کہیں یہ نہ ہو کہ لڑتے لڑتے، ہوجائے گم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔ یہ معلوم نہیں چونچ تحریک انصاف کی گم ہوگی یا پھر دُم پی ڈی ایم کی؟ اور یہ سیاسی تماشہ وطن عزیز کی حیراں و پریشاں نگاہوں نے کئی بار دیکھا اورپھر لمبے عرصے تک سیاسی سناٹا اور آمریتوں کی طویل رات۔ 1956 کے آئین کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کیا اس لیے ملتوی نہیں ہوئے تھے کہ مشرقی و مغربی پاکستان میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی جیسی قوم پرست جمہوری جماعتیں نوآبادیاتی دور کی آمرانہ باقیات کو بہالے جاتیں۔ کیا 1977 میں متحارب سیاسی قوتوں، پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کی جماعتوں میں بات چیت کی کوششوں اور سیاسی سمجھوتے کے باوجود بحران کے سیاسی حل میں دیر کرواکر جمہوریت کی صفیں لمبے عرصے کے لیے لپیٹ نہیں دی گئی تھیں۔ پھر پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگا کر پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پہ چڑھا کر طویل آمریت کو مسلط نہیں کردیا گیا تھا۔ کیا سیاسی قوتوں میں محاذ آرائی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُسوقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف سے اپنی چپقلش میں سیاسی بساط اُلٹ نہیں دی تھی اور منتخب وزیراعظم کو عمر قید اورملک بدر نہیں کردیا گیا تھا۔ کیا مقتدرہ اور وزیراعظم نواز شریف کی تیسری حکومت میں خارجہ پالیسی اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ایکسٹنشن کے مسئلہ پر ایک منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل کر کے پابند سلاسل نہیں کردیا گیا تھا۔ کیا اپنے ہی تخلیق کردہ ہائبرڈ نظام میں لائے گئے وزیراعظم عمران خان سے نالاں ہوکر مقتدرہ نے سیاست سے ہاتھ کھینچ کر حکومتی تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کردی تھی۔ اور کیا ہمیشہ سیاستدانوں کی باہمی کشمکش سے مقتدرہ کو کھل کھیلنے کے مواقع میسر نہیں آئے۔ موقع تو اب بھی ہے لیکن نہ جنرل کاکڑ جیسی ڈپلومیسی دہرائی جارہی ہے، نہ پاک فوج اور اس کے نئے سالار جنرل عاصم منیر فوج کی سیاسی بدنامی یا پھر یوں کہیے سیاست کے کوئلوں کی دلالی کا گناہ اپنے سر لینے پہ آمادہ ہیں۔ ماضی کے پہ در پہ سیاسی فیصلوں سے بار بار ہزیمت اُٹھانے کے باوجود عدالت عظمیٰ و عالیہ اپنے سیاسی فیصلوں سے خود کو متنازعہ بنانے کے باوجود کیا سیاسی بحران کا کوئی قابل عمل اور متفقہ حل نکال پائیں۔ جبکہ سیاسی قوتیں ہیں کہ اپنے اپنے فوری احداف کے حصول کے لیے ناقابل مصالحت ٹکراﺅ میں باہم مشاورت اور تصفیہ کے لیے تمام تر دروازے بند نہیں کیے جارہیں۔ ملک ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے اور اپوزیشن کی تحریک انصاف آئے روز ٹکراﺅ کو بڑھاتی چلی جارہی ہے اور اس کے ہردلعزیز رہنما عمران خان تمام سیاسی مخالفین کی مٹی پلید کرتے ہوئے اُن سے کسی طرح کے مکالمے پہ راضی نہیں۔ جن پتوں پہ کبھی تکیہ تھا وہ کبھی کے ہوا دے گئے لیکن خان صاحب کی ملتجی نگاہیں ابھی بھی اُس در کے کھلنے کی اُمید میں پتھرا سی گئی ہیں۔ دوسری جانب جوابی احتساب کی آتش اتنی بھڑک رہی ہے کہ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز شعلہ فشاں ہیں۔ وہ انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ لگارہی ہیں اور اپنے حریف عمران خان کو سیاست بدر کروانے اور اپنے قائد نواز شریف سے کی گئی سیاسی زیادتی کے ازالے سے ہموار سیاسی میدان کا تقاضہ کررہی ہیں۔ میاں نواز شریف سے سیاسی زیادتی کے ازالے کا مطالبہ تو جائز ہوسکتاہے، لیکن عمران خان کو اُسی طرح کی زیادتی کا نوالہ بنوا کر کیسے سیاسی میدان ہموار ہوگا، سوائے سیاسی واک اوور کے بے اصول اور ناپائیدار حصول کے۔ ایسے میں سیاسی بحران کے حل کے لیے آسمانوں سے فرشتوں کی مداخلت کی دعا سے کیا حاصل ہونا ہے؟
اندریں حالات چار امکانات ہیں:
اول: جیسا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے کا حکم ہے پہلے انتخابات پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے منعقد کرلیے جائیں جس کے لیے تحریک انصاف تیار ہے، لیکن پی ڈی ایم کی جماعتیں اور اس کی شہباز حکومت تیار نہیں اور نہ ہی انتظامیہ کے ادارے اور عدلیہ کا عملہ تیار ہے۔ اوپر سے ڈیجیٹل مردم شماری زوروں سے جاری ہے جسکے نتائج اپریل میں ہی میسر آجائیں گے، جن کے تحت نئی حلقہ بندیاں آئینی طور پر درکار ہوںگی۔ اس سب کے باوجود اگر الیکشن شیڈول کے مطابق پنجاب اور اس کے ہفتے دس روز بعد خیبرپختونخوا کے صوبائی انتخابات منعقد ہوبھی جائیں تو انکی شفافیت کو یقینی بنانا شاید ممکن نہیں۔ کوئی نہ کوئی فریق انہیں تسلیم نہ کرنے کا اعلان کردے گا اور اکتوبر میں ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے سے پہلے مشکوک ہوجائیں گے۔ اور سیاسی بحران لاینحل ہوجائے گا اور تھمنے کا نام نہ لے گا۔
دوم: کسی نہ کسی طرح 30 اپریل کو پنجاب اور بعدازاں خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات کو انتظامی بہانے یا کسی ممکنہ حادثے یا بڑی دہشت گردی یا معاشی ایمرجنسی کے باعث ملتوی کردیا جائے۔ ظاہر ہے اس پر بہت سیاسی خلفشار برپا ہوگا اور عدالتی مداخلت ہوگی یا پھر ماورائی جھٹکا جس کے نتیجہ میں نہ جانے کیا انتظامی خلاءپیدا ہوجائے۔
سوم: ملکی حالات ابتری کی جانب اتنے بڑھیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاک فوج مداخلت پہ مجبور ہوجائے اور جانے پہ مداخلت سیاسی سمجھوتہ کرنے پر مخالف سیاسی کیمپوں کو مجبور کرے یا پھر سے مارشل رُول کی طرف چل نکلے اور سیاستدان پھر سے ہاتھ ملتے رہ جائیں اور جانے ملک کس عظیم تنہائی کی جانب لڑھک جائے۔
چہارم: پھر سے پارلیمنٹ متحرک ہوجائے جس میں تحریک انصاف کے اراکین کی واپسی کو یقینی بناتے ہوئے کسی آئینی و سیاسی میثاق کی راہ ہموار کی جائے۔ یہ آپشن یقینا آئینی، پارلیمانی، جمہوری اور سیاسی اعتبار سے پائیدار ہوسکتی ہے ، یہی راہ سیاستدانوں کے لیے ہر اعتبار سے بار آور بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سیاستدان مرنے مارنے پہ تلے بیٹھے ہیں اور باہمی مکالمے اور سیاسی سمجھوتے پہ ابھی تیار نہیں۔ سوچتا ہوں کہ اگر پی این اے اور پی پی پی میں 1977 میں مذاکرات ہوسکتے ہیں تو اب کیوں نہیں جبکہ مجوزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے جنرل ضیا الحق کی طرح کا کوئی خدشہ بھی نظر نہیں آرہا۔ آخر یہ مذاکرات ہوں تو کیسے ہوں؟ جنرل کاکڑ کی طرح جنرل عاصم منیر اس پر ابھی بظاہر تیار نظر نہیں آتے اور وہ اپنا دامن صاف رکھنا چاہتے ہیں جو کہ بہت خوش آئند ہے۔ تو پھر کون ہے جو بقول ڈاکٹر اکمل حسین گھنٹی بجائے۔ اس حوالے سے سول سوسائٹی کی غیر متنازعہ، جمہوری و آئینی اقدار کی علمبردار شخصیات مل کر نیک نیتی سے اور کلی جانبداری کے ساتھ شاید کس طرح کامصالحتی کردار اس حد تک ادا کرسکیں کہ وہ تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو آزادانہ و منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے ایک متفقہ انتخابی فریم ورک اور ٹائمنگ پہ کھلے مذاکرات پہ راضی کریں۔ سول سوسائٹی کے اس مصالحتی گروپ کا صرف یہی کام ہو کہ وہ انتخابات کے انعقاد پر تمام پارلیمانی جماعتوں کو اکٹھے بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے یہ راضی کرے اور ان مذاکرات میں ایک معاون آبزرور کا کردار ادا کرے۔ نیکی اور پوچھ پوچھ اور اس میں دیر کیسی۔ سیاسی بحران کے حل کے لیے، فرشتے آسماں سے اُترنے سے رہے۔

سیاسی بحران کیا فرشتے حل کریں گے؟ انگیخت: امتیاز عالم
Spread the love