کیا سنائیں، کیا نہ سنائیں؟ کسے سنائیں؟ سبھی تو اختیار واقتدار کی جنگ میں اوسان خطا کر بیٹھے ہیں۔ ہے کسی کو یہ فکر کہ ان کی محلاتی سازشوں اور اداراتی تنگرم بازیوں کے ہاتھوں ملک کسی پاتال میں گرتا جارہا ہے۔ ایک ایسا مضحکہ خیز اور الہیاتی سیریل ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ بس نام وصورتیں اور تاریخیں بدل گئی ہیں، احوال و اعمال وہی ہیں۔ ریاست کی دم ویسے ہی ٹیڑھی ہے جیسے پہلے گورنر جنرل کے وقت تھی جو اسے سدھارنے سے پہلے سدھار گئے ۔ کسی کو یاد ہے کہ ایک کو رونا آیا تھا اور بعد ازاں تاریخ کا بدترین سیلاب اور اسکی نہ ختم ہونے والی تباہ کاریاں۔ کسی کو یہ بھی خیال ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد اضافے اور عام آدمی کی قوت خرید کے 40 فیصد سے زیادہ کم ہونے سے پاکستان کے عوام کی بہت بھاری اکثریت نان و نفقہ کو ترس کر رہ گئی ہے۔ آٹے کی ایک مفت بوری سے آپ بھوک تو ختم کر نہیں سکتے ، البتہ پوری قوم کو بھکاری ضرور بنا سکتے ہیں۔ اشرافیہ اور حکومتوں کی دریادلی کتنی منافقانہ اور سفا کا نہ ہے اور وہ بھی ٹیکس دینے والوں کی رقم سے۔ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کے بعد اب ملک اداراتی انہدام کی جانب چل نکلا ہے۔ لیکن کسی اصول، آئینی وقانونی شفافیت اور اداراتی تکون کی حد بندیوں کے احترام میں نہیں۔ صرف پاور کیلئے ، خواہ وہ شخصی ہو یا گروہی یا داراتی ۔ اور اس کی کوئی حد نہیں۔ جب پاور سٹرکچر کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ پاکستان مختلف اداراتی جاگیروں (Fiefdoms) اور مافیاز کی کنفیڈریشن ہے جس میں ہر عصر اپنے مفاد میں خود مختار ہی نہیں بلکہ دوسرے کی حدود میں تجاوزات پہ تلا بیٹھا ہے۔ چارٹر آف ڈیما کریسی کے تھوڑے بہت اثر کے تحت جیسے کیسے لڑکھڑاتا ہوا جمہوری عمل چلتا رہا اور آئینی و عدالتی تجاوزات سے ٹھوکریں کھاتا رہا۔ لیکن گورنر جنرل کی وائسرائی نو آبادیاتی روایت میں عوام کے اقتدار اعلی کی گنجائش بس اتنی ہی ہے کہ وہ کبھی مقتدر نہ ہوسکیں۔ لہذا براہ راست کرم خوردہ مارشل لائی نسخے کی جگہ ایک ہائبرڈ نظام کی داغ بیل ڈالی گئی جس کے لیے ایک پاپولر خو بر وقومی ہیرو اور سلیبر ٹی (Celebrity) کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا کر اقتدار کی مصنوعی مسند پر بٹھا دیا گیا۔ جس کی باگ ڈور پولیٹیکل انجینئر ز کے ہاتھ رہی ۔ پاکستان کے وجیہ ترین ہیرو کی جمالیاتی و مردانہ وجاہت اور اس کی پرستش تو برقرار رہی لیکن اس کے پاس ایک مغلظاتی ابلاغ اور مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کے سوا کچھ نہ تھا اور گورنس کے لیے وقت میسر نہ آیا۔ پھر پولیٹیکل انجینئر ز کی بھی بس ہوگئی اور ایک صفحہ کا ورد با ابھی بھی کی نذر ہو گیا۔ جو نہی ہائبرڈ نظام زمین بوس ہوا تو سارا پاورسٹر کھر ایسا تتر بتر ہوا کہ ہائبرڈ نظام دوم کی تشکیل تک ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ۔ جو خلا پیدا ہوا اور آئینی ڈھانچے کے کل پرزے ڈھیلے پڑے تو یونیٹی آف کمانڈ بیرکوں تک محدود ہو کر رہ گئی ، جس کے باعث ہر کوئی خلاء کو پر کرنے کی تگ و دو میں
کپڑوں سے باہر ہو گیا۔ اوپر سے زخم خوردہ پرنس محلاتی سازش میں دھڑام سے کیا گرا کہ ہمدردی کی ایسی لہر اٹھی جو مانند پڑنے کو نہیں۔ وہ مڈل کلاس جو پاکستان کے کھیدی بیا یے کی مبلغ تھی جو پیشہ سیاست سے نفرت اور پیشہ حرب سے محبت سے عبارت تھا، اسے ایک نجات دہندہ مل گیا اور سیاست گئی بھاڑ میں۔ اب ہر طرف مخالفات کی بھر مار ہے اور سب اپنے اپنے مفاد میں آئین و جمہوریت کی قسمیں اٹھا کر اس کی تدفین میں سبقت لینے کے لیے ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں جو خلا پیدا ہوا اس میں مقتدرہ کے تین حصوں، پاک فوج ، عدلیہ اور سول سروس نے اپنی اپنی راہ لی۔ جمہوری طور پر معزول ہیرو نے ایسی دل اندروز سینہ کوبی کی کہ ہر ادارہ، ہر شعبہ اور ہر کمیونٹی تقسیم ہوکرہ گئیں۔ پاک فوج کی سیاست سے لا تعلقی کیا ہوئی کہ سیاسی مناقشے کے حل کے لیے اتری بھی تو وہ عدلیہ جس کی آمریتوں سے شرمناک سمجھوتوں اور سیاستدانوں اور منتخب اداروں سے مخاصموں کی تاریخ نا قابل رشک رہی، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اس بار یہ متحارب چاہتوں اور اناؤں کا شکار ہوکر بری طرح سے تقسیم ہوگئی۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے بدقسمت مقدر میں ہمیں جو تحفے چیف جسٹر افتخار چوہدری، ثاقب نثار اور نگزار احمد کی صورت ملے اور جس دیدہ دلیری سے مفاد عامہ کے نام پر دو منتخب حکومتوں کا جنازہ نکالا گیا اور آرٹیکل (3)184 کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اس سے عدلیہ میں بھی ون مین رول قائم ہو گیا۔ اوپر سے اٹھارویں ترمیم میں دیئے گئے بچوں کی تعیناتی کے متوازن پیمانوں کو افتخار چوہدری نے پارلیمنٹ کو انیسویں ترمیم لانے پر مجبور کر دیا اور عدلیہ مادر پدر آزاد ہو گئی۔ پھر کیا تھا پوسٹ پی سی او جوڈ یٹری اقربا پروری کی نذر ہو گئی۔ جو سنیارٹی کا اصول حجز کیس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے طے کیا تھا وہ اُٹھا کر کوڑے میں پھینک دیا گیا۔ یوں چیف جسٹس اپنی طرز کا چیف آف سٹاف بن کر براجمان ہو گیا۔ بھلا مانگے تانگے کی شہباز حکومت چیف جسٹس کی چوں کے چناؤ میں پسندیدگی سے کیسے منہ موڑ سکتی تھی اور اس کے وزیر قانون کو سنیارٹی کے اصول پر قلا بازی کھانی پڑی تو اس گناہ کی سزا ملی بھی تو 8 رکنی بینچ نے پارلیمنٹ کے سپریم کورٹ کے ضوابط سے متعلق مسودہ قانون کو تولید ہونے سے قبل ہی اس کا رتم مادر ( پارلیمنٹ ) میں ہی اسقاط کر دیا۔ اب عدلیہ کی اکثریت چیف جسٹس کی قیادت میں ایک ایسی انتظامیہ سے برسر پیکار ہے جسے پارلیمنٹ کی خود مختاری میں پناہ لینی پڑی۔ سویلین اداروں میں جنگ کا سماں ہے۔ اوپر سے منقسم وکلا کی فوج ظفر موج ہے جو آئین کی مختلف شقوں کی ایسی گولہ باری میں مصروف ہے کہ حیرت زدہ عوام کو کچھ مجھ میں نہیں آرہا کہ کون آئین کے کس طرف کھڑا ہے۔ اصل مسئلہ چیف جسٹس کی بلا شرکت بردار حج صاحبان اجارہ داری اور حکومت کی پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیوں کے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد سے راہ فرار ہے۔ بجائے اسکے کے عدالت عظمی سیاسی ٹکراؤ سے نکلنے کا کوئی مناسب اور قابل قبول رستہ نکالتی یہ اب سیاسی جنگ کا محور بن گئی ہے۔ اب چیف جسٹس منقسم عدالت اور وزیرا عظم دم کئی پارلیمنٹ کے سرپہ رستہ
ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں کوئی فریق آلودہ ہوئے بنا نہیں رہ پائے گا۔ معاملہ تو صرف انتخابات کے وقت پر اتفاق رائے کا تھا جو فریقین کی سیاست کی نذر ہو گیا۔ سپریم کورٹ اگر انتظامیہ و پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو نتیجہ فساد کے سوا کیا نکلے گا؟ سویلین بالشیوں کے ہاتھ سیاست وانصاف کی باگ ڈور کیا آئی کہ پورے کا پورا سویلین ڈھانچہ زمین بوس ہوا چاہتا ہے۔ شاید ڈراپ سین زیادہ دور نہیں بس پانی سر سے
گزرنے کا انتظار ہے۔ ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناؤں !

کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں؟ انگیخت : امتیاز عالم
Spread the love