312

افغان طالبان کا مخمصہ اور پاکستان کی نیاز مندی

Spread the love

انگیخت : امتیاز عالم
امارات اسلامی طالبان بڑے مخمصے میں ہے۔ جہادی فتح اور مال غنیمہ کا نشہ تو جلد کافور ہوا اور جہاد اختتام کو پہنچا۔ بیس برس تک بڑے دم خم اور گوریا حکمت سے افغانستان پر استعماری غلبے کو شکست دینے کے لیے انہوں نے افغان مزاحمتی روایت کو خوب نبھایا۔ لیکن جونہی امریکی انخلا ہوا تو اس کے ساتھ ہی وہ تمام وافر ذرائع، معیشت و ریاست کا کاروبار، انتظامیہ اور اس سے جڑے تعلیم یافتہ اور پیشہ ور عناصر اور سماجی خدمات کے عالمی ادارے بھی رفوچکر ہوئے۔ جونہی افغان طالبان کابل میں بلا مزاحمت پیدل داخل ہوئے تو سب کچھ تحلیل ہوچکا تھا، رہی سہی کسر معاشرے کے تمام فعال و پیشہ ور عناصر اور ڈالرز کے انخلا نے پوری کردی۔ امارات اسلامی طالبان کی فتح کی بنیاد تو اس امن معاہدے نے رکھ دی تھی جو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں طے پایا تھا۔ لیکن اس معاہدے کے تسلسل میں افغانوں کے مابین جس وسیع البنیاد حکومت نے وجود میں آنا تھا وہ افغانوں کی باہم روایتی

خلفشار کی نذر ہوگئی۔ سابق صدر اشرف غنی کے شرمناک فرار سے میدان کلی طور پر افغان طالبان کے ہاتھ آیا۔ اس کے ساتھ ہی افغان طالبان کے سیاسی، سفارتی صلاح کاروں کو کنارے لگادیا گیا اور مرد میدان جہادی کمانڈر سرعت سے اسلامی امارات پر حاوی ہوگئے۔ اسکی حالیہ مثال کابل اور بلخ کے گورنرز ہیں اور زیادہ تر وزارتی و حکومتی تعیناتیاں ہیں۔ اوپر سے داعش خراسان اور دیگر مستقل جہادی عناصر اور ان کی تنظیمات ہیں جن کے پاس سوائے جہاد کے اور کوئی متبادل نہیں اور وہ اپنی دانست میں افغان طالبان کو سمجھوتہ باز سمجھتے ہیں، جبکہ لبرل اپوزیشن نے راہ فرار اختیار کی ہے یا جو بچے ہیں دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ بعد از جہاد زمانے میں شریعت کے نفاذ کے تقاضے ہیں جو افغانستان کے قبائلی اسلام کی صورت میں نہایت انسانیت سوز ہیں۔ بطور مذہبی تنظیم افغان طالبان کو کوئی تشکیل سمجھ آتی ہے تو وہ فقط ایک امیر یا خلیفہ اور اس کی پسند کی شوریٰ ہے جسے وہ پچھلی اور موجودہ دولت اسلامیہ کے مماثل تصور کرتے ہیں۔ ریاست و مملکت کا علیحدہ تصور ان کے سیاسی نظریہ میں موجود نہیں اور وہ اپنی حکومت کو ہی ریاست کے مترادف سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً وہ ایک وسیع البنیاد حکومت اور جماعتی اثر و رسوخ سے ماورا انتظامیہ و عدلیہ اور کثرتی مقننہ کے تقاضوں اور ضرورتوں کے شعور سے نابلد ہیں۔
اب جب جہاد لڑتے لڑتے طالبان اچانک سے کابل پہ قابض ہوئے تو ریاست اور اس کے تمام لوازمات معیشت و کاروبار اور ماہرین و اہلکار سب کے سب ہوا

ہوئے۔روٹی ہے نہ پانی ہے، دوا ہے نہ دارو ہے، نوکری ہے نہ کاروبار، ریاستی اہلکار ہیں نہ مالیاتی نظام۔ آدھے سے زیادہ افغان بھوکوں مررہے ہیں اور ریاست و معیشت کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ افغان طالبان کو جو افغانستان ملا ہے وہ ان کی سماجی، معاشی اور تاریخی نہج کے عین مطابق ہے۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، بس اللہ کا نام لیں اور اس پر عملدرآمد کریں۔شریعت نافذ کریں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ اس عارضی اور غلیظ دنیاداری سے انہیں کیا لینا آخرت کی تیاری کریں۔ لیکن دنیاوی تقاضے اور روزمرہ کی انسانی ضروریات ہیں کہ منہ پھاڑے کھڑے ہیں جبکہ بیرونی امداد پہ کلی انحصار والی دست نگر و طفیلی افغان مملکت بوند بوند کو ترس رہی ہے۔ عالمی مالیاتی ناکہ بندی کچھ دیر جاری ہی تو دیکھئے قحط زدہ، بے حال، بیروزگار، افغان کیا حشر بپا کرتے ہیں؟ لیکن طالبان حکومت کی ہٹ درمی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور عالمی برادری اپنی شرائط پہ سختی سے قائم ہے۔ اسلام آباد میں امریکہ، چین، روس اور پاکستان کے سفارتی نمائندوں کا جو اجلاس ہوا، اس کے اعلامیہ میں وہی شرائط نمایاں رہیں جس کا اظہار عالمی برادری مسلسل کرتی آئی ہے۔ افغانستان میں وسیع البنیاد شراکتی حکومت، عالمی انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق پر عملدرآمد اور افغان سرزمین کو ممکنہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے عالمی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی جس کا مطالبہ پاکستان، ایران، چین، روس سمیت وسطی ایشیائ کے تمام ممالک کررہے ہیں۔ اس سے ملتے جلتے مطالبات آٹھ ملکوں کے سلامتی کے مشیروں نے دہلی میں منعقد ہونے والے افغانستان پر ڈائیلاگ کے دوران کیے ہیں جس میں زیادہ زور افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے سدباب پہ دیا گیا ہے۔ اس سے قبل طالبان اور بھارت کے مابین بات چیت کا دور قطر میں ہوا تھا اور افغان

طالبان کے ترجمان نے افغانستان پر ہونے والے تمام جگہوں پہ ہونے والے مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔
افغان طالبان کے سامنے دو راستے ہیں: سوائے پاکستان اور قطر کے افغان طالبان حکومت دنیا بھر میں تنہا ہے اور اسے سفارتی قبولیت نہیں مل رہی جس کی کہ اسے اشد ضرورت ہے۔ افغان انتظامیہ کو معیشت کی بحالی، ریاستی انتظام اور بڑھتے ہوئے انسانی المیے سے نپٹنے کی کئے بھاری بیرونی امداد درکار ہے۔ لہٰذا طالبان کے سامنے واحد عملی راستہ یہ ہے کہ وہ جہادی کلچر کے کٹرپن سے باہر نکلے اور عالمی برادری کے تقاضوں اور افغان عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کے عملیت پسندانہ راہ نکالے۔ دنیا کو صرف دو وجوہ سے افغانستان سے غرض ہے کہ افغانستان پھر سے عالمی دہشت گردی کا مرکز نہ بن جائے اور افغان عوام کا انسانی المیہ دسیوں لاکھ افغانوں کو مہاجر بن کر ہجرت پہ مجبور نہ کردے۔ا فغان طالبان حکومت ان دونوں چیلنجوں سے نپٹنے میں عالمی برادری کا ساتھ دیتی ہے تو اس کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ وگرنہ عالمی برادری کسی بڑے فتنے کو کیوں مضبوط کرے گی اور وہ طالبان کے زوال کا انتظار کرے گی۔ پاکستان کا بازو مروڑنے کے لیے ان کے پاس تحریک طالبان پاکستان موجود ہے اور اب پاکستان میں مزید لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کی سکت بھی نہیں رہی۔ نہ ہی پاکستان کے پاس اتنی زائد پیداوار خوراک اور سرمایہ ہے کہ افغانوں کا پیٹ

بھرسکے۔ تحریک طالبان افغانستان نے جس طرح تحریک طالبان پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور اب وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کے ضامن بن بیٹھے ہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے واحد سرپرست کے ساتھ ایسا شاطرانہ اور گھناﺅنا کھیل کھیل سکتے ہیں تو وہ افغانستان میں موجود بیرونی دہشت گردوں کے حوالے سے ایران، وسطی ایشیا، چین اور روس کے ساتھ کیا کھیل ہے جو نہیں کھیل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے کے تمام ممالک بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور امریکہ و یورپ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ مہینوں میں داعش اور القاعدہ پھر سے عالمی دہشت گردی کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ عالمی تنہائی اور داخلی بحران سے نکلنے کے لیے طالبان کو وہ سب کچھ بدلنا اور کرنا پڑے گا جس کا تقاضہ عالمی برادری کررہی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور دیگر جہادی گروپوں سے ان کی جہادی یکجہتی نظریاتی طور پر مضبوط رہتی ہے اور وہ اپنی موجودہ روش برقرار رکھتے ہیں تو پھر وہ خود کو اور افغانستان کو ایک اور بدترین ابتلا میں مبتلا کرلیں گے۔ افغانستان کے اس ابھرتے تضاد اور بحران کا سب سے بدترین اثر پاکستان پر ہونے جارہا ہے لیکن پاکستانی انتظامیہ افغان طالبان کے سامنے ہی نہیں بچھی جارہی، بلکہ ٹی ٹی پی کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہورہی ہے کہ اگر انہیں قبول نہیں کیا جاتا تو سرحد پار سے خود کش حملوں کے لیے تیار رہو۔ پاکستانی طالبان نے افغان طالبان کے امیر کی بیعت کی ہوئی ہے تو وہ اسلامی امارات افغانستان ہی کا حصہ ہیں اور ان کی ذمہ دار طالبان حکومت ہے۔کہیں یہ تو نہیں ہونے جارہا کہ افغان طالبان اپنے ساتھ پاکستان کو بھی لے ڈوبیں گے یا پھر ٹی ٹی پی سے صلح کر کے پاکستان کو بھی اسلامی امارات بنانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں