پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی اہمیت کیا ہے؟ مولانا فضل الرحمان تلے بیٹھے تھے کہ حکومت کو گرانے کے لیے ہلہ بول دیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان کا خیال ہے کہ لانگ مارچ یا دھرنے سے حکومت نہیں جائے گی بلکہ اس کے لیے استعفے دینے چاہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی استعفوں کی تجویز پر مسلم لیگ ن شش و بینچ کا شکار ہو گئی ہے مسلم لیگ ن نے دوبارہ پرانا موقف اپنایا ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتیں استعفے نہیں دیں گی بات نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ ن نے پہلے بھی اسی بات کو جواز بنا کر چھپنے کی کوشش کی تھی۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن کو کہا کہ اگر آپ حکومت کو گرانا نہیں چاہتے تو پھر اس سلسلے کو ختم کر کے کسی اور کو پی ڈی ایم کا صدر بنا دیں۔ نواز شریف مولانا فضل الرحمان کے ساتھ متفق ہیں لیکن ان کی پارٹی میں اس معاملے میں تقسیم ہے۔
استعفوں کے مخالف اور پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اگر استعفوں کی صورت میں حکومت اور الیکشن کمیشن نے ضمنی انتحابات کا اعلان کر دیا تو کیا پی دی ایم کی تمام جماعتیں پھر الیکشن میں حصہ لیں گی؟ استعفوں کی صورت میں اپوزیشن جماعتیں ضمنی الیکش کا بائیکاٹ کریں گی تو یہ پارٹیوں کے لیے مخمصہ ہو گا۔ اور پیپلز پارٹی ایسی صورت میں ضمنی الیکشن میں حصہ لے گی۔ این اے 133 کے حلقہ کے ضمنی انٹاب میں مسلم لیگ ن کو 2018 کے مقابلے میں آدھے ووٹ ملے ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی کو 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ووٹ ملے۔ ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی میں حرکت نظر آئی ہے اور جیالے واپس آ گئے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ 6 دسمبر کو پی ڈی ایم کے اجلاس میں کوئی فیصلہ ہو جائے گا وہ نہیں ہو سکا۔
اب مارچ کی تاریخ تقربیا 4 ماہ آگے چلی گئی ہے۔ اب جو احتجاج کی تیاری کی گئی تھی وہ ملتوی ہو گیا ہے، لانگ مارچ کے نام کی بجائے اب مہنگائی مارچ ہو گا۔ عوام مہنگائی کے حوالے سے حکومتی موقف کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے جب کہ اپوزیشن مہنگائی کے خلاف احتجاج تقربیا 4 مہینے بعد کرے گی۔ تیل، گیس، بجلی سمیت تمام اشیاء کی قمیتیں آسمان پر پہنچ چکی ہیں جب کہ بنیادی اشیائے ضروریہ میں مہنگائی کی شرح 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مہنگائی کے حوالے سے حکومت پر تنقید صرف اجلاسوں اور میڈیا تک محدود ہے۔ جب کہ آئے ملازمین اور مزدور مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اپوزیشن نے کچھ مظاہرے رسمی طور پر کیے تھے۔ جب کہ عوام کے ساتھ عملی طور احتجاج میں شامل ہونے سے گریزاں ہے۔ پی ڈی ایم نے فی الحال صرف تاریخ دی ہے دھرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ عمران خان حکومت مشکل میں ہونے اور بد ترین گورنس کے باوجود چل رہی ہے۔ حکومت کے پاس معمولی اکثریت ہے، پیپلز پارٹی، شہباز شریف اور ان کے ہمنوا ان ہاؤس تبدیلی کے حامی ہیں۔ موجودہ معاشی صورتحال میں ان ہاؤس تبدیلی بھی مشکل ہے اور پی ڈی ایم اتحاد ٹوٹ چکا ہے اگر تمام جماعتیں اتحاد بنا کر حکومت بنا بھی لیتی ہیں تو معاشی بحران سے سے کیسے نبردآزما ہوں گی۔ ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں موجودہ معاشی ناکامیوں کا بوجھ اپوزیشن کے سر پڑ سکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے 16 کھرب روپے کا قرض لیا ہے اور اب حکومتی قرض 40 کھرب تک پہنچ گیا ہے۔ عمران حکومت کی مدت مکمل ہونے تک یہ قرض دوگنا ہو جائے گا۔ ان ہاؤس تبدیلی کے امکانات تب ہوں گے جب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی دوری نظر آئے گی۔ کچھ اطلاعات ہیں کہ عمران خان جنرل باجوہ کو قبل از وقت فارغ کر کے نیا آرمی چیف لا سکتے ہیں، ایسی باتوں پر فوج میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ پی ڈی ایم کی جانب سے23 ماچ کی تاریخ دے دی گئی اب معاملات عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات پر منحصر ہوں گے۔
پروگرام کل سبح 11 بجے بدلو یوٹیوب چینل پر نشر کیا جائے گا
129
پی ڈی ایم ٹائیں ٹائیب فش ہوگیا
Spread the love