283

تحریک انصاف اور پارٹیوں میں جمہوریت انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

اپنے انعقاد سے پہلے ہی مشکوک ہوئے انتخابات کے شیڈول کے اعلان بارے ابہام تو دور ہوا۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کی تاریخ سے 56 روز قبل انتخابی شیڈول کا غالباً 14 دسمبر کے آس پاس اعلان کردیا جائے گا۔ ہفتہ کے روز ہی تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات نہایت سرعت رفتاری سے منعقد کیے جاچکے اور بیرسٹر گوہر کو پارٹی کے روح رواں عمران خان کی نااہلی کے پیش نظر بلا مقابلہ منتخب کرلیا گیا ہے، جبکہ باقی عہدیداروں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ لیکن جس طرح پی ٹی آئی کے گزشتہ انتخابات کو خلاف ضابطہ قرار دیا گیا تھا، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ میدان سے غائب کی گئی تحریک انصاف کے گزشتہ روز ہوئے ”غائبانہ پارٹی انتخابات“ کو قانونی جواز ملے گا بھی کہ نہیں۔ جب مقصد ہی ایک پارٹی کو انتخابی میدان سے نکال باہر کرنا ہے تو پھر بلے کا نشان تلوار کی طرح بیلٹ پیپر سے غائب کرنا کوئی بڑا کام نہیں۔ اس گناہ کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پورے انتخابی عمل میں وسیع تر دھاندلیوں کے بے پناہ گناہوں سے بچا جاسکے گا۔ سوال تو پہلے ہی سے انتخابات کی شفافیت پر اٹھ کھڑا ہوا ہے تو اک گناہ اور سہی۔ لیکن یہ کہنہ مشق بے وضو نماز کے مترادف ہے اور جمہوریت کا خون اپنی کف پہ لیے ہوگی۔ یقینا الیکشن کمیشن کو ان ہنگامی پارٹی انتخابات جو ایک طرح کی غائبانہ نماز جنازہ تھی پر مہر ثبت کرنے میں دشواری ہوگی کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ برس کے انتخابات تو ان سے کہیں زیادہ ”جمہوری و قانونی“ تھے۔ ویسے دیکھا جائے تو کس پارٹی کے انتخابات جمہوری ہوتے ہیں جن میں شفاف انتخابی قوانین کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ ایک آدھ استثنا کے سوا 176 رجسٹرڈ پارٹیوں کے انتخابات کے کہیں شواہد نہیں اور جن پارٹیوں نے اپنے انتخابات کے نتائج سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا ہے اور جنہیں شرف تصدیق بھی بخشا گیا ہے، ان کے انتخابات کتنے جمہوری اور نمائندہ تھے۔ تمام پارٹیاں اپنے بانیان، موجدین، گھرانوں، شخصیات اور گروہوں کی مرہون منت ہیں اور انکا جمہوری عمل سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ اب اندھوں میں کانے راجہ کی نشاندہی (PTI) مضحکہ خیز نہیں تو کیا ہے۔ جب سیاسی پارٹیاں ہی اپنے وصف میں غیر جمہوری اور آمرانہ ہیں یا پھر کسی خاندان یا شخصی طلسم کی مرہون منت تو جمہوری عمل میں عوام کی شرکت کے کیا معنی؟ ایک لیڈر کے گرد چھوٹا سا گروہ پارٹی کے کارکنوں اور اراکین سے بالا بالا نہ صرف انتخابات میں اپنے اُمیدواروں، نام نہاد منشوروں اور حکومتی تشکیل و قانون سازیوں کا فیصلہ کرے گا تو جمہوریت کو عوامی بنیاد و توثیق میسر آئے گی، نہ پارٹیاں ایک نامیاتی جسم بن پائیں گی جو جمہوریت کی آبیاری کرسکیں اور عوام کی منشاﺅں کی تشکیل کرپائیں۔ یقینا تاریخی طور پر اداراتی و ریاستی مداخلتوں سے جمہوری عمل اور پارٹیوں کی نشونما کا ماحول گہنایا گیا لیکن سیاسی جماعتوں کی جمہوری و نامیاتی تشکیل سے کس نے روکا تھا؟ اگر آمرانہ ڈھانچے کے شکنجے کو کسی نے توڑا بھی تھا تو وہ عوامی سیاست کی جماعتوں نے اور وہ بھی عوامی طاقت کے زور پہ۔ اور عوامی طاقت کا اظہار بعداز نوآبادیاتی آمرانہ ریاست کے خمیر کے لیے سوہان روح بنا رہا ہے۔ جسکا مظاہرہ ہم 1970 کے المناک باب کی صورت دیکھ چکے۔ جس ریاست میں عوام کی فعال شرکت نہیں تو اسکا جغرافیہ نہیں اور یہ دونوں اجزا نہیں تو مبینہ مقتدر اعلیٰ کی کوئی اخلاقی اوقات نہیں تو ریاست کہاں رہ جاتی ہے۔ ہم نے علم سیاسیات میں پڑھا تھا کہ ریاست معاشرے سے بالا ایک ایسی جابرانہ قوت ہوتی ہے جو اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھتی ہے۔ لیکن جب کوئی ایک طاقتور ادارہ جیسے چھاﺅنی ہی ریاست ہونے کا دعویدار ہوکر اپنی اجنبیت اور غیر جانبداری کھو دے تو ایسی ریاست اپنا ”جواز“ کھو بیٹھتی ہے۔ دریں اثنا سنسر شپ میں جکڑے میڈیا نے ریاست کی اصطلاح کو فوج کے متبادل کے طور پر اپنا کر اپنی علمی بددیانتی کی تصدیق کردی ہے۔ ویسے بھی ریاست آخری تجزیہ میں ایک طبقاتی پر تشدد ادارہ ہے جسے ایک سماجی میثاق کے ذریعہ عوام آئینی تحفظ اور قانونی چلن کا پابند بنا کر اپنا حق حکمرانی برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں عوام کامیاب رہتے ہیں وہاں جمہوریہ انکا مقدر بنتی ہے اور جہاں ناکام رہتے ہیں وہاں آمریت، ملوکیت و خلافت ، بادشاہت اور مطلق العنانیت حاوی ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہی پاکستان کا مقدر ٹھہرا ہے اور یہ ابھی بھی بدلنے کو تیار نہیں۔
اب پارٹی انتخابات کے بعد تحریک انصاف قانونی و آئینی جماعت ہونے کے باوجود انتخابات میں بطور سیاسی جماعت حصہ لے سکے گی یا نہیں، آئندہ دنوں میں واضح ہوجائے گا۔ اسکے رستے میں حائل بڑی رکاوٹ عوامی پذیرائی ہے جو اسے شرف قبولیت بخشنے میں حائل ہے۔ علم سیاسیات کی رو سے کئی اصناف کی سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں لیکن ہوتی سب کسی نہ کسی طبقے یا طبقات کے مفادات کی داعی۔ نظریاتی اعتبار سے یہ بائیں اور دائیں بازو اور انکے مختلف ثانوی رجحانات کی غمازہوتی ہیں۔ اپنی ساخت کے اعتبار سے سے یہ کیڈر پارٹیاں ہوتی ہیں یا پھر عوامی۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی نظریاتی جماعتیں کیڈرز کی پارٹیاں ہوتی ہیں جن میں مذہبی جماعتوں میں امیرکی امارت اور بیت ہوتی ہے جیسے جمعیت علمائے اسلام (ف)، جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں میں جمہوری مرکزیت کے نام پر آمریت چلتی ہے جیسے مختلف کمیونسٹ گروپ یا ان کی گھریلو نوآبادیاں۔ وسیع عوامی تائید کی جماعتوں یا ماس پارٹیز میں بھی دو طرح کی پارٹیاں ہیں جن میں ایک تو وہ ہیں جو عوامی بنیاد پر جمہوری نمائندہ عمارت کھڑی کرتی ہیں (جو پاکستان میں نہیں ہے) اور دوسری وہ ہیں جو عوامی حلقہ ہائے انتخابات کی حمایت پر گروہی یا شخصی یا خاندانی اقتدار کو مسلط کرتی ہیں جیسے پیپلزپارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف، اے این پی وغیرہ۔ پارٹیوں میں خاندانی بادشاہت جمہوری وصف کے منافی ہے، جبکہ شخصیت پرستی یا کلٹ کی پرستش پاپولسٹ تو ہوسکتی ہے، جمہوری نہیں۔ اس طرح کی پارٹیاں ایک محدود گروہ، خاندان یا شخصیت کی اسیر ہوکر اپنے اندر جمہوری اختلاف اور متبادل قیادت کے فروغ میں مانع ہوکر اپنے جمہوری ارتقا کو سلب کردیتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بڑی عوامی پارٹی منظم کی لیکن متبادل قیادت اُبھر نہ پائی اور پارٹی خاندانی ورثہ یا شاہی وراثت کی لپیٹ میں آگئی۔ ن لیگ آمریت کے بطن سے پیدا ہوئی اور بھٹو کے سوشل لبرل ازم کے خلاف اُبھرے دائیں بازو کے ردعمل پہ پروان چڑھ کر خاندانی لمیٹڈ کمپنی بن کے رہ گئی۔ تحریک انصاف عمران خان کے کلٹ کے گرد جمع ہوئی اور اس کلٹ پر کلی انحصار کے باوجود مائنس عمران پہ راضی ہوگئی کہ بلے کی نشانی تو برقرار رہے۔ عمران خان کے کلٹ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ کوئی دوسرا لیڈر صوبوں اور وفاق میں نہ اُبھر پائے جسکا خمیازہ اس جماعت کو اب بھگتنا پڑرہا ہے۔ ہم نے جو اوپر جماعتی جائزہ پیش کیاہے، اسکے پیش نظر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام جماعتیں، عوامی منشاﺅں اور جمہوریائی آشاﺅں کو پورا کرنے کی بنیادی صفت سے محروم ہیں اور اگر یہ لڑتی جھگڑتی بھی ہیں تو آمرانہ قوتوں سے سمجھوتے کرنے پہ مجبور بھی جلدی ہوجاتی ہیں۔ جو کچھ اب تحریک انصاف کے ساتھ ہورہا ہے اور یہ مائنس عمران پہ حقیقی طور پر نہ سہی رسمی طور پہ تو راضی ہوچلی ہے، پہلے بھی ہوتا آیا ہے۔ مائنس بھٹو کرنے کی کوشش ہوئی تو پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی۔ 2018 کے انتخابات میں مائنس نواز شریف ہوا تو برادر خورد نے قیادت سنبھال کر بڑے بھائی کی سیاست کو رخصت پہ بھیج دیا بھلے وہ چوتھی بار وزیراعظم بنے یا نہ بنے۔ اب عمران خان بھی پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوئے ہیں، تو ابھی معلوم نہیں کہ نو وارد بیرسٹر گوہر بلے کا نشان بچا پائیں گے بھی کہ نہیں۔ جہاں پارٹیوں کا یہ حال ہوجائے تو بی بی جمہوریت کے جمال کی بے توقیری نہیں ہوگی تو کیا ہوگا۔ ویسے بھی ہائبرڈ نظام کو مستقل کرنے کی اداراتی تیاری مکمل ہوچکی۔ اب اسکا لاڈلا یا لاڈلے کون ہونگے، اسکی میوزیکل گیم شروع ہوچکی جس سے جمہوریت پسندوں کو کیا غرض اور مہنگائی میں رُلے عوام کو کیا لینا دینا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں