348

ایک آنکھ کا تارا اور دوسرا آنکھ کا شہتیر انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

میاں نواز شریف نے جونہی 2017 میں انکی حکومت کو اُلٹنے کی سازش کے کرداروں (جن میں سرفہرست جنرل باجوہ، جنرل فیض، چیف جسٹس ثاقب نثار و دیگر جج صاحبان ہیں) کو انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا تو اس کے ساتھ ہی سابق چیف جسٹس بندیال کی شہباز حکومت کی نیب قوانین میں لائی تبدیلیوں کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نیب کی توپیں بھی سیاستدان کے خلاف کھل گئیں۔ ایسے میں برادر خورد آنکھ کے تارے کو ہنگامی طور پر سر کے بل لندن لوٹنا پڑا۔ اب آنکھ کے شہتیر ہوئے نواز شریف کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو اپنی زباں بندی کرلیں اور سیاسی پناہ گزینی پہ اکتفا کریں یا پھراپنے بیانیے کے لیے کوئی محفوظ راستہ نکالیں۔ زباں بندی سے تو مدفن ہوئے بیانیے کو زندہ کرنے کی معصومانہ سی لاحاصل پہ پانی پھر جاتا۔ البتہ سیاسی پناہ گیری کی کوئی راہ ماضی کی طرح نکالی جاسکتی تھی۔ گوکہ میاں نوازشریف اپنی ہٹ پہ قائم رہے اور مستقبل کی بارآوری کیلئے ماضی کے سازشیوں کو انجام تک پہنچانے پہ بظاہر مصر ہیں۔ کیونکہ شہباز حکومت کی ناکارہ کارکردگی اور سول اختیار پر شرمناک سمجھوتوں کے باعث ووٹ کی ذلت کا جو اہتمام کیا گیا تھا، اس پر میاں صاحب کیا خاک بیانیہ بناتے۔ گویا، بظاہر جو ”پیغام“ لے کر شہباز شریف بھاگم بھاگ لندن گئے، اُسے کیا واقعی بڑے میاں صاحب نے درخور اعتنا جانا یا پھر ”ووٹ کو عزت دو“ کی جھوٹی سچی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے ایک پھوکا مگر عوامی پذیرائی کیلئے ضروری فائر قرار دے کر معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی ہوگی۔ کچھ کہنا مشکل ہے۔ تیر پھر کمان سے نکل چکا اور احتساب کے شکنجے کسنے کی تیاریاں بھی تیز ہوچلی ہیں۔ اندر کی خبر تک پہنچ رکھنے والے محقق صحافی بھی اب کی بار خیر نہیں کے پروانے بڑے وثوق سے پیش کر کے سراسیمگی پھیلانے کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ بہرکیف، میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو لاہور آمد کا اعلان برقرار ہے۔ مطالبہ تو میاں صاحب کا آئینی بھی ہے، جمہوری بھی اور اخلاقی بھی، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بقول رانا ثنا اللہ اور زبیر صاحب عمران خان کی حکومت سے خلاصی کیلئے اسی جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دی گئی، جسکے ویسے ہی گناہ کیلئے قائد ن لیگ انکا کورٹ مارشل چاہتے ہیں جو کسی زی روح سویلین کے اختیار میں نہیں۔ کسی جیالے نے غضب کی یاد دہانی کرائی کہ پھر جو کارروائی جنرل کیانی اور انکے دست راست آئی ایس آئی چیف نے میموگیٹ کی صورت ڈالی تھی اور اسکی وکالت کو میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں پیش ہوگئے تھے، اسکا مواخذہ بھی تو کیا جائے۔ یوں اس گیریژن ریاست کی تاریخ کے تمام مارشلوں کو تاریخ کے کٹھہرے میں لانا ہوگا جسکی استطاعت ان غیر منظم، سمجھوتہ باز اور باہم جوتم بیزار سیاسی جماعتوں کے بس میں نہیں۔ گوکہ اسٹیٹ آف مارشل رُول کا اب کوئی مداح نہیں رہا، یہ مسلط رہنے پہ ابھی بھی مصر ہے۔ تاریخی حساب چکانے کیلئے انفرادی کرداروں کی پامالی کی بجائے بہتر ہے کہ ایک ٹرتھ اینڈ ری کونسیلیشن کمیشن کو یہ کام سونپ کر ثواب دارین حاصل کیا جائے۔ عین اسی وقت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کے بارے میں انہی کے فیصلے کے خلاف بڑی ہی مخاصمانہ ریویو اپیلیں ایک تین رکنی بنچ کے سامنے مقرر کردی گئی ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے عدالت اور عدالتی فیصلے کے خلاف بہت ہی جارحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے اسے مسلح افواج کی مٹی پلید کرنے اور ”دشمن کے مقاصد“ کی تکمیل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔ ریویو پٹیشن پہ فیصلے کو ٹھوس اور جامعہ اداراتی اصلاح احوال تک محدود کردیا جائے تو سلامتی کے اداروں کی پیشہ وارانہ صحت اور انسانی حقوق و آئینی پاسداری کیلئے اچھا شگون ہوگا۔
سویلین تاریخ کی ٹریجڈی کا طربیہ پہلو یہ ہے کہ اب ایک کے سوا سبھی انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ کا تقاضہ کررہے ہیں۔ ستم زدہ تحریک انصاف کی تو یہ ضرورت ہے ہی، اب پیپلزپارٹی بھی موزیکل چیئر گیم سے نکل کر اس کا تقاضہ کرتے ہوئے ن لیگ کی ریاستی پذیرائی پہ خوب ناک بھوں چڑا رہی ہے۔ اور بلاول بھٹو اپنے والد کی مفاہمت پسندی سے بندھے ہاتھوں کو کھولنے کی استدعا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہائے اس زدو پشیماں کا بے قرار ہونا۔ نوجوان اور باصلاحیت بلاول بھٹو اب خیر سے 35 برس کے ہوچلے ہیں اور اپنے تئیں خود مختار لیڈر بننے کیلئے انہیں شاید اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی روایت سے رجوع کرنا ہوگا جب محترمہ نے پیپلزپارٹی پہ اپنے اختیار کل کیلئے اپنی نہایت محترم والدہ کو چیئر پرسن کی شراکت سے فارغ کردیا تھا۔ آصف علی زرداری کو خود سوچنا چاہیے کہ بچہ جوان ہوگیا ہے اور بھٹوز چین سے بیٹھنے والے نہیں۔ دریں اثنا الیکشن کمیشن نے باقاعدہ انتخابی شیڈول کا اعلان کیے بغیر اگلے برس جنوری کے آخری ہفتے میں تمام انتخابات کے انعقاد کا محض عندیہ دیا ہے۔ حیرانگی ہے کہ حلقہ بندیوں کی 27 ستمبر کو اشاعت کے بعد، مزید دو ماہ الیکشن کمیشن کیا کرتا رہے گا۔ حلقہ بندیوں پہ اعتراضات اور ان پر ضلعی ریٹرننگ آفیسرز فیصلے 15 روز میں کرسکتے ہیں جو 13 اکتوبر تک حتمی طور پر جاری کی جاسکتی ہیں اور اسکے 54 روز بعد دسمبر کے آخری ہفتے میں انتخاب کرائے جاسکتے ہیں۔ اگر تو یہ التوا تحریک انصاف اور عمران خان کو سیاسی میدان سے ناک آﺅٹ کرانے کے لیے کیا جارہا ہے تو وہ اس قلیل عرصہ میں ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ نہ ہی اتنی پاپولر جماعت کو انتخابی عمل سے نکال کر یا اسکی شرکت مشکل بنا کر آپ انتخابات کی شفافیت کے تاثر کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ کسی دوسری جماعت کو پسندیدہ گھوڑا بنانے اور کنگز پارٹیوں کے خچروں کو سبک رفتار بنانے سے سارا انتخابی عمل اپنا تمام تر اخلاقی جواز کھو بیٹھے گا۔ اور سیاسی بحران حل ہونے کی بجائے اور گھمبیر ہوجائے گا۔ سارا نظام حکومت چلا تو سلامتی کے ادارے رہے ہیں جسکی پردہ پوشی کا تکلف بھی برقرار نہیں رکھا گیا، اوپر سے آپ پوری قوم کی تعظیم تقریب کے بھی متقاضی ہیں۔ تو یہ بیل منڈہ چڑھنے والی نہیں۔ کیئر ٹیکرز بھی دیکھ لیے ہیں، انہوں نے چیئر ٹیکر کیا بننا ہے۔ تیتر نہ بٹیر کا متضاد نظام چلنے سے رہا۔ دور کی کوڑیوں پہ سیاسی حکمت اور نظام سازی چلنے سے رہی۔ بہتر ہوگا کہ سیاسی مکالمے کا آغاز کیا جائے اور ایک وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ماحول بنایا جائے۔ سیاست کی بلا سیاستدانوں کے سر کی جائے اور انہیں بٹھایا جائے کہ وہ کسی میثاق سیاست و معیشت اور رولز آف دی گیم پر اتفاق کریں۔ جس ملک میں مہنگائی 38 فیصد سے زائد ہو 9 کروڑ پچاس لاکھ لوگ غربت کا شکار ہوں جو آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہیں اور کروڑوں نوجوان بیروزگاری اور تاریک مستقبل سے دوچار ہوں۔ جہاں اُمرا کھاﺅ پیو اور غریب کام کرو اور مرو کا تضاد منہ پھاڑے کھڑا ہو۔ وہ انقلاب فرانس طرز کی انارکی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ پورے کا پورا نظام انہدام (Implosion) کی جانب رواں ہے۔ ایسے میں کوئی قابل عمل راہ اصلاح پانے کی جستجو کے سوا کوئی چارا نہیں۔ لیکن کون کرے؟ کرے تو کچھ نیا، کچھ انقلابی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں