47

سیاسی نابالیدگی کا ایک اور خطرناک موڑ انگیخت : امتیاز عالم

Spread the love

سیاسی نابالیدگی کا ایک اور خطرناک موڑ
انگیخت : امتیاز عالم
جانے پھر آئینی وسیاسی بریک ڈاؤن ہو جائے۔ آگ ہے ہر سو برابر لگی ہوئی۔ سیاستدانوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے اور وہ سر پٹ ایسے تصادم کی جانب تیزی سے رواں ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی ۔ منحنی سی سول سوسائٹی نے سیاستدانوں میں افہام و تفہیم کے لیے ایک چھوٹا سا ڈول ڈالا کہ ماحول کی تیرگی کم ہو اور سیاستدانوں میں نامہ و پیام کا آغاز ہو۔ خوفناک سیاسی تقسیم کے ماحول میں یہ پبلک ڈپلومیسی تلوار کی تیز دھار پہ چلنے کے مترادف تھی۔ پہلے تو مختلف الخیال دانشمندوں کو اُلجھی ہوئی سیاسی گانٹھوں کو اپنے دانتوں سے کھولنے کی دعوت دینا کارمحال سے کم نہیں، اوپر سے ماحول کی بے ثباتی اور فکری کثافت۔ خیر دہائیوں سے آزمودہ کار جمہوری و انسانی حقوق کے داعی جمع ہوئے اور انہوں نے ایک غیر رسمی گروپ دی میڈی ایٹرز (MediatorsThe) کے نام سے تشکیل کرتے ہوئے سیاستدانوں کے نام یک نکاتی اپیل جاری کردی کہ رہنمایان کرام آزادانه و منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک کل جماعتی کا نفرنس میں شریک ہوں۔ ہر دو متحارب فریقین میں جو معاملہ سب سے زیادہ وجہ نزاع تھا ( اور ہے ) کہ عمران خان ہر حالت میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کے اندر کروانے پر بضد تھے جو کہ ایک آئینی تقاضہ بھی ہے۔ جبکہ ن لیگ اور اسکی اتحادی حکومت مصر ہے کہ تمام انتخابات ایک ہی تاریخ پر اکتوبر میں منعقد کیے جائیں۔ ایک طرف عمران خان کو تشویش لاحق ہے کہ اگر انتخابات میں تاخیر کی گئی تو اس اثنا میں انہیں انتخابی عمل سے باہر کیا جاسکتا اور ایک قاتلانہ حملے کے بعد انہیں یقین ہے کہ انہیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت سرتوڑ کوشش میں ہے کہ عمران خان کو دسیوں مقدمات میں پھنسادیا جائے اور انکے ورکرز پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے۔ اب پھر انسانی حقوق کی پامالی کا شور ہے اور انسانی حقوق کے حامی دل گرفتہ ہیں۔ دی میڈی ایٹرز کے پاس پاؤں رکھنے کی جگہ بس اتنی تھی کہ وہ ساری گیند میں سیاستدانوں کی کورٹ میں پھینک دیں کہ انتخابات سے متعلق تمام معاملات آپ ایک اس مقصد کے لیے بلائی اے پی سی میں خود طے کر لیں۔ اس اخلاقی سفارت کاری کو تمام سیاسی حلقوں سے کم و بیش مثبت جواب ملا۔ ہم ڈرتے ڈرتے عمران خان کو ملنے گئے کہ خوف تھا کہ وہ سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانے کو شاید بمشکل تیار ہوں۔ لیکن دوستوں کو یقین تھا کہ خان صاحب بند گلی سے نکلنے کے لیے شاید راضی ہو جائیں۔ ہمارے وفد کی خان صاحب سے تباہ حال زمان پارک کی رہائش گاہ میں ملاقات بہت ہی خوشگوار رہی اور انہوں نے نہایت متانت سے بات چیت پر آمادگی اور اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کر لی۔ یہ ایک بڑا بریک تھرو تھا اور نہایت حوصلہ افزا بھی۔ پھر کیا تھا افہامی گروپ نے تمام جماعتوں کو ایک نکاتی ایجنڈے پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت
بھیج دی اور ہر طرف ایچی دوڑا دیئے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق سے ملاقات بھی مثبت رہی اور ان سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ خود بھی اس ضمن میں اپنی کوششیں کریں گے۔ عمران خان کی بات چیت پر آمادگی نے جیسے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ششدر کر دیا، حالانکہ وہ قبل ازیں بات چیت کے لیے اپنی آمادگی کا بار بار اظہار کرتے رہے تھے۔ ہماری اپیل کو عمران خان کی رضا مندی سے پہلے بڑی مہمیز پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قد آور رہنماؤں کی توثیق سے ملی جن میں اختر مینگل ، محمود خان اچکزئی ، آفتاب شیر پاؤ محسن داوڑ ہعلی وزیر، سینیٹر مشاہد حسین سینیٹ رضاربانی ، فرحت اللہ بابر، عابد حسن منٹو ایڈوکیٹ،حسن رضا پاشا چیئرمین پاکستان بارکونسل، اختر حسین صدر عوامی ورکرز پارٹی، فاروق طارق حقوق خلق موومیٹ ، حسین نقی، ایچ آرسی پی، پی ایف یو جے ہی پی این ای، ویمن ایکشن فورم، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی 23 تنظیموں اور تقریباً 100 دانشوروں اور مدیروں نے اپیل برائے APC کی توثیق کر دی۔ لیکن ابھی ایک قدم چلے ہی تھے کہ ساری انتظامی مشینری نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بروقت انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی بے بسی ظاہر کردی۔ نتیجتا الیکشن کمشن آف پاکستان نے پنجاب کے صوبائی انتخابات کے لیے دیئے گئے انتخابی شیڈول کو ملتوی کرتے ہوئے سات ماہ کے التوا کا اعلان کر دیا۔ اور اب ایک بار پھر معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوگا۔ بظاہر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جتنے وکیل ہیں اتنی ہی تاویلات سامنے آرہی ہیں۔ پہلے بھی جو سیاسی فیصلے ہوتے رہے ان پر پڑی دھول اڑائی گئی تھی اور اب کے تو لگتا ہے آسمان گر سکتا ہے۔ اب معلوم نہیں فل کورٹ بیٹھے گی ، یا پرانے والا بنچ ہی درخواستوں کی سماعت کرے گا ۔ عدالت عظمیٰ کو سیاسی مناقشے میں گھسیٹنے سے سیاسی بحران حل ہوتا بھی نظر نہیں آتا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ عدالت عظمی انتخابات سے متعلق تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں اس شرط کے ساتھ بھیج دے کہ تمام پارلیمانی جماعتیں بشمول تحریک انصاف مل بیٹھ کر تمام تر معاملات پر مفاہمتی راہ نکال کر اسے مناسب آئینی و قانونی صورت دے دیں۔ دریں اتنا دونوں صوبوں کی اسمبلیاں بحال کر دی جائیں اور کیئر ٹیکر زحکومتوں کو فارغ کر دیا جائے۔ آئینی اعتبار سے 90 روز میں انتخابات سے کوئی مفر نہیں اور یہ محض عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی کے کیس کے طور پر بھی بھگتا یا جا سکتا ہے۔ مجھ سمیت آئین پرست آئین سے روگردانی کے متحمل نہیں۔ لیکن اگر انتخابات دو قسطوں میں ہوئے تو جانے کیا فساد بپا ہو جائے اور سارے کا سارا انتخابی عمل بھی ایک خوفناک تصادم کی صورت لے لے۔ اب سی امکان خالصتا سیاسی حکمت کا سوال ہے۔ اور سیاسی حکمت کا ادارہ پارلیمنٹ ہے۔ بہر کیف جو آئینی جنگ میں دیکھ رہا ہوں ، اس پر ایک اور بڑی تقسیم ہونے جارہی ہے۔ آخر میں بنیادی سوال تو پاکستان کے عوام کے حق رائے دہی کے لیے منصفانہ وشفاف انتخابات کا انعقاد ہے جو اس مملکت خداداد میں صرف ایک بار ہو سکے اور وہ بھی ایک خون آشام انجام سے دو چار ہوکر۔ ملک کو
توڑ نا قبول کر لیا گیا منتخب قیادت کو اقتدار سونپنے سے انکار کر دیا گیا۔ جمہوریت پسند خوش ہوئے تھے کہ جو ہائبرڈ نظام گھڑا گیا تھا، وہ دھڑام سے گر گیا، لیکن یہ سیاست کی موقع پرستی ہے کہ ہمارے زعما اپنے 26 نکاتی سویلین بالادستی کے ایجنڈے کو پس پشت ڈال کر خود ایک ہائبرڈ نظام کی آغوش میں طمانیت محسوس کر رہے ہیں۔ عمران خان کو انتخابی عمل سے باہر کرنے اور نواز شریف کی تاحیات نا اہلی برقرار رکھنے سے سیاسی استحکام آنے سے رہا۔ انصاف ہو اور سب سے یکساں ہو۔ بہر کیف ، جان مشکل میں آئی ہے تو کچھ باضمیر اور اصول پسند شہریوں کی جنہوں نے سیاستدانوں میں مکالمہ کرانے کی کوشش کی جو ابھی بھی جاری ہے۔ اب پہلا سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ شیڈول کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابی شیڈول کے مطابق معاملہ طے کر کے طے شدہ وقت میں انتخابات کرانے کے احکام صادر کر دے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کا انکار سپریم کورٹ سے بغاوت اور آئینی بریک ڈاؤن کا باعث ہو سکتا ہے، جس سے اجتناب کیا جائے ۔ انتخابات نہ ہونے سے، انتخابات بہتر ہیں ، بھلے قسطوں میں ہوں۔ اور اگر سیاسی افراتفری سے بچتا ہے تو ایک ہی وقت پہ تمام انتخابات پر سیاسی جماعتیں اتفاق کر لیں ۔ وگرنہ ہماری تاریخ تو سیاستدانوں کی باہم لڑائیوں کے نتیجے میں آمریت کے گڑھوں میں گرنے سے بھری پڑی ہے۔ اسوقت صورتحال وہی ہے جو 1977 میں پاکستان قومی اتحاد اور ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔ لیکن اس بار شاید جنرل ضیا الحق تاک لگائے نہیں بیٹھا ہے اگر معاملات بالکل ہاتھ سے نہ نکل گئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں