156

75 برس کی سیاسی و ریاستی امراضیات انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

پاکستان کی 75ویں سالگرہ پہ اگر کوئی بہ معنی تحفہ ملا بھی ہے تو وہ ہے سیاسیات کے مفکر ڈاکٹر محمد وسیم کی کتاب (Political Conflict in Pakistan) جو پاکستان کی ریاست و سیاست کی امراضیات (Pathology) کو ادھیڑ کر پاکستان کے مستقل سیاسی تصادم و بحران کو آشکار کرتی ہے۔ یہ دراصل آسمانی یا روحانی (Celestial)اور نظریاتی خیال پرستی اور مادی و زمینی (Terrestrial)ریاست کے دنیاوی تقاضوں کے مابین جاری کشمکش کا پر تو ہے۔ جس میں قومی بیانیہ مڈل کلاس کا ہے جو ”قومی مفاد“ ، اسلام، ماضی کے احیا، بھارت دشمن قوم پرستی سے معمور ہے اور ”ریاستی قبضے“ (State Capture) سے جڑا ہے۔ دوسری طرف سیاستدان ہے جو (طبقاتی) ”مفادات“ سے جڑے ہیں اور ظاہر ہے کرپشن کا دوسرا نام سیاست قرار دیا گیا ۔ دو بڑے قبضوں یعنی ”امرا کا قبضہ“ (Elite Capture)اور ”ریاستی قبضہ“ جو زمینی و دنیاوی ہے کے اوپر ایک جدید ریاست اور اس کے قوانین اور ادارے ہیں جو ریاست کے روایتی اور آسمانی تصور سے لگا نہیں کھاتے۔ اس بیچ کودتا ہے بیانیہ جو اسلامی اُمہ کے خواب میں قومی ریاست کی زمینی حقیقت سے لگا نہیں کھاتا۔ اس کی ایک واضح تشریح جنرل ضیاءالحق نے کی تھی کہ اسلامی ٹچ نہ ہو بھی تو مصر اور ترکی ریاستیں رہیں گے لیکن پاکستان بھارت سے مذہبی تفریق بنا قائم نہیں رہ سکتا۔ گویا قومی ریاست کی جغرافیائی، نسلیاتی اور مادی بنیاد کی بجائے نظریہ کی مجرو بنیاد پر روحانی عمارت کھڑی کی جائے۔ یہ تاریخی تصادم 75 برس سے جاری ہے جس کے لیے ابتدائی دہائیوں میں ایک ”اندرونی حلقہ“ جس میں پنجابی اور مہاجر مڈل کلاس تھی جو اسلام، ایک مسلم قوم، مضبوط مرکز، اردو اور ازلی دشمن (بھارت) سے برسرپیکار رہنے کے بیانیہ کی ہر اول قوت تھی جسے ”بیرونی مزاحمت“ یعنی بنگالیوں، سندھیوں، بلوچوں اور پختونوں کی نسلیاتی و زمینی قوم پرستی سے نبرد آزما ہونا تھا۔ لہذا غداروں کی کھیپ بھی وہیں سے پیدا کی گئی اور وہی ریاستی قبضے کے ہاتھوں پامال ہوتے رہے۔ اس لاینحل سیاسی تصادم کی بنیاد بنا بھی تو برصغیر کی آزادی کے وقت فرقہ وارانہ قتل عام اور خون آشام پارٹیشن نہ کہ 1940 کی قرارداد لاہور۔ اس کی تاریخی بنیاد میں مسلم اقلیتی علاقوں میں محرومی سے ابھرا ”دو قومی نظریہ“ تھا جبکہ ریاست پاکستان میں جو علاقے شامل ہوئے وہ مسلم اکثریتی علاقے تھے۔ گویا نظریہ مسلم اقلیت کا تھا، لیکن جو پاکستان بنا وہ مسلم اکثریتی علاقوں نے تشکیل دیا۔ پنجاب تو ویسے ہی یونیسینٹ تھا، جبکہ بنگال متحد رہنے پہ مائل اور نارتھ ویسٹرن فرنٹیئر پراونس (NWFP)کانگرسی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے جو ملک حاصل کیا اسے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی بنیاد پر ایک کرم خوردہ ملک قرار دیا۔ کیبنٹ مشن پلان جو برصغیر کو علاقائی وفاقوں کی خود مختار اکائیوں اور ڈھیلے ڈھالے نیم وفاق پر مشتمل تھا اور 1940 کی قرارداد لاہور کے قریب تر، کانگرس کی جانب سے رد کیے جانے پر جب پارٹیشن پلان پر مذاکرات ہوئے تو جناح صاحب نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ شب بھر مغز کھپائی کی کہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم نہ کیا جائے، لیکن وائسرائے نے جناح صاحب کے ”دو قومی نظریہ“ کا سہارہ لیتے ہوئے انہیں لاجواب کردیا کہ مذہبی تقسیم سے پنجاب اور بنگال کیسے مبرا ہوسکتے ہیں۔ آجکل ”دو قومی نظریہ“ (جس نے برصغیر کی مذہبی تقسیم کراکے اپنا تاریخی فریضہ مکمل کیا اور تاریخ کا حصہ ہوا) کے معذرت خواہ نظریہ دان بھارت میں ہندتوا کے عروج اور ایک ہندو راشٹرا کی جانب سفر کو دو قومی نظریہ ہی کی شہادت کے طور پر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ دو قومی نظریہ بنیادی طور پر اقلیتوں اور خاص طور پر بھارت میں ہندوﺅں کے اکثریتی غلبے کے خلاف مسلم اقلیت کے حقوق کا غماز تھا۔ لیکن بدقسمتی سے برصغیر کی تینوں ریاستوں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے حقوق بدستور پامال ہورہے ہیں۔ یادش بخیر اگر پاکستان سارے مسلمانوں کا وطن بننا تھا اور نظریاتی بندھن ایسا ہی آہنی تھا تو آج بھی بھارت میں کم و بیش اتنے مسلمان ہیں جتنے اس وقت پاکستان میں ہیں اور بعدازاں مشرقی پاکستان ایک اور جنگ آزادی کے ذریعہ بنگلہ دیش کیوں بنا؟
75 برس بعد بھی آج وہی سوال زیر بحث ہے کہ ”پاکستان کا مطلب کیا“ جس کا جواب کلمہ طیبہ پہ اصرار ہے جو کہ سارے جہان کے مسلمانوں کا کلمہ ہے اور جس کا دنیاوی ریاستی امور سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سیاست اور برصغیر کی تقسیم میں مذہب کے استعمال سے تینوں ریاستوں کو فرقہ واریت اور بین الاریاستی تصادم میں جکڑ کے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف جدید ریاست اور اس کے ماڈرن ادارے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضے اور دوسری طرف نشاة ثانیہ سے رجوع اور روایتی و مذہبی تقاضے ہیں۔ ان کے ٹکراﺅ میں کھڑی ہے ریاست اور اس کا ہمہ نو قبضہ اور امرا کی اجارہ داریاں اور دو پاکستانوں کی تقسیم۔ میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتا ہوں کہ آخر پاکستان کا وارث کون ہے۔ امرا ہوں یا ہر دو طرح کی افسر شاہی جسے ریاست اور اسٹیبلشمنٹ بھی کہتے ہیں جس سے اب مراد سپاہ پاکستان ہی لی جاتی ہے۔ ہر دو امرا ریاستی و سول بڑے پیمانے پر ترک وطن کیوں کررہے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی شہریت کیوں اختیار کررہے ہیں؟ اگر حکمران طبقات ہی ملک کے مستقبل سے مایوس ہیں اور اس کا بوجھ ہلکا کرنے کو تیار نہیں تو پھر کون ہے جو اس ملک کا وارث ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس ملک کی تاریخی طور پر وارث قومیتیں ریاست کی جغرافیائی اور انسانی بنیاد فراہم کرنے کے باوجود ریاستی اور امرا کی اجارہ داری سے باہر ہیں۔ رہا محنت کش عوام کا جم غفیر جو اپنی بے ثمر محنت سے اس ملک کی زمین آباد اور صنعتیں چالو رکھتا ہے اور جو بیرون ملک پاکستانی محنت کشوں کے بھیجے گئے زر مبادلہ پہ چلتا ہے ، وہ بے زبان بھی ہے اور بے وسیلہ بھی۔ اس پر مڈل کلاس کا عجوبہ روزگار بیانیہ ہے جس کی نمائندگی عمران خان اور تحریک انصاف کررہی ہے اور جو سیاستدان کے بطور طبقہ خلاف ہے اور ریاستی قبضہ گیروں کی حمایت کا طلبگار۔ لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ موجودہ سیاسی بحران کسی عالمی سازش کا گھڑا نہیں ہے، بلکہ جو ہائبرڈ رجیم یا عجیب الخلقت سیاسی انتظام کیا گیا تھا وہ بیچ چوراہے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ اور پھر سے وہ سیاستدان اقتدار میں پلٹ آئے ہیں جنہیں راندہ درگاہ قرار دے کر فارغ کیا جاتا رہا ہے۔ اب کون کس کی قیمت پر حکمرانی کرے گا، یہ طے نہیں ہوپارہا۔ مقتدرہ بطور ثالث اپنا کردار گنوا بیٹھی تو عدلیہ ”ہم خیالوں“ کے ہاتھوں تفرقے کی نذر ہوئی۔ ایسے میں جب دست نگر و قرض خواہ معیشت ایک بھاری بھرکم ریاست کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے دم ہار بیٹھی ہے تو عمران خان اور اتحادی جماعتوں کے پاس کیا متبادل راہائے عمل ہیں؟ باہم دشنام طرازی سے تو سیاست اور سیاستدانوں کا طبقہ بھنور میں پھنسی پاکستانی ریاست کو اس کے ممکنہ انہدام سے کیسے بچا سکتا ہے؟ ذرا سوچئے ہمارے اپنے پاکستان اور اس کے جفا کش عوام کے لیے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں