225

زمینی تپش : انسان و قدرت کی نامیاتی شراکت داری

Spread the love

انگیخت: امتیاز عالم
گلاسگو میں COP26 کانفرنس میں آب و ہوا کی کثافت اور زمینی تپش کو روکنے کے لیے عالمی سوچ بچار ہورہا ہے ۔لیکن کثافت اور تپش پھیلانے والے بڑے عامل کوئلہ، گیس اور پٹرول (حیاتیاتی ایندھن) کے استعمال کو 2030 تک آدھا کرنے اور 2050 تک زمینی تپش کو قبل از صنعتی انقلاب کے درجہ حرارت سے 1.5 سیلسیس تک محدود رکھنے یا کاربن کے زیرو اخراج کا ہدف حاصل کرنے کے لیے خالی خولی دعوے تو کیے جارہے ہیں لیکن ٹھوس اقدامات کو ایک دوسرے کے گلے منڈھنے پہ اکتفا کیا جارہا ہے۔ جبکہ کانفرنس سے باہر ”ماحولیاتی پرولتاریہ“ اور نوجوان نسل کرہ ارض، ماحولیات اور انسان کی بقا کے لیے ایکو اشتراکیت اور انسانی و ارضی سانجھے داری کا تقاضہ کررہی ہے۔ ماحول اب نہیں تو کبھی نہیں کا بنتا نظر آرہا ہے۔ ماحولیاتی

تباہی کا قرض تو جدید صنعتی بڑے سرمایہ دارانہ ملکوں کے سر ہے۔ جس میں امریکہ، یورپ اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔ اب گروپ 20 ممالک ہیں جو 80 فیصد آلودگی اور زمینی تپش کے ذمہ دار ہیں۔ حال ہی میں ترقی یافتہ ہونے والے ممالک جن میں چین، انڈیا، روس اور جنوبی افریقہ شامل ہیں اپنے پیش رو صنعتی ممالک کی تباہ کن روش پہ چلنے پہ بضد ہیں۔ امریکہ نے 2030 تک کاربن کے پھیلاﺅ اور حیاتیاتی ایندھن کے استعمال کو آدھا کرنے کا وعدہ تو کیا ہے، لیکن کانگرس میں صدر بائیڈن کا منصوبہ خطرے میں ہے۔ یورپ ایندھن کی کمی کی لپیٹ میں ہے اور مزید گیس کا طلبگار ہے۔ چین نے وعدہ کیا ہے کہ 2030 تک کاربن کا اخراج کم ہوتا جائے گا لیکن ختم 2060 میں ہوگا۔ بھارت نے اپنی ”ترقی“ کو فوقیت دیتے ہوئے کوئلے کے استعمال کو جاری رکھنے پہ اصرار کرتے ہوئے 2070 کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ رہے 20 فیصد پسماندہ اور غریب ممالک جنہیں اس ماحولیاتی تبدیلی کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے کی اشک شوئی کے لیے 100 ارب ڈالرز سالانہ دینے کا جو وعدہ 1999 میں کیا گیا تھا اس کے وفا ہونے کے لیے 2023 کی تاریخ دے دی

گئی ہے۔ لگتا ہے کہ پیرس سمٹ (2015) کے بعد یہ 26ویں کانفرنس بھی خالی خولی وعدوں سے آگے نہ جاسکے گی۔
آخر یہ ماحولیاتی تباہی یا ایکو بریک ڈاﺅن ہے کیا؟ ویسے تو کرہ ارض 4.5 ارب سال پہلے طویل تر ارتقائی عمل سے وجود میں آیا تھا اور اس کے ترکیبی عناصر، مادہ، توانائی، ایٹمز، مالیکیولز، طبیعات اور کیمیا 13.5 ارب سال پہلے ہی سے ترتیب پارہی تھی۔ حضرت انسان اپنی ھومو اوتار میں 25 لاکھ پہلے منظر پہ آئے اور کہیں جاکر اشرف المخلوقات ہومو سیپین (Homo Sapiens) صرف دو لاکھ برس ہوئے مشرقی افریقہ میں نمودار ہوئے۔ لیکن ماہرین ارضیات کے مطابق برفانی ادوار کے خاتمے پر قدرے معتدل ماحول کا دور ہولوسین (Holocen) تقریباً 11,700 سال پہلے شروع ہوا۔ پتھر، دھات اور لوہے کے پیداواری ادوار آئے، زراعت و تجارت کو فروغ ملا اور تہذیبیں وجود میں آنے لگیں۔ درمیان میں 4200 سال پہلے 200 برس کی قحط سالی سے ایسی ماحولیاتی اور تہذیبی تباہی آئی کہ مصر، یونان، شام، فلسطین، میسوپوٹیمیا، وادی سندھ اور دریائے یانگزے کی وادی کی تہذیبیں تباہ ہوگئیں یا پھر بڑا انسانی انخلا ہوا۔ 500 برس پہلے سائنسی و علمی آگہی پھیلی اور صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا جو گزشتہ 200 برس میں سرمایہ دارانہ اور نوآبادیاتی صورتوں میں کرہ ارض پہ چھا گیا۔ یورپین اور امریکی سرمایہ داروں اور نو آبادکاروں نے جہاں محنت کشوں کے جم غفیر کے استحصال سے

حاصل شدہ قدر زائد سے اور نوآبادیات کے معدنیاتی، زرعی، ایندھن اور خام مال کے ذرائع کی بدترین لوٹ سے عالمی سامراجی نظام تشکیل دیا وہاں کرہ ارض اور اس کے ماحولیاتی توازن اور ایکو سسٹم کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ۔ گزشتہ ڈیرھ سو برس میں سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظام سے خلاصی کے لیے محنت کشوں اور مظلوم قوموں کی سماجی و قومی آزادی کے لیے دنیا بھر میں طبقاتی و قومی جنگیںہوئیں اور بیسویں صدی میں سوشلزم اور عالمی سرمایہ داری میں معرکہ آرائی رہی۔ اب سائنسدان ایک نئے ارضیاتی عہد کی نشاندہی کررہے ہیں جس کا نکتہ آغاز ماہرین 1950 سے بیان کررہے ہیں۔ اسے ایتھنوپوسین (Athenopecene ) زمانے کا نام دیا جارہا ہے۔ ماہرین ارضیاتی و ماحولیاتی اور سماجی و معاشی اعتبار سے اسے ایک ایسا ارضیاتی دور قرار دے رہے ہیں جس میں انسان نے کرہ ارض، ایکو سسٹمز اور ماحولیات اور انسان کے باہم نامیاتی توازن کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ قدرت کے ساتھ انسان کی جنگ میں بالآخر قدرت ہار رہی ہے جس کے نتیجہ میں پورا حیاتیاتی، نباتاتی، کیمیائی، طبیعاتی، ماحولیاتی، آبی و ہوائی نظام ہائے کرہ ارض اس بری طرح سے تلپٹ ہوا جارہا ہے کہ کرہ ارض بچے گا نہ اس پر بسنے والی آب و حیات۔
اس ارضیاتی ایتھنوپوسین دور میں عالمی اجارہ دارانہ سرمایہ دارانہ بالا دستی کے جلو میں ہم دنیا بھر میں قحط سالی، طوفان، سونامی، جنگل کی آگ، سمندری سطح میں بلندی، جنگلات کی تلفی، حیاتیاتی تنوع میں کمی اور سماجی و طبقاتی تفریق میں گوناگوں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ مصنوعی کیمیائی عاملوں، ایٹمی تابکاری، پلاسٹکس، پیٹروکیمیکلز صنعتکاری ، کھادیں اور حیاتیاتی ایندھن (کوئلہ، گیس اور پٹرول) کے استعمال میں بے پناہ اضافے سے

انسان اور زمین میں تعلق برباد ہوچلا ہے۔ 200 سے زائد نیوکلیئر ٹیسٹ صرف امریکہ نے کیے ہیں اور درجن بھر ملک اس دوڑ میں شامل ہیں۔ دنیا میں ایک نیوکلیئر جنگ سے ایسی نیوکلیئر سردی ہوگی کہ نباتات و حیاتیات کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ اوپر سے ایندھن کا سرمایہ ہے جو پلاسٹکس کے ناقابل تحلیل پھیلاﺅ کے ساتھ ساتھ اس کیمیائی آلودگی سے خوراک،ماحولیات اور آب و ہوا زہریلی ہوچلی ہے۔ حیاتیاتی ایندھن کے بڑھتے ہوئے استعمال سے فضا میں کاربن 2021 میں 420 ہوچکا ہے اور یہ 450PPM ہونے جارہا ہے جو کاربن کی آخری حد ہے۔ زمینی تپش میں بنیادی کردار زمینی ایندھن کا بے جا استعمال ہے جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین و دیگر گرین گیسیں پیدا ہوتی ہیں جس سے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اب تک ترقی یافتہ ممالک نے کاربن کی پیداوار کو کم کرنے کے جو وعدے کیے ہیں ان کے پیش نظر ماہرین کی رائے ہے کہ 2100 تک درجہ حرارت 2.7 سیلسیس تک پہنچ جائے گا جو زندگی کے لیے موت کا سامان ہوگا۔ اس ماحولیاتی کثافت کے باعث سورج کی تابکاری سے بچاﺅ کا جو اوزون گیس کا آسمان ہمیں میسر ہے وہ تحلیل ہوتا جارہا ہے اور اس کے ذمہ دار وہ بھی ہیں جو ایئر کنڈیشننگ کے بہت شوقین ہیں۔ اوپر سے انسانی آبادی ہے کہ کرہ ارض کی استطاعت سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے اور بڑھتی چلی جارہی ہے۔
انسان اور کرہ ارض کا مستقبل عالمی اجارہ دار صنعتی و مالیاتی کارپوریشنز اور ان کے محافظ سرمایہ دارانہ ممالک کے ہاتھوں میں یلغمار ہے۔حیاتیاتی ایندھن کا استعمال ترک نہ کرنے، درجہ حرارت 1.5 سیلسیس سے تجاوز، زہریلی گیسوں، کاربن، کیمیاﺅں،مصنوعی خوراک، پلاسٹکس اور ہر طرح کی تابکاری سرمایہ داری سے جڑی ہے اور اس کا سرمایہ ہے۔ اس نفع خور استحصالی اور انسان و ارض دشمن نظام کے ہوتے ہوئے انسان کی خیر ہے نہ کرہ ارض کی۔ انسان اور قدرت میں جو نامیاتی تعلق تھا وہ لوٹ مار کے مفاد میں توڑ دیا گیا ہے۔ اب انسان کے سامنے کوئی اور راستہ نہیں کہ وہ زندگی اور زمین کو بچانے اور قدرت سے اپنا نامیاتی رشتہ بحال کرنے کے لیے میدان میں اُترے۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کے عوام جب تک انسانی و قدرتی شراکت داری (Echo Socialism) کے لیے علم بلند نہیں کریں گے انسان اور کرہ ارض کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔ انسانوں اور قدرت کی قیمت پر چند لوگوں کے لیے پرتعیش زندگی نہیں ۔ انسان اور قدرت کے مابین آسودہ اور نامیاتی شراکت داری چاہیے۔ اُٹھو اور بچالو!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں