبی جنونی کا اضطرابی ردِعمل تھا۔ اس واقعہ کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے کہ جس نے فول پروف سکیورٹی کے انتظامات پر تقاضوں کے باوجود کیوں نہ عمل کروایا یا پھر اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت اور اس کے زیرِانتظام ادارے ہیں۔
‎یہ سوچ کر کانپ اُٹھتا ہوں کہ اگر عمران خان کو قتل کرنا مقصود تھا اور وہ قتل ہو جاتے تو اس ملک میں کتنی خوفناک طوائف الملوکی پھیل جاتی اور سلسلہ جانے کہاں جا کر رُکتا؟ عمران خان پر حملے کی خبر سنتے ہی اُن کے مداح مختلف شہروں میں باہر نکل آئے اور اُن کا غصہ اور نعرے غیض و غضب سے بھرے ہوئے تھے۔ خوش قسمتی سے “بدلہ لینے” کی کالز کے باوجود گلیاں اور محلے کشت و خون سے بچے رہے۔ لیکن اس حملے سے سیاست میں محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ تشدد کا عنصر شامل ہو گیا ہے اور مذہبی کارڈ کا بے جا استعمال بھی شدومد سے در آیا ہے۔ عمران خان کے ناقدین الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے جو جنونیت پیدا کی اور جس طرح مذہب کا استعمال کیا، وہ اپنا ہی بویا کاٹ رہے ہیں۔ لیکن کون ہے جو مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے سے باز رہا ہو؟ قاتل کا جو بھی مقصد رہا ہو، اس ناکام قاتلانہ حملے سے عمران خان ایک “زندہ شہید” کے طور پر دیکھے جانے لگے ہیں۔ ان کے “رجیم چینج” کی عالمی سازش کے بیانیہ میں اب اُن کو مار ڈالنے کی سازش کا بارود بھی شامل ہو گیا ہے۔ دُنیا بھر میں اور ملک کے طول و عرض میں اُن پر قاتلانہ حملے کی پُرزور مذمت کی گئی ہے اور مستقبل میں ان پر کسی حقیقی قاتلانہ حملے کی ایک طرح سے پیش بندی بھی ہو گئی ہے۔ اب ریاست کی مجبوری ہو گی کہ اُن کی حفاظت کا فول پروف اہتمام کیا جائے۔ جب بے نظیر بھٹو پر کراچی میں منظم دہشت گرد حملہ ہوا تھا تو وہ خود حالات سنبھالنے کے لیے موجود تھیں اور جب راولپنڈی میں انہیں شہید کیا گیا تو آصف زرداری نے حالات کو “پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا کر سنبھال لیا تھا اور نواز شریف کو بھی انتخابات میں شریک رہنے پہ راضی کر لیا تھا۔ لیکن عمران خان کو کچھ ہو جاتا تو پیچھے پی ٹی آئی کو سنبھالنے والا کوئی بھی تو نہیں۔
‎عمران خان نے اپنے زخموں کے مندمل ہونے تک لانگ مارچ کو فی الحال ملتوی تو کر دیا ہے، لیکن اپنی پارٹی کو احتجاج جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ لانگ مارچ کی اگلی کال کا انتظار کرنے کا کہا ہے۔ لیکن اس دوران اُنہیں سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیا اور کس طرح حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اُن پر حملے کے خلاف غم و غصہ تو بہت وسیع تھا، لیکن سڑکوں پر کوئی بڑا ہنگامہ تو نہ ہوا۔ البتہ سلامتی کے اداروں کے خلاف بہت نعرے بازی ہوئی۔ ان کی پارٹی نہ تو منظم ہے اور نہ ہی اُس کی کوئی فائیٹنگ ہارڈ کور ہے۔ اس لیے انہیں اپنے انقلاب (وہ جو بھی ہے؟) کو پرچی یعنی پُرامن جمہوری جدوجہد تک محدود رکھنا چاہیے اور کسی خونیں انقلاب کی ترغیب سے اجتناب کرنا چاہیے جو موجودہ حالات میں نراجیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ویسے بھی حقیقی سماجی انقلاب کے لیے ایک انقلابی طبقاتی کایاپلٹ کا نظریہ اور محنت کشوں کی انقلابی جماعت چاہیے اور وہی اس گلے سڑے نظام کو تہ و بالا کر کے ایک منصفانہ عوام دوست اور باہم رضاکارانہ شراکت کا نظام لا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عمران خان کی “تبدیلی” کی سیاست نہ صرف یہ کہ انقلابی نہیں بلکہ جمہوری وصف سے بھی محروم ہے کیونکہ وہ اب تک ریاستی اداروں کی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف امداد کے ملتجی ہیں اور ایک جدید نوآبادیاتی نوکرشاہانہ نظام میں سیاہ و سفید کے مالک بننا چاہتے ہیں، جس کا کہ تجربہ ہائبرڈ نظام کے زمین بوس ہونے پر پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے اور جس کے مصنفین اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اپنے نئے مطالبے کے لیے بھی وہ جنرل باجوہ سے اپیلیں کر رہے ہیں، حالانکہ اُن کا یہ آئینی و قانونی اختیار نہیں کہ وہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کو برطرف کر سکیں۔ اُلٹا فوج کے ایک اعلیٰ افسر کی برطرفی کے مطالبے پہ اُنہیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔
‎عمران خان کو اپنے ذاتی نرگسی خول سے نکلنا چاہیے اور اپنی مڈل کلاس کی پارٹی کو فسطائی بنیادوں کی بجائے جمہوری بنیادوں پر منظم کرنا چاہیے۔ انہیں اپنی پارٹی کے نظریات اور لائحہ عمل پر بھی غور کرنا چاہیے۔ وہ اسٹیٹس کو کو کیسے بدلیں گے اور کیا نیا متبادل نظام لائیں گے؟ اشراف کے قبضہ کو ختم کرتے ہوئے کس طرح کا عوامی ترقی کا ماڈل اختیار کریں گے؟ ملک کے معاشی حالات اتنے سنگین ہیں کہ اگر چینی و سعودی زرمبادلہ نکال دیا جائے تو اسٹیٹ بنک میں 40 کروڑ ڈالر رہ جاتے ہیں اور آئندہ برس کے لیے کوئی 33 ارب ڈالرز درکار ہوں گے جس کے لیے ابھی تک چین اور سعودی عرب سے 13 ارب ڈالرز کے وعدے سامنے آئے ہیں۔ ایسی دگرگوں مالیاتی حالات میں جبکہ سیلاب زدگان کی بحالی کے ذرائع بھی میسر نہیں، کا تقاضا ہے کہ وہ ملک کو مزید افراتفری کی نذر نہ کریں اور نہ ہی پھر سے مقتدرہ کی گود میں بیٹھنے پہ آمادہ ہوں۔ انہیں جتنی مقبولیت حکومت سے نکلنے پر ملی اور جتنی ہمدردی اب قاتلانہ حملے سے ملی ہے وہ جلدی ہوا ہونے والی نہیں۔ لہٰذا ان کے لیے چند ماہ کا انتظار کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ وہ موجودہ حکومت کی خامیوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور اگر وہ دُوراندیشی سے کام لیں تو جمہوری و آئینی نظام کے استحکام و برتری کے لیے تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ہروقت کا دنگافساد سوہانِ روح بھی بن جاتا ہے۔ ناکام قاتلانہ حملہ کے بعد مزید اشتعال انگیزی کوئی دانش مندانہ راہِ عمل نہیں، بلکہ اس حملے نے خان صاحب کو لانگ مارچ کی تھکاوٹ اور بند گلی سے نکال دیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ اس بند گلی میں پھر سے جانے کی بجائے اسمبلی میں واپس جا کر جمہوری ٹرانزیشن کو کامیاب بنائیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں