43

ملک ہاتھ سے نکلا جارہا ہے انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

اب کسی دہائی کی چنداں ضرورت نہیں۔ سب کچھ نہاں ہو چلا ہے۔ پانی سر سے گزر رہا ہے۔ لیکن سب اپنی اپنی فکر میں غلطاں۔ مملکت خداداد نے بڑے بڑے بحران دیکھے ہیں، جیسا اب ہے ویسا کبھی نہ دیکھا تھا۔ کوئی ایک کل بھی تو سیدھی نہیں، اوپر سے سیاست با ہم دست وگر یہاں معیشت بے حال، عدلیہ بے وقار ، مقتدرہ تماش بین اور عوام روزی روٹی سے محروم ۔ پاکستان کدھر جارہا ہے؟ ہے کسی کو فکر ؟ انتخابات کی پہلی قسط کا بگل منقسم سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے نے بجا دیا ہے۔ پنجاب میں صوبائی انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کے سوا گورنر کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی انتظامیہ ان کے انعقاد کے لیے تعاون پر قطعی تیار نہیں۔ معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ جو جو ا سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کھیلا تھا، اُسی کو دہرا کر موجودہ وزیر خزانہ نے بازی تقریباً ہاروی ہے۔ پہلے نہیں ہیں دانے میاں صاحب چلے ہیں آئی ایم ایف کی بھٹی پر بھنانے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت کی تقریباً ایک برس کی کارکردگی اتنی بری رہی کہ عمران حکومت کی عدم کارکردگی کا نواز شریف حکومت کی قدر بہتر کارکردگی سے موازنہ کسے یاد ہے۔ ہارے ہوئے جواری کی طرح اسحاق ڈار کے چھلانے سے آئی ایم ایف کی سخت ہوتی ہوئی شرائط میں کوئی نرمی آنے والی نہیں۔ اوپر سے مارچ تا اکتوبر تک دو قسطوں میں انتخابات کا بوجھ یہ ملک اُٹھائے گا تو کیسے، جبکہ ان کے بطن سے سیاسی خلفشار اور انتخابی تنازعات کے سوا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ عمران خان اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم اور چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو کے طلبگار ۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے کورٹ مارشل کے تقاضے کے ساتھ ساتھ موجودہ آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات کی التجا۔ ایک بار فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آنے اور پھر گرائے جانے کے تلخ و شیریں تجربات کے باوجود حریف سیاستدانوں سے بات چیت کے ذریعہ جمہوری عبور کی جانب بڑھنے کا کوئی متفقہ راستہ نکالنے کے بجائے پھر سے عسکری بیساکھیوں کے سہارے کی آس۔ دوسری طرف ریاست کی خاطر سیاست کو قربان کرنے والے عمران خان سے سیاسی مکتی کے لیے خان کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ ، میاں نواز شریف کی تاحیات نا اہلی کے خاتمے
کے بنا انتخابی عمل میں کودنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ ایسے میں سیاسی ڈیڈ لاک ٹوٹے تو کیسے؟
گو کہ عمران خان نے ایک ہی وقت پر سارے انتخابات کے انعقاد کی رعایت کا اشارہ تو دیا ہے، لیکن شاید اس شرط پر کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی فورا منعقد کیے جائیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ انتخابات کا التوا انکی نا اہلی کو یقینی بنانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف اتحادی حکومت اپریل مئی میں دو صوبوں کے انتخابات پہ اس لیے تیار نہیں کہ عوامی فضا فی الوقت
عمران خان کے حق میں ہے اور دوصوبائی انتخابات جیت کر تحریک انصاف قومی انتخابات پر بھی فیصلہ کن طور پر اثر انداز ہو سکے گی۔ البتہ یہ خدشہ اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ دو قسطوں میں انتخابات سے سیاسی بحران حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ جائے گا۔ ایسے میں قومی اسمبلی کے سپیکر اور الیکشن کمیشن کے آئینی استحقاق کو ملیا میٹ کرتے ہوئے ہائیکورٹس نے تحریک انصاف کے مستعفی اراکین کی بحالی کر کے قومی اسمبلی میں فریقین میں بات چیت کیلئے سیاسی راہ ہموار تو کر دی ہے، بشرطیکہ مخالفین سیاسی مکالمے پہ تیار ہوں ۔ کھڑیں مارتے مارتے سیاستدان شاید اس ضرورت پر متفق ہوئے نظر آرہے ہیں کہ انتخابات ایک ہی وقت پہ ہوں اور سب کے لیے میدان ہموار ہو۔ لیکن کیسے اور کب ؟ اس کے لیے میں نے متحارب سیاسی کیمپوں سے ٹوہ لیتے ہوئے کچھ نکات ترتیب دیئے ہیں جن پر اتفاق ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔ عمران خان کا بڑا خدشہ ہے کہ انہیں انتخابات سے قبل نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ انہیں نا اہلی سے استثنا حاصل ہو جسکے لیے وہ بار بار آرمی چیف سے ملاقات کرنے کی استدعا کرتے رہتے ہیں کہ انکے خیال میں یہ گارنٹی وہی دے سکتے ہیں۔ لیکن کیوں نہ اتحادی جماعتیں عمران خان کو یہ گارنٹی فراہم کریں اور عمران خان نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے پہ متفق ہوتے ہوئے ہموار میدان کی راہ ہموار کریں اور ہر دو اطراف اگست / اکتوبر میں اکٹھے انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کریں۔ انتخابات کو اگست / اکتوبر تک لے جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے اور اس پر عملدرآمد کا وقت بھی مل جائے۔ اگر اس پر کچھ لے دے ہو جائے تو عمومی نکات پر بھی اتفاق ہو سکتا ہے جو درج ذیل ہیں۔
1 تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی اور اسکے قائد حزب اختلاف کا تقرر۔
2- احتساب کے قوانین میں تبدیلی تاکہ سیاستدانوں کے خلاف کی جانے والی ماضی کی زیادتیوں اور مستقبل کی حق تلفیوں کا سد باب کیا جا سکے۔ جس سے عمران خان اور نواز شریف کو انصاف میسر آ سکے اور وہ سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں۔ 3۔ تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کا ایک ہی تاریخ پر اگست / اکتوبر کے دوران انعقاد جونئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہو۔
4۔ تمام جماعتوں کا انتخابی قوائد، ضابطہ اخلاق اور انتخابی عمل پر قومی اتفاق رائے تا کہ آزادانہ و منصفانہ اورشفاف انتخابات کو یقینی بنایا جاسکے۔ 5- تمام آئینی عہدوں بشمول افواج پاکستان کے سربراہان کی مدت تین سال تک محدود رکھی جائے۔
6۔ پارلیمنٹ کی خود مختاری اور سویلین سپریمیسی کے لیے آئینی وقانونی اور ادارہ جاتی اصلاحات۔ 7 حق اظہار حق زندگی، بنیادی انسانی و شہری حقوق کی اقوام متحدہ کے اعلان ناموں کے مطابق ضمانت دی جائے۔
8۔ دہشت گردی اور مذہبی و نسلیاتی انتہا پسندی کا سد باب۔ 9۔ اچھی حکومت اور بنیادی عوام دوست معاشی پالیسیوں پہ قومی اتفاق رائے۔
اگر مندرجہ بالا پالیسی معاملات پر اتفاق ہو جاتا ہے تو پاکستان اپنے موجودہ بحران سے سیاسی طور پر نکلنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ البتہ ریاست و معیشت کو جو خطرات درپیش ہیں، اسکے حل کے لیے دیر پا پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔ کاش ! سیاستدان ابھی بھی معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے دل سے بات چیت کا آغاز کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں