261

کس سے منصفی چاہیں؟ انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

تم منصف و عادل ہی سہی شہر میں لیکن
کیوں خون کے چھینٹے سر دستار بہت ہیں
اس نگری کے احوال بھی کیا نرالے ہیں؟ بھلا نہایت متنازعہ سیاسی اوکھلی میں عدالت عظمی کو سر دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ ابھی معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں ہی تھا، جب سات رکنی بنچ کے چار اراکین نے سوموٹو اختیار کے استعمال ہی کو بے محل قرار دے دیا تو چیف جسٹس کو بیچ میں کود پڑنے کی مصیبت سرلینے کی کیا پڑی تھی۔ اب جتنا معزز عظمی پاؤں پھیلاتی جاتی ہے، اتناہی بیچ کی عددی طاقت ملتی جاتی ہے اور آخر میں 7 کی بجائے صرف تین پیارے آئینی ترازو کا بوجھ اٹھائے نظر آتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ پر حملے ہوتے تو دیکھے تھے اور چیف جسٹس افتخار چوہدری، ثاقب نظار اور گلزار کی سوموٹو اختیار کے ہاتھوں انتظامیہ اور مقانہ کے پر نچے اڑتے ہوئے بھی بہت دیکھے، لیکن مہذب حدود میں رہتے ہوئے بھی معزز جج صاحبان کی خانہ جنگی نے سیاسی معاملات میں محترمہ عظمی کے شوق دلبری کو شرمسار کر کے رکھ دیا ہے۔ سیاست کوئی آسان کھیل نہیں اور ہمارے ہاں کھیلنے والے کسی مہذب جمہوری ضابطے کے پابند بھی نہیں، تو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس نے تو مسلا جانا ہی ہے۔ پاکستان کی ریاست وسیاست میں میزان تو ہمیشہ ہی سے فولادی ڈھانچے کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب جو اسے سیاست سے مبینہ طور پر ہاتھ کھینچا ہے تو خلا کو پر کرنے کی عدالت ہائے عالیہ عظمی کی کوششیں سیاست کے طوفان کو آئینی کوزے میں بند کریں تو کیسے۔ اسے ہی کہتے ہیں بیچ ۔ 22 بچوایشن ۔ اب عدلیہ کے چیف کے پاس کوئی ٹرپل بریگیڈ تو ہے نہیں جو وہ فریقین میں مصالحت کننده (Arbitrato) کا کردار بزور طاقت ادا کر سکتی۔ اوپر سے جموں میں متضاد احکامات کی جو گولہ باری ہوئی ، اس میں کسی کا ذوق منصفی نہیں بچا۔ مگر جانے کیوں چیف جسٹس اپنے پیش روؤں کی مداخلت بے جا کی برقی راہ پر چل نکلے۔ بہتر ہوتا کہ سیاست کے گناہوں کا بوجھ تمام حج مل کر اُٹھا لیتے تو بھاری پتھر اٹھانا آسان رہتا۔ اسی طرح یہ اور بھی بہتر ہوتا کہ عدلیہ کے ضوابط کار فل کورٹ میٹنگ میں بہت پہلے ملے کر لئے جاتے تو پارلیمنٹ کو مصلحت کے تحت سرعت سے قانون سازی نہ کرنی پڑتی۔ عدلیہ کا اندرونی بحران اتنا بڑھا کہ ایک بے چیندے کی حکومت جو جوں کا انتخاب ہو یا پھر اٹارنی جنرل کی تعیناتی چیف کی ناگواری کا بوجھ نہ اٹھا سکنے پر قلابازیاں کھاتی رہ گئی ، وہ اب تگڑی ہو کر عدالت عظمیٰ ہی کے تین پیاروں کے ممکنہ فیصلے کے ناقابل عمل ہونے کی بڑھکیں لگارہی ہے۔ عمران خان نے دو صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کے ایسے چھکے لگائے کہ آئین کو اپنی ایک شق کی قسم نبھانے کے لیے 90 روز میں ان اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام انتظامی اداروں کی مزاحمت اور عدم تعاون کا سامنا ہے۔ اب بھلا بیچارا مقہور الیکشن کمیشن سوائے انتخابی شیڈول کے اعلان کے کیا کرتا جو کہ اس کا فریضہ تھا۔ لیکن نہ جیب میں دھیلا ، نہ افرادی قوت اور نہ سلامتی کا اہتمام ۔ تو لا چار مرنا نہ تو کیا کرتا، اس کے سامنے اپنے ہی شیڈول کو ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارا نہ رہا۔ بس پھر کیا تھا، ایک آئینی ادارے کو دوسرے آئینی ادارے کے سامنے ملزموں کے کٹھہرے میں سر جھکا کر کھڑا ہونا پڑا۔ دیکھا جائے تو مسئلے کا ماخذ بھی پیاروں کا بینچ ہی تھا جس نے آئین کی ایک شق کو دوبارہ لکھ کر پنجاب میں حکومتوں کی اُلٹ پلٹ کر دی۔ اب عمران خان کو نہ چوہدری پرویز الہی کی حکومت کے شاندار کارناموں کی ضرورت تھی اور نہ پختو نخوا کے مسکین وزیراعلیٰ کی بے ضرر انتظامیہ کا کوئی لحاظ تھا۔ لہذا ان دو وزرائے اعلیٰ کے گلوں پر انگوٹھا رکھ کے خان صاحب نے دو اسمبلیاں تڑوادیں۔ انہوں نے نہ صرف اتحادی حکومت کو بوکھلا دیا بلکہ آئین کی پوری روایتی انتخابی سکیم کو ہی اُلٹ پلٹ دیا۔ عمران خان اپنے تئیں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبائی انتخابات جیت کر عام انتخابات میں اُترے بنا اپنی کامیابی کے جھنڈے لہرانا چاہتے تھے۔ جبکہ مہنگائی و معاشی کنگالی کے بوجھ تلے دبی حکومت کی اتحادی جماعتیں قبل از وقت انتخابات میں عمران خان کے وقت پر اترنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھیں۔ اور اس سارے سیاسی کھیل کا خطر ناک ترین پہلو یہ تھا کہ دو قسطوں میں ہونے والے انتخابات کے بطن سے جو سیاسی فساد بپا ہونا تھا، اسے آئین کی لفظی تشریح کرنے والے ماننے کو تیار نہیں۔ عمران خان کے لیے تو فتح کی اُمید کے باوجود یہ دو صوبائی انتخابات ہونے سے پہلے ہی مشکوک ہو گئے ہیں۔ وہ نہ عبوری حکومت اور نہ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری تسلیم کرتے ہیں اور نہ اپنی مخالف وفاقی حکومت سے خیر کی امید رکھتے ہیں۔ دوسری جانب اتحادی جماعتیں ایسے عام انتخابات کے نتائج ماننے کو تیار نہ ہوں گی جو دو بڑے صوبوں میں سیاسی حکومتوں کے ہوتے ہوئے ہوں گے۔ اب اسی انتخابی الجھن کو حل کرے تو کوئی کیسے؟ کم از کم عدلیہ کے پاس سیاسی شطر نج میں فریقین کی چالبازیوں کو متوازن کرنے کا کوئی پلڑا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ مزید ہرزہ سرائی سے بچنے کے لیے عدالت عظمی کا فل بینچ بیٹھے اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام کے بنیادی حق رائے دہی کے استعمال کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے پوری آئینی سکیم کو بھی دیکھنا ہو گا اور انتخابات کے بطن سے ایک منتخب حکومت کی جگہ ایک نہ سنبھالے جانے والی سونامی کا بھی سد باب کرنا ہوگا۔ لیکن یہ کام عدلیہ کا نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا ہے۔ اور سیاستدان ایسے لڑ رہے ہیں جیسے ان کے پاؤں تلے سے آئین کی سرزمین کبھی نہیں پھیلے گی۔ وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ سیاستدانوں کی باہمی محاذ آرائیوں میں غیر سیاسی قوتوں کو نہ صرف مداخلت کا موقع ملا بلکہ انہوں نے طویل عرصوں تک آمریت کے اپنی شکنجے کس دیئے۔ ابھی بھی معاملات سیاستدانوں کے ہاتھوں سے تیزی سے نکل رہے ہیں۔ آئے روز بحران بڑھتا اور لاشخیل ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی بحران تو تھا ہی، معاشی بحران سے جلد نکلنے کی سبیل بھی نظر نہیں آرہی اور اوپر سے عدلیہ بھی بحران اور آئین گرداب میں پھنسا چلا جارہا ہے۔ منقسم وکلا کی فوج ظفر موج ہے اور انکی نہ ختم ہونے والی قانونی موشگافیاں جن کا سیاسی بحران کے حل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ایسے میں آئین پرست اور جمہوریت پسند کریں تو کیا۔ سیاسی تقسیم اتنی خوفناک اور بے لحاظ ہے کہ کوئی کسی کو عقل کے ناخن لینے کی بات بھی کرے تو اپنی عزت داؤ پہ لگا کر ۔ ایسے میں مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان یاد آ رہے ہیں جو ہر سیاسی بحران میں سیاسی مکالمے کی راہ نکالنے کے لیے بے چین ہوتے تھے ۔ کاش ایسے زعما ہوتے جو متحارب سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ بٹھا کر سیاسی بحران کا کوئی قابل عمل جمہوری حل نکال پاتے ۔اب سول سوسائٹی کے دہائیوں تک جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کے لیے جدو جہد کرنے والوں نے میڈی ایٹرز کے نام سے ایک مصالحتی گروپ تشکیل دیا ہے جو سیاستدانوں کی منت زاری کر رہا ہے کہ باہم بیٹھ کر انتخابات کے حوالے سے تمام معاملات کا متفقہ جمہوری حل نکالیں۔
اس کی جگہ اے پی سی بھی ہو سکتی ہے اور پارلیمنٹ بھی۔ لیکن بیچاری سول سوسائٹی تو عرضداشت ہی پیش کر سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں