112

عمرانی سرکس انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
مرزا غالب کے اس شعر میں ہمارے قومی ہیرو عمران خان کی سیاست کے مخمصے سمجھ آسکتے ہیں۔ ہائبرڈ (دوغلے) نظام کی سرکس کا طربیہ اب سانحہ بنتا دکھائی پڑرہا ہے۔ لاڈلا آنکھ کا تارا نہ رہا تو مشکلوں نے ایسا آن گھیرا ہے کہ ہر کل اُلٹی پڑتی نظر آرہی ہے۔ تیشہ اٹھانے کی سکت نہیں تھی تو پہاڑ سے ٹکر کیوں لی؟ جب شیخ مجیب الرحمان اور عوامی لیگ ملٹری آپریشن کے خلاف کھڑے ہوئے تو عوام نے تاریخ کا پانسہ پلٹ دیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی تو انہوں نے بڑھ کر پھندہ قبول کیا اور ہزاروں جیالے برس ہا برس قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے جمہوریت اور شہادت کے پروانے بن گئے۔ جب نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگی تو خان عبدالولی خان اور میر غوث بخش بزنجو بہادری سے کھڑے رہے اور سرخ رو ہوئے۔ جب دوبار منتخب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کا نشانہ بنی تو وہ خطرے کو بھانپتے ہوئے بھی دہشت گردوں کو للکانے سے باز نہ آئیں اور جب تین بار کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو اقامہ میں تاحیات نااہل کیا گیا اور وہ بیٹی کے ہمراہ قید کاٹنے اور پیشیاں بھگتنے کے لیے خندہ پیشانی سے کھڑے رہے۔ جن جماعتوں کو چوروں اور ڈاکوﺅں کی جماعتیں قرار دیتے ہمارے محترم خان صاحب نہیں تھکتے، انہیں ان جماعتوں کے بانیوں کی قربانیوں اور استقامت سے کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی طرح نواز لیگ بھی مقتدرہ ہی کی پیداوار تھی، لیکن بتدریج دائمی سرپرستوں کی چھتر چھایا سے آزاد ہوتی چلی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اور پیپلزپارٹی بھی باہم سیاسی چپقلش میں ایک دوسرے کے خلاف بھی استعمال ہوتی رہیں اور ہورہی ہیں۔ لیکن عمران خان کی سیاسی ٹریجڈی یہ ہے کہ متوسط طبقے کی وسیع تر حمایت کے باوجود وہ اپنے زور پر جمہور کی خود مختاری کا پرچم بلند کرنے سے نہ صرف ہچکچارہے ہیں بلکہ ”نیوٹرلز“ کی سرپرستی کی بحالی کے لیے گڑ گڑارہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مڈل کلاس کا وہ غیر جمہوری اور آمریت نواز بیانیہ ہے جو یہ سیاسی طبقے کے خلاف دہائیوں سے استعمال کرتی رہی ہے۔ گویا ان کا ایجنڈا حقیقی جمہوریت کی جانب گامزن ہونے کا نہیں آمرانہ قوتوں سے سمجھوتے کا ہے جس کا فی الوقت موقع محل نہیں۔ وہ کبھی اپنے حربی حلقہ اثر کو متاثر کرنے کے لیے ریڈ لائنز کراس کرنے کا رسک لیتے ہیں تو کبھی پاﺅں پڑنے کی منت سماجت۔ نتیجہ: ٹائیں ٹائیں فش! جس کا تماشہ ہم گزشتہ دنوں میں عمران خان کے چیف آف اسٹاف جو ہر ایک کو انگلی کرنے اور اشتعال دلانے کے ماہر ہیں کے نروس بریک ڈاﺅن ہونے کی صورت دیکھ چکے ہیں۔ جو اشتعال انگیزی شہباز گل نے اے آر وائی کے پروگرام میں کی اس کا طوفان بدتمیزی تو پہلے سے ہی سوشل میڈیا پہ ناپختہ ٹرولز نے مچا رکھا تھا۔ پہلے تو پی ٹی آئی قیادت کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اور ٹانگیں کانپنے لگیں، پھر اس عبرت کے نشان پر صف ماتم بچھائی گئی یہ بھولتے ہوئے کہ ساری پارٹی قیادت ریڈلائن کے اس پار کھڑی ہونے جارہی ہے جو ان کے ہی ایجنٹ پرووکیٹیئر نے کراس کی تھی۔ غالباً عمران خان کے اضطراری ردعمل کے پیچھے وہ خوف پنہاں تھا کہ کہیں اُنہیں اور ان کی جماعت کو اس کیس میں ملوث نہ کرلیا جائے اور بدقسمتی سے انہوں نے آبیل مجھے مار کی دعوت دے کر اسی مبینہ ”سازش“ کی تکمیل کی ہے جس کا وہ رونا رورہے ہیں کہ تحریک انصاف اور فوج کو لڑایا جائے۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں نا کہ گل ودھ گئی اے۔
بھولی بسری یادوں میں گم کپتان اعتراف جرم کرتے کیوں بھول رہے ہیں کہ ان کی اپوزیشن ان پر ”سیلیکٹڈ“ ہونے کا الزام لگاتی تھی وہ خود اسے نہ صرف قبولیت بخش رہے ہیں بلکہ اسی ایک صفحہ کی بحالی پہ از سر نو غور کرنے کے لیے رحم کی اپیلیں بھی کررہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مڈل کلاس کا وہ حلقہ جو ان کا بڑا داعی ہے ہمیشہ سے پروملٹری رہا ہے اور وہ اسے اکسا کر فوجی قیادت کے خلاف سڑکوں پر نہیں لاسکتے۔ نہ ہی عوامی دھنوں پہ ناچتے گاتے شائقین اور عشاق ریاست مدینہ کے احیاءپہ راغب ہوسکتے ہیں اور نہ افواج سے جڑی قوم پرستی کے خلاف سینہ سپر ہوسکتے ہیں۔ دراصل عمران خان اور ان کی تحریک کی تین بڑی قوتیں ان کے گلے پڑگئی ہیں۔ اول، مڈل کلاس کا جو حلقہ ان کا حامی ہے، اس کا بیانیہ ہی سیاست مخالف ہے اور وہ عمران خان کی کرشمہ سازی کے اور پرکشش پہلوﺅں کے علاوہ اس لیے بھی قائل ہیں کہ ان کا بت جمہوری سیاست کے خلاف گھڑا گیا تھا اور وہ جمہوری سیاست کے گورکن کے طور پر سامنے لائے گئے تھے۔ دوئم، شوکت خانم کے جس خیراتی ماڈل کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں سیاسی فنڈ جمع کرنے کی زبردست مثال قائم کی، اس کے لبادے میں بڑے بڑے مفاد پرستوں کے ہاتھ ان کی مالی باگ ڈور چلی گئی۔ خیرات اور سیاست کے فنڈز گڈ مڈ ہوگئے اور حساب کتاب خراب ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے جو پی ٹی آئی کے مالیاتی خرد برد، بے ضابطگیوں اور ممنوعہ فنڈز کے گند کا ٹوکرا عمران خان کے سر پہ آن گرا ہے اس سے ان کا مالی شفافیت کا بت پاش پاش ہوگیا ہے۔ اوپر سے توشہ خانہ کے تحائف میں خرد برد، تحائف کا کوڑیوں کے بل حصول اور تحائف فروشی سے مالی فوائد حاصل کیے جانے اور پھر آمدنی سے چھپائے جانے کا سنجیدہ کیس، عمران خان کی صداقت و امانت کا بھانڈہ پھوڑنے کے لیے کافی ہوگا اور وہ تاحیات نااہل قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کروانے میں وہ خود درخواست گزار تھے۔ اب اس کا حوالہ ہی خان صاحب کو نواز شریف کی سنگت میں دھکیلنے کے لیے ممد ہوگا۔ اسی لیے وہ اس سازش کا ذکر کررہے ہیں جو انہیں نواز شریف کے مقدر کا ساتھی بنانے کے لیے کی جارہی ہے۔ سوم، پرانے دور کی جماعتوں اور ان کے ابلاغ کی صلاحیتوں کے برعکس، عمران خان نے سوشل میڈیا کی دلدادہ نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کیا اور ان کے درجنوں ترجمان اس سوشل میڈیا کو اس راہ پہ گامزن کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کی نمائندگی شہباز گل بدرجہ اتم کرتے ہیں۔ گالی گلوچ، الزام تراشی، سکینڈل بازی اور جانے کیا کیا مغلظات ان ناپختہ ٹرولز کا بڑا ہتھیار بن گئیں اور عمران خان اور ان کی تحریک نے ان کی بڑی پذیرائی کی۔ نتیجتاً اب تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس سے دو ہاتھ بڑھ کر مبینہ طور پر ”قومی سلامتی کو ٹھیس پہنچانے“ کا کیس بنتا نظر آرہا ہے۔ سوشل میڈیا کے تحریکی نوجوان گرفتار ہورہے ہیں اور شہباز گل کی طرح اقرار جرم کررہے ہیں۔ بس ایک کڑی باقی ہے کہ اس نفرت انگیز مہم کی کڑی قیادت کے کن کن حضرات سے جڑتی ہے اور اس میں عمران خان کا کیا کردار ہے۔ عمران خان نے فوجی مقتدرہ پر مسلسل وار کرنے کے بعد دوبارہ سے بندھن بحال کرنے کا جو غیر جمہوری راستہ اختیار کیا تھا وہ پٹ گیا ہے۔ ان کے سامنے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ جمہوریت کے استحکام، آئین کی حکمرانی اور سول ملٹری تعلقات کو سویلین حکمرانی کے لیے از سر نو تربیت دینے کے لیے پی ڈی ایم اور پی پی پی کو ان کے 26 نکاتی ایجنڈے پہ بات چیت کی دعوت دیں اور قومی اسمبلی میں واپس جائیں۔ آئندہ انتخابات پہ اتفاق رائے پید اکرنے میں ہاتھ بٹائیں اور جمہوری راستہ اختیار کریں۔ ان کی اور ان کی جماعت کی بچت اس میں ہے! سیاسی قوتوں کو بات چیت شروع کرنی چاہیے اور ایک سیاسی میثاق پہ اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ اگر یہ عظیم سیاسی سمجھوتہ نہ ہوا تو جمہوریت و سیاست پھر سے غارت ہوجائے گی۔ کوئی سمجھے تو سمجھائیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں