113

وفاقی حکومت کو چائلڈ پورنوگرافی کی سزا 14 سال سے 20 سال تک کرنے کی ہدایت

Spread the love

اسلام آباد (بدلو نیوز ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کے مجرم کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو چائلڈ پورنوگرافی کی سزا 14 سال سے 20 سال تک کرنے کی ہدایت کردی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مجرم شہزاد خالق کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی اور نازیبا وڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے پر 5 سال قید اور اسلحہ دکھا کر جان سے مارنے کی دھمکیوں پر 2 سال قید کی سزا بھی برقرار رکھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مجرم کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کرنے کی وجوہات پر مشتمل 24 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چائلڈ پورنو گرافی کے کیسز میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کو فالو کرنے کے لیے گائیڈ لائنز بھی جاری کر دیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پیکا ایکٹ کے تحت چائلڈ پورنوگرافی کی سزا 7سال، پاکستان پینل کوڈ میں 14 سال ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پیکا ایکٹ میں ترمیم کر کے چائلڈ پورنوگرافی کی سزا 14 سال سے 20 سال تک کرنے کی ہدایت کردی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ متاثرہ بچے کو عدالت میں ملزم کے ساتھ پیش نہ کیا جائے اور بیان وڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے اور اگر ویڈیو ثبوت کی فرانزک ایجنسی سے تصدیق ہو جائے تو چائلڈ پورنوگرافی اور جنسی جرائم کے متاثرین کو عدالت بلانے کی ضرورت نہیں۔ تحریری فیصلے میں کہا کہ ٹرائل کورٹس یقینی بنائیں کہ چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز کا ان کیمرا ٹرائل کیا جائے۔ چائلڈ پورنوگرافی کے بین الاقوامی قوانین کے حوالہ جات بھی مجرم کی اپیل خارج کرنے کے تحریری فیصلے میں شامل کی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ پولیس نے تفتیش کے دوران ملزم کے قبضہ سے موبائل فون اور بغیر لائسنس کا پستول برآمد کیا، موبائل فون کی فرانزک رپورٹ نیشنل ریسپانس سنٹر فار سائبر کرائمز ایف آئی اے سے 3 ستمبر 2019 کو حاصل کی گئی۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق موبائل فون سے 22800 تصاویر اور 839 وڈیوز ریکور ہوئیں جبکہ رپورٹ میں سینکڑوں پورن وڈیوز بنانے کی تصدیق ہوئی زیادہ تر وڈیوز میں اپیل کنندہ خود موجود ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فرانزک رپورٹ سے وڈیو کی تصدیق ہو جائے تو تمام متاثرہ افراد کو عدالت سمن کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اس کیس میں پیش ہوئے۔ خیال رہے سزا یافتہ مجرم شہزاد خلاف کو سیشن کورٹ نے 2 ستمبر 2020 کو پاکستان پینل کوڈ کی تین دفعات کے تحت سزائیں سنائی تھیں ، متاثرہ بچے کے والد کی شکائت پر پولیس نے 25 اگست 2019 کو مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں