اب اس المیہ کا کیا کریں کہ لاڈلے ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ آنکھوں کا تارا کب آنکھ کا شہتیر بنتا ہے، اس میں کیا دیر لگتی ہے۔ یہ منظر یہ گناہ گار نگاہیں بقول سہیل وڑائچ مملکت تضادستان میں کب سے دیکھتی پتھرا سی گئی ہیں۔ اس طویل ٹریجڈی کی طرح اس کی کامیڈیز کا بھی کوئی انت نہیں۔ یہ تضادستان والی بات عمومی ہے، ہر ریاست اور معاشرہ تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے، ان تضادات کو برقرار رکھنے والی قوتیں اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں کہلاتی ہیں اور جو ان تضادات کا کوئی عوام دوست حل چاہتی ہیں وہ ”تبدیلی“ کی قوتیں کہلاتی ہیں۔ لیکن ”تبدیلی“ مراجعت پسندی یا ماضی کے کسی سنہری خواب کی یادوں کی عملی تعبیر یا اسلاف کے زمانے کی واپسی کی آرزو بھی ہوسکتی ہے جو تاریخ کا پہیہ اُلٹا چلانے کی نیک تمنا تو ہوسکتی ہے، تبدیلی نہیں۔ تبدیلی تو وہ ہے جو موجود حالات کے شکنجے اور بنیادی تضادات کا حل پیش کرے اور تاریخی عمل کو آگے بڑھائے۔ لیکن ہمارے ہاں تو فکری کنکال ایسا عام ہے کہ نظریہ ارتقا کی حقیقت بیان کرنے والوں کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر تکفیر و تحریض کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ کلیسا نے بھی گالیلیو کے سائنسی انکشاف پہ اعتراض کیا تھا لیکن زمین چپٹی نہ ہوسکی جیسی بیضوی تھی ویسی ہی رہی۔ لیکن بات تو شروع ہوئی تھی اس لاڈلے سے جو بہت ہردلعزیز تھا، ہیرو تھا، محبوب تھا اور جانے کیا کچھ جو ذوق جمال میں آئے۔ جی ہاں! ہم عمران خان کا ذکر کررہے ہیں جس کے تذکرے کے بغیر پاکستانی سیاست کا ذکر ممکن نہیں۔ بھٹو صاحب کے نام پر بھی جنرل ضیا الحق کے تاریک دور میں بندش لگائی گئی تھی، پھر یار لوگوں نے تنقید کی آڑ میں نام لینا شروع کیا تو اخبارات کے صفحے خالی ہونے لگے، لیکن صبح شام ذکر یار ہی ہوتا رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی تحریک انصاف کے چیئرمین کے ساتھ ہورہا ہے۔ کوئی ٹی وی شو انکے ذکر بنا ہوتا نہیں، پھر بھی پابندی؟ گویا سویلین کے حق میں سول نافرمانی، انتخابات کی تاریخ ہو، سیاست میں لیول پلینگ فیلڈ ہو، نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خواہش ہو، انصاف کے ترازو کی بات ہو، اداروں کی آئینی دائرے میں ہونے یا نکلنے کی کہانی ہو، جمہوریت اور اسکے مستقبل پہ قیاس آرائی ہو، یا پھر معیشت ہو اور ثقافتی آلودگی اور کوئی بھی موضوع لے لیں، تان عمران خان پر جاکے ٹوٹتی ہے۔آخر ایسا کیا ہے کہ یہ عمرانی کمبل جان نہیں چھوڑ رہا۔ یہ مقتدرہ کے گناہوں کا ثمر ہے یا پھر نئی نسلوں کی محرومیوں کے کنفوژڈ آدرشوں کا سراب ہے۔ یا لاینحل تضادات کا المیہ!
پاکستان کی تاریخ بھی عجب ہے۔ نیم نوآبادیاتی طرز کی مقتدرہ کی اجارہ داری اور بے کس عوام کی بیزاری، اس تضادستان کا بنیادی تضاد ہے اور اس کے حل ہونے کی کوئی لو کہیں سے پھوٹتی نظر نہیں آرہی۔ ہماری تاریخ کا آمرانہ باب اگر طویل تر ہے تو اس کے خلاف عوامی و قومی مزاحمتوں کی تاریخ بھی طویل تر ہے۔ مقابلہ سخت رہا ہے کبھی ایک کی شکست تو کبھی دوسرے کی فتح۔ یہ کہنا کہ پاکستان عوامی اُمنگوں کا قبرستان ہے، درست نہیں۔ کیا مشرقی پاکستان کے عوام نے آزادی حاصل نہیں کی تھی۔ کیا ایوب خان کے خلاف آمریت مخالف جمہوری جدوجہد کامیاب نہیں ہوئی تھی اور عوام کو تینتیس برس بعد حق رائے شماری نہیں ملا تھا۔ اور پھر 1973 کے آئین کا معاہدہ عمرانی نہیں ہوا تھا جس سے بار بار کی عہد شکنی کے باوجود وہ آج بھی دستور العمل ہے جس پر قائم رہنے اور اس کے اندر رہنے کی دہائی چاروں طرف سنائی دیتی ہے۔ ہم نے ہر فوجی آمریت کی صفیں لپٹتی دیکھی ہیں اور عوامی رہنماﺅں کو بار بار سولی پہ چڑھائے جانے اور معتوب کرنے کے باوجود پائندہ باد ہوتے دیکھا ہے لیکن کوئی فوجی آمروں کا نام لیوا نہیں ۔ عمران خان کے عروج و زوال کی کہانی بھی تضادات کے بے جوڑ ملغوبے کا ایسا مجموعہ ہے جو سلجھائے نہیں سلجھتا۔ اگر نواز شریف کا سیاسی بت گھڑا گیا تھا، تو عمران خان کو لاڈ پیار سے آسمان پہ چڑھایا گیا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ اسٹیٹس کو کی پیداوار کا نعرہ بھی اسٹیٹس کو کو بدلنے کا تھا۔ لیکن اسٹیٹس کو کے بدترین نمائندے کپتان کی اے ٹیم بن کے براجمان ہوگئے۔ ایک صفحہ پر ہونے کی مستعار طاقت ایسی دماغ کو چڑھی کہ تمام سیاسی حریفوں کی زندگی اجیرن کردی۔ احتساب کی جس سوئی پہ سیاسی مخالفین کو چڑھایا گیا، وہی سولی اب لاڈلے کا مقدر ٹھہری۔ جیسی کرنی، ویسی بھرنی۔ عمران خان کا سیاسی اُبھار فقط مقتدرہ کی انجینئرنگ کا کمال نہ تھا، بلکہ وہ عالمی سطح پہ مختلف ملکوں میں قومی ردعمل کے ماحول میں پیدا ہوئے دائیں بازو کے فسطائی طرز کے جلالی لیڈروں ہی کی طرح اُبھر کر سامنے آئے۔ اسٹیٹس کو سے تنگ آئے عوام اور پرانے وقتوں کی سیاسی قیادتوں سے بیزاری اور نئی نسل کی اور خاص طور پر مڈل کلاس کی ”تبدیلی“ کی خواہش، پاپولسٹ اور نرگسیئت پسند عمران خان کو خوب بھائی۔ وہ ٹرمپ اور اس قماش کے دیگر غیر آزاد خیال (Illiberal)رہنماﺅں کی طرح نمودار ہوئے اور سوشل میڈیا کے زور پہ چھاگئے۔ اوپر سے انکی حکومت کے گرائے جانے کا ڈرامائی سین، بیرونی مداخلت کے تڑکے سے اُن کے خوب کام آیا۔ انکی حکومت کی ناکامیوں کے باعث حزب اختلاف کی جماعتوں نے جو زور پکڑا تھا، شہباز حکومت کے نامراد تجربے کی نذر ہوگیا۔ اب جو مظلوم ہے یا نشانہ ستم (Victim) ہے، وہ آبادی کے ایک بڑے حصے کی تلخیوں کا محور ہے۔ لیکن عمران خان کی متکبر اور آمرانہ روش اور سیاسی مہم جوئی کے ہاتھوں وہ خود اور تحریک انصاف بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ انکے ساتھ وہی ہورہا ہے جو انہوں نے مقتدرہ کے ساتھ مل کر اپنے مخالفوں کے ساتھ کیا تھا، اسی لیے انکی مظلومیت کا اخلاقی جواز کمزور پڑجاتا ہے۔ دوسری طرف جو کل تک نشان عبرت تھے، انکے ساتھ وہی کیا جارہا ہے جو عمران خان کو 2018 کے انتخابات میں کامیاب کروا کر کیا گیا تھا۔ نتیجتاً تمام تر سیاست اخلاقی جواز سے محروم ہوچلی ہے۔ لیکن کل جو غلط ہورہا تھا، آج پھر دہرائے جانے پہ درست نہیں۔ لہٰذا، جو سلوک ماضی کے منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ روا رکھا گیا، جو ناجائز تھا ویسا ہی سلوک آج عمران خان کے ساتھ کیے جانے کی کوئی جمہوریت پسند حمایت نہیں کرسکتا۔ اسوقت جو سلوک تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماﺅں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے وہ آئینی ہے، نہ جمہوری۔ اب جبکہ ہم انتخابی مرحلے میں داخل ہورہے ہیں، اسکا تقاضہ ہے کہ سب ہی سیاستدانوں اور جماعتوں کو مساوی مواقع میسر ہوں اور صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے تمام جماعتیں ایک جمہوری فریم ورک پر اتفاق کریں تاکہ اس ملک کے عوام کو انکے حق خود اختیاری کے استعمال کا بھرپور موقع مل سکے۔ موجودہ سیاسی بحران کا بھی یہی حل ہے۔ وگرنہ ہم ایک سیاسی گڑھے سے دوسرے سیاسی گڑھے میں گرتے رہیں گے۔ کیا عمران خان مخالف جماعتوں کے ساتھ ملکر ایک نئے جمہوری میثاق پہ اتفاق رائے پیدا کرنے کو تیار ہوں گے اور اس کی مخالف جماعتیں خان صاحب کے گناہ بخشنے کو تیار ہوں گی؟ مشکل ہے لیکن ہوسکتا ہے اور ہونا چاہیے۔
458
وہ لاڈلا جس کا نام لینے پہ پابندی ہے؟ انگیخت: امتیاز عالم
Spread the love