420

دراڑیں پاٹیں اور میثاق جمہوری سیاست کریں انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

اک عجب فضا ہر سو طاری ہے۔ ایسی سنگین اور مشکوک قبل از انتخابات فضا کبھی دیکھی نہ سنی۔ جب جمہوری عمل ہی پامال ہوکے رہ جائے اور آئندہ ہونے والے انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے ہی مشکوک ہوجائیں تو پھر اسکے بطن سے ایک خوفناک منظر ہی برآمد ہوسکتا ہے۔ ملک کو پہلے ہی بڑی سماجی، نسلیاتی، نظریاتی اور اداراتی دراڑوں کو سامنا ہے۔ شمال مغرب اور جنوب مغرب میں خلفشار ہے کہ بگڑتی جاتی ہے۔ معیشت چل نہیں رہی اور کاروبار سیاست میں بھونچال ہے کہ تھمنے کو نہیں۔ بھٹو کی سیاسی دراڑ ابھی مندمل ہو نہیں پائی کہ نئی سیاسی دراڑ کھودی جارہی ہے۔ سارا بوجھ عدلیہ کے سر آن پڑا ہے اور پاک فوج کون کونسا بوجھ آٹھائے؟سیاسی پولرائزیشن اتنی گہری اور وسیع ہے کہ سیاستدان کینہ پروری اور باہمی نفرت میں اندھے ہوچلے ہیں۔ مفادات کا ٹکراﺅ اتنا شدید ہے کہ جس جمہوری شاخ پہ بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں اور بدقسمتی سے یہ سمجھتے ہوئے کہ جو گڑھا دوسرے کے لیے کھود رہے ہیں وہ خود اس میں گرنے سے بچ رہیں گے۔ کسی ایک فریق کو زور زبردستی میدان سے نکالنے اور انتخابی عمل کو عوامی منشا کے برعکس مسمار کرنے سے نہ کوئی جیتنے والا ہوگا نہ ھارنے والا۔ جمہوریت کی ٹوٹی پھوٹی لٹیا تو ڈوبے ہی گی، سیاسی عدم استحکام میں جانے کیا کیا خطرناک عناصر شامل ہوجائیں۔
ان حالات میں تمام سیاسی قوتوں، اداروں، خاص طور پہ عدلیہ اور پاک افواج پہ بڑی زمہ داری آن پڑی ہے۔ سب سے اہم کردار چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ہے جسے آئینی مصالحت کنندہ کا کردار میزان انصاف کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ اسکے سامنے نہ صرف فریقین کے لیئے انصاف کی مساوی فراہمی کا بڑا سیاسی تقاضہ ہے بلکہ انتخابی عمل کو ہر طرح کی پامالی سے اس طرح بچانا ہوگا کہ ہر سیاسی فریق کا انتخابی عمل پر اعتماد برقرار رہے اور عوام کاحق رائے دہی اور انہیں مختلف سیاسی عناصر میں سے کسی کے جسے وہ چاہیں آزادانہ چناﺅ کا پورا پورا موقع میسر ہو۔ عوام کے اس اولی حق کا تقاضہ ہے کہ انہیں متنوع سیاسی آپشنز میسر ہوں اور کسی پارٹی کو کسی بنیاد پر انتخابی عمل سے بیدخل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے حق انتخاب کی آزادی مصلوب کردی گئی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت ان پڑھ ہے اور وہ ووٹ ڈالتے وقت صرف انتخابی نشان کو پہچان کر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ کسی بھی جماعت کو اسکے انتخابی نشان سے محروم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے رائے دھندگان کے اچھے بڑے حصے کو اپنی پسند کے چناﺅ سے محروم کردیا۔ تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان کی شناخت سے محروم کرنے کا مطلب فقط ایک پارٹی کے آئینی و جمہوری حقوق کی نفی ہی نہیں بلکہ نا خواندہ رائے دھنگان کے ایک بڑے حصے کے بنیادی حق رائے دہی کی نفی ہوگی۔ اسکے علاوہ اقلیتوں اور خواتین کے ایک بڑے حصے کو مخصوس نشستوں پر منتخب ہونے کے لیئے تحریک انصاف کا پلیٹ فارم میسر نہ ہونے سے انکی انتخابی عمل میں شرکت ممنوع ہوجائے گی۔ بلے کے نشان کے بغیر مخصوص نشستیں بھی تحریک انصاف کے کھاتے سے نکل جائیں گی۔
تحریک انصاف کے مخالف سیاسی کیمپ میں شامل جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ فریق مخالف کو میدان سے نکال کر حاصل کی ہوئی کامیابی انکے گلے میں کانٹوں کا ہار بن کے لٹک جائے گی۔ انکی انتخابی جیت کی اخلاقی فتح فریق مخالف کو شفاف انتخابی عمل میں شکست دینے سے حاصل ہوگی نہ کہ جمہوری عمل کا سرقہ بالجبر کرکے۔ میری سوچی سمجھی رائے میں سیاسی استحکام کا واحد راستہ شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو جمہوری عمل میں یقین رکھتی ہیں کو سب جماعتوں کے لیئے ہموار سیاسی میدان کی فراہمی کا تقاضہ کرنا چاہیے نہ کہ وہ پی ٹی آئی کے بطور جماعت انتخابی عمل سے اخراج پہ بغلیں بجائیں۔ سیاسی ماحول میں استحکام اور رواداری کے فروغ اور نفرت انگیزی کے سد باب کے لیئے ضروری ہے کہ حکومت اور اسکے انتظامی ادارے عام سیاسی معافی کا اعلان کریں۔ 9 مئی کے ملزمان پہلے ہی اپنے کیے کی کافی سزا بھگت چکے ہیں- بہتر ہوگا کہ انہیں ضمانتوں پر رہا کرکے مقدمات کا سامنا کرنے دیا جائے۔ جن لوگوں کے خلاف سنگین الزامات ہیں، اُنہیں صفائی کا موقع دیا جائے اور جرم ثابت ہونے پہ قرار واقعی سزا دی جائے۔ معاف کردینے سے ریاست کی تکریم بڑھے گی اور نفرت انگیزی کے غبارے سے ہوا بھی نکل جائے گی۔
بہتر ہوگا کہ تمام سیاسی جماعتیں صاف و شفاف انتخابات اور جمہوری طرز عمل میں نکھار پیدا کرنے کے لیئے ایک صابطہ اخلاق پہ اتفاق پیدا کریں۔ شہری برائے جمہوریت نے چوٹی کے دانشوروں ، وکلا، صحافیوں اور انسانی حقوق کے نگہبانوں کے دستخط سے ایک ضابطہ جمہوری سیاست برائے شفاف انتخابات جاری کیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں زیل میں دیئے گئے میثاق جمہوری سیاست اور شفاف انتخابات کی توثیق کریں گی۔
(۱) انسانی، شہری اور معاشی حقوق کا تحفظ، عورتوں اور اقلیتوں کے مساوی حقوق کی حمایت جن کی تاکید اقوام متحدہ کے اعلان ناموں، ضوابط اور 1973 کے آئین میں کی گئی ہے۔ (۲) 1973 کے آئین کی بالادستی، عوام کے ا قتدار اعلیٰ جسکی نمائندہ پارلیمنٹ ہے ،کا احترام، معاون وفاق جیسا کہ 18 ویں ترمیم کا تقاضا ہے کا دفاع اور اقتدار و اختیار کی مقامی سطح پہ منتقلی۔ (۳) بلا کسی امتیاز کے تمام شہریوں کے مساوی حقوق کا تحفظ، پارلیمنٹ کا مقتدر اعلیٰ کے طور پر احترام اور اختیارات کی آئینی تقسیم کے نظریہ کے تحت تمام اداروں کی اپنی حدود میں رہ کر آئینی احکامات کی پابندی۔ (۴) آزادی اظہار، میڈیا کی آزادی اور اختلاف رائے کا احترام اور جسے گالی گلوچ اور نفرت انگیزی سے مجروح نہ کیا جائے۔ (۵) عوام کے حق رائے دہی کا احترام جو پاکستان کے اقتدار اسی کے حقیقی مالک اور قومی مفادات کے محافظ ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات جن میں ہر جماعت کو مساوی مواقع اور ہموار میدان میسر ہو اور کسی بھی جماعت کو سیاسی عمل سے خارج کرنے سے گریز کیا جائے۔ صاف و شفاف انتخابی عمل ہی مقننہ کی اخلاقی حیثیت اور نمائندگی کے نظام کے تحت جمہوری حکمرانی کو یقینی بناتا ہے۔ (۶) سیاسی و انتخابی عمل میں کسی بھی ریاستی ادارے یا ایجنسی کی عدم مداخلت۔ نیز پیسے اور ناجائز طریقوں سے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے سے اجتناب برتا جائے۔ (۷) سیاست میں مہذب، جمہوری، رواداری، طرز عمل اور معیاری مکالمے کا فروغ۔ (۸) انتخابی نتائج پہ کسی طور پر اثر انداز ہونے کی غیر جمہوری کوششوں کا تدراک۔ (۹) انتخابی عمل میں پرامن، مہذب اور قانونی و اخلاقی طور طریقوں کا فروغ تاکہ جمہوری نظام مستحکم ہو۔ (۰۱) پارٹیوں کو اپنے منشور اور پروگرام عوامی فلاح، مفاد عامہ خاص طور پر محنت کش عوام کی بھلائی اور غربت و ناداری اور عدم مساوات کے خاتمے پر مرکوز کرتے ہوئے عوام کی خوشحالی اور ترقی اور نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے انسانی ذرائع کی ترقی پہ زور دینا ہوگا۔ (۱۱) سیاسی مخالفین کو بالجبر میدان سے نکالنے اور انتقام کا نشانہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔ (۲۱) عام معافی کا اعلان۔ تمام سیاسی اسیروں کی رہائی اور تمام سیاسی لیڈرز کی انتخابات میں مساوی بینادوں پر شرکت۔ (۴۱) ملک، خطے اور دنیا میں امن تعاون اور بھائی چارے کا فروغ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں