330

تم قتل کرو ہو کہ ”کرامات“ کرو ہو؟

Spread the love

انگیخت: امتیاز عالم
لبیک یارسولْ اللہ کے مقدس نعروں کی گونج میں مذہبی جوش میں آئے ایک جنونی لشکر کے ہاتھوں ایک سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کا بہیمانہ قتل اور پھر اسکی لاش کا نذر آتش کیا جانا ”حرمت رسول پاک“ کے لیے ”نذرانہ“ ہے یا اسوہ رسالتْ کی توہین؟ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب ایسے واقعات کوئی انہونی نہیں، تو پھر جانے کیوں اتنی معصومانہ یا پھر غفلت انگیز حیرانگی کا اظہار کس منہ سے کیا جارہا ہے۔ سینکڑوں فرزندان توحید نے ثو اب دارین پانے کے لیے اس ہجوم کے انصاف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ کوئی ایک نہیں سوائے ان کے جو گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی

طرح ”غازی رسالت“ بننے کے خواہاں ہیں۔ خدا خدا کر کے ساری قوم خواب غفلت سے جیسے بلبلا کر جاگ اُٹھی اور تو اور تحریک لبیک پاکستان بھی اس کی مذمت پہ مجبور ہوگئی اور اس نے اس انسان سوز واقع کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ اب کسی مذہبی جماعت کے پوسٹر پہ لبیک یارسولْ اللہ یا کوئی اور مقدس نعرہ لکھا تھا اور اسے اتارنے والا اس پوسٹر کی زبان سے نابلد تھا بھی تو ”توہین رسالت“ کا ناکردہ گناہ تو بنتا ہی ہے، تو پھر ہم جانتے ہی ہیں کہ عدالتہ الغوغا کا جواز علمائے دین کیا پیش کرتے ہیں۔ ذرا توقف کیجئے، معاملہ ٹھنڈا پڑتے ہی اعتراف جرم کرنے والے فرخان ادریس کو کیسے غازی کے خطاب سے نوازا جاتا ہے اور سزا کی صورت میں اس کے مزار پہ حاضری دینے والوں کا کتنا بڑا مجمع لگتا ہے۔ یہ سب ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور آئندہ بھی یہ ایمان افروز مناظر بپا ہوتے رہیں گے۔ پہلے ختم نبوت پہ دہائیوں تک ایک سیاسی کھیل کھیلا جاتا رہا ہے اور احمدیوں کو دوسری آئینی ترمیم میں غیر مسلم قرار دینے کے باوجود قادیانی فتنہ ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ پھر توہین آمیز خاکوں نے مسلم دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں ناموس رسالت پہ مر مٹنے والوں کے جم غفیر کے آگے کوئی ٹھہر نہ پایا، بھلے نشانہ غضب اپنے ہی کلمہ گو اور املاک بنیں۔ مذہبی توہین سے متعلق قوانین کا اجرا تو 1860 میں برطانوی راج میں ہوگیا تھا، بعدازاں 1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیا الحق کے دور میں ان میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں اور توہین کے مقدمات جو

1986 تک صرف 14 تھے بڑھ کر 1500 سے زیادہ ہوگئے۔ 295-C کے تحت وفاقی شرعی عدالت نے توہین رسالت میں عمر قید کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے صرف موت کی سزا برقرار رکھی جس کے بارے میں کوئی اپیل انجام کو نہ پہنچ سکی۔ گوکہ ابھی تک کوئی ایک مقدمہ عدالت میں ثابت نہ ہوسکا، لیکن توہین مذہب کے الزام میں 100 سے زیادہ لوگوں کو سرعام مشتعل ہجوموں نے اپنے تئیں جہنم واصل کردیا۔ دیو بند اور بریلوی علما کی باہم مقابلے کی دوڑ میں اب اجماع یہی ہے کہ توہین کے الزام میں کسی کو کسی پر کوئی شک ہو تو ایسے شخص کو جہنم واصل کرنا ہر عاشق رسول پہ فرض ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ توہین کے قانون کو ذاتی رنجشوں، فرقہ وارانہ عصبتوں، کاوباری مفادات اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور توہین کے قانون کے توہین آمیز الزام پہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاسکی اور اس کے بیجا استعمال میں کوئی قدغن لگائی جاسکی اور نہ کوئی اس کی اجازت دینے کو تیار ہے۔
پاکستان کو انتہا پسند مذہبی فرقہ واریت کا جہنم بنانے میں کوئی ایسا نہیں جو بری الزمہ ہو۔ ہر کسی نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس جواز کے ساتھ کہ پاکستان تو بنایا ہی گیا تھا اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر۔ نتیجتاً آج یہ تجربہ گاہ خوف نا کہ فرقہ وارانہ اور عصبیت پسندانہ دھماکوں سے مسمار ہورہی ہے۔ نظریاتی ریاست کے گھر کو نظریاتی و فرقہ وارانہ عصبیتیں ہی جلانے پہ تلی بیٹھی ہیں۔ اور کونسا ادارہ اور کونسی جماعت نہیں جس نے اس خود

کش کار تباہی میں اپنا اپنا حصہ نہیں ڈالا۔ جب سبھی شریک جرم ہیں تو پاکستان کی قومی ریاست اور انسانیت کے احترام کا استغاثہ کوئی کسی عدالت میں دائر کرے اور کسے مجرم ثابت کرنے کی استدعا کرے۔ خواہ نازی فسطائیت تھی، یا بنیاد پرست مذہبی فسطایئت، ہندتواکے ہاتھوں مسلم کشی ہو یا مسلمانوں کے ہاتھوں دوسری مذہبی اقلیتوں کا قتل عام ہو سبھی فسطائیت کی مختلف صورتیں ہیں جن میں کوئی مذہبی یا نسلیاتی اقلیت مشق ستم بنتی ہے۔ اس پرمستزاد یہ کہ ایک بین الامذہبی اور بین النسلیاتی و نسلی فساد دنیا بھر میں بپا ہے۔ مسلم دہشت گردی، اسلامی فوبیہ اور متصبانہ قوم پرستی کو جلا بخشتی ہے جو مسلم دنیا میں ایک اور بڑا ردعمل پیدا کرتی ہے۔ اور پھر چل سو چل۔ اس کی بدتر صورت ہم جنوبی ایشیا میں دیکھتے ہیں۔ بھارت میں بابری مسجد کا انہدام کیا جاتا ہے تو پاکستان میں مندر گرائے اور گرجے جلائے جاتے ہیں۔ بھارت میں مسلم مخالف قانون شہریت لایا جاتا ہے تو ہندتوا کو تو جلا ملتی ہی ہے، لیکن بنگلہ دیش میں اس کا انتہائی ردعمل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں مندر جلائے جاتے ہیں تو تریپورہ سے گڑگاﺅں تک مسلمانوں پہ آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ آٹھ مسلم دہشت گردوں کے سری لنکا میں چرچوں پہ خود کش حملوں میں 267 عیسائی و دیگر لوگ مارے جاتے ہیں تو سنہالہ بدھ مت کے ماننے والوں کے انتہا پسند گروہ مسلمانوں پہ حملہ آور ہوجاتے ہیں اور راجہ پاکشے کی جماعت مسلم مخالف ایجنڈے کو کامیابی کے لیے استعمال کرتی ہے اور بودوبالیان جیسے فسطائی بدھ گروہ طاقت پکڑ لیتے ہیں۔ ابھی دیکھئے پریانتھا کمارا کے قتل کے خوفناک مناظر جن کی سیلفیاں بنا بنا کر شرپسندوں نے وائرل کیں، سری لنکا میں کیا آگ لگاتی ہیں اور پورے خطے کے عوام کس طرح فرقہ پرستوں اور نسل پرستوں کے فاشزم کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ نفرت انگیزی کی یہ آگ کسی ایک نسلی گروہ یا فرقہ تک محدود نہیں، سبھی کو گھیر لیتی ہے اور عوامی نفسیات فسطایئت کا شکار ہوکر بڑے بڑے فسطائی جغادریوں کو میدان میں اتارتی ہے۔ مڈل کلاس کے ساتھ

ساتھ مفلسی و ناداری کے شکار عوام اس کا لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔اور سیاسی مفادات کی منڈی میں ایک خوفناک رونق لگ جاتی ہے۔
ایک مذہبی بنیاد پر وجود میں آنے والی اسلامی مملکت میں معاشرت و ریاست کی تعمیر جب کٹر مذہبی بنیاد پر ہوگی اور مقابلہ اس پہ لگے گا کہ کون کتنا فتنہ گر ہے تو پھر خیر کی اُمید کس سے لگائی جائے۔ آئین کا حلیہ بگاڑا گیا، قوانین کو خوفناک بنایا گیا، ریاست کی جہادی و شدت پسند نظریاتی کایا پلٹ کی گئی، تعلیم کو مذہبی تعلیم کے نام پر غیر عقلی و غیر سائنسی بنایا جاتا رہا اور معاشرے میں فرقہ وارانہ تفریق بڑھائی جاتی رہی کہ آمرانہ قوتیں اپنا کھیل کھیلتی رہیں تو ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی پر امید کیوں ہوگا۔ سری لنکن منیجر کے قتل، اس سے پہلے چینی کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات اور آئے دن مذہبی جنونیوں کے مطالبات کے آگے ریاست کے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اب مملکت خداداد اپنے ہی مذہبی گورکنوں کے رحم و کرم پر ہے لیکن مورد الزام ہیں تو ”بلڈی لبرلز“ یا روشن خیال ترقی پسند!بچت کی راہ بچی ہے تو صرف یہ کہ ریاست و سیاست کو مذہب سے علیحدہ کردیا جائے اور دنیاوی تعلیم کو دینیات سے۔ یہی بانی پاکستان محمد علی جناح کی آخری منشاءتھی اور یہی ایک قومی ریاست بننے کا تقاضہ ہے۔
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں