264

دہلی میں G20 اور بھارت کی سناتن دھرما انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

نئی دہلی کو بھاجپا کے رنگوں اور مورتیوں سے اربوں روپے خرچ کر کے خوب سجایا تو گیا لیکن غریبوں کی جھونپڑیاں مسمار کر کے ، کہ 9 اور 10 ستمبر کو G20 گروپ کا اٹھارواں چوٹی کا اجلاس منعقد ہورہاہے۔ ہر طرف وشوا گُرو یعنی عالمی گُرو بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کی تصاویر چھائی ہوئی ہیں۔ پہلی بار یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بھارتی صدر دروپدی مورمو نے بطور صدر بھارت (انڈیا نہیں) کے دعوت نامہ بھیجا تو جیسے پھر سے نظریاتی جنگ کی آگ پھیل گئی کہ ماڈرن انڈیا کو روایتی بھارتیہ میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندو روایت پسند دو صدیوں سے احیائے مذہب کی تحریک چلاتے آئے ہیں، جس کے پیشروو¿ں میں آریا سماج، رادھا سوامی اور رام کرشنا مشن شامل تھے۔ اصلاح پسندوں اور کٹر روایت پسندوں میں تقسیم پرانی رہی ہے ، جس طرح کے پروٹیسٹینٹس اور کیتھولکس ہیں اسکا اظہار کانگرسی رہنما گنگا دھرن تلک اور پھر راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) کی صورت میں سامنے آیا۔ آر ایس ایس نے پہلے تو ہندتوا کے نام پر بھارت کی قدیم تہذیبی بنیادوں کو بحال کر کے ایک دھرم، ایک زبان، ایک قوم کے نام پر تہذیبی احیا کے حوالے سے ہندو قوم پرستی (ہندتوا) کو فروغ دیا۔ یہ جماعت کلچرل ریوائیول کے ساتھ ساتھ فسطائی طرز سیاست کی حامل ہے جس کے نشانے پہ دیگر تمام مذہبی اقلیتیں ہیں خاص طور پر مسلمان جو بیرونی حملہ آوروں کی ہزار سالہ حکمرانی کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس سے منسلک بہت سی تنظیمیں اور تحریکیں ہیں جس میں سب سے بڑھ کر بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) ہے جو بابری مسجد کے انہدام اور اس کی جگہ رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے حوالے سے چلائی گئی فرقہ وارانہ سیاست کے زور پہ بھارت کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ بھارتی صدر کے دعوت نامے پہ خوب شور مچا ہے کہ انڈیا کیسے بھارت ہوگیا۔ حالانکہ بھارت کے آئین کی پہلی شق ہی میں لکھا ہے انڈیا یعنی بھارت (India that is Bharat) ریاستوں کی یونین ہوگا۔ انڈیا کا لفظ انڈس سے نکلا ہے جسے سنسکرت میں سندھو بھی کہا جاتا ہے جسے یونانیوں اور ایرانیوں نے انڈوز یا ہندوز کہا ہے یعنی وہ سرزمین جو دریائے سندھ کے مشرق میں ہے۔ لفظ ہندوستان بھی یونانی سائنسدان کے لفظ ہند سے نکلا ہے۔ لیکن آر ایس ایس کے رہنما موہن بھگوت نے لفظ انڈیا کو رد کرتے ہوئے ملک کا نام صرف بھارت قرار دینے پہ زور دیا ہے جس سے یہ بحث تیز ہوچلی ہے۔ آر ایس ایس ہند اور ہندوستان کو فارسی سے منسوب کرتے ہوئے بھارت پہ اصرار کررہی ہے کہ یہ ویدک قبیلے بھارتیہ سے جڑا ہے جس کا ذکر آریا ورت کی سلطنت کے بھارتیہ مہا بھارتہ حکمران کے حوالے سے ہے۔ کئی دہائیوں سے آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان کے شہروں، گلیوں، کوچوں، مسجدوں اور دیگر تاریخی مقامات کے ناموں کو سنسکرتی روایت کے مطابق بدلنے کی تحریک چلائے ہوئے ہے کہ بھارت کی اصل تہذیبی بنیاد کو بحال کیا جائے اور نو آبادیاتی و بیرونی حملہ آوروں کی نشانیوں کو مٹادیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے جید تاریخ دان کسی یک رخی تاریخ و تہذیب جیسے آریائی تہذیب وغیرہ کے تصورات کو رد کرتے ہیں جن میں پرمیلا تھاپر اور عرفان حبیب نمایاں ہیں۔ لگتا ہے کہ بغیر ایجنڈے کے بھارتی پارلیمنٹ کا جو مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے اس میں انڈیا بھارت ہوجائے گا، ایک سول کوڈ منظور کروایا جائے گا جس سے بڑا طوفان بپا ہونا ہے۔ لفظ بھارت پہ اصرار اس لئے بھی اسوقت کیا جارہا ہے کہ حزب اختلاف کی ڈیڑھ درجن سے زائد جماعتوں نے بی جے پی مخالف جو محاذ بنایا ہے، اس کا نام INDIA رکھا گیا ہے۔ گویا سیکولر اور مذہبی قوتوں میں مقابلہ بھارت بمقابلہ انڈیا ہوگا، یعنی جدیدیت اور قدامت پسندی کی جنگ اگلے انتخابات میں عروج پر ہوگی۔ اس پر جلتی کا کام تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ کے بیٹے سٹالن جونیئر نے کیا ہے جنہوں نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی سناتن دھرما یعنی سنسکرت میں ازلی دھرم کی انتہا پسند ہندو آئیڈیالوجی پہ سخت وار کردیا ہے جس پر پرانی ویدیں نکل آئی ہیں اور نور بشر کی بحث کی طرح خوب نظریاتی یدھ پڑگیا ہے۔
اس پس منظر میں بھارت میں G20 کا اجلاس بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑی داخلی لڑائی میں ایک بڑی ابھرتی طاقت کی منظر کشی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت ہی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ G20 کی اٹھارویں کانفرنس کا موٹو : ”ایک دھرتی، ایک خاندان اور ایک مستقبل“ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نعرے ”انسانیت کے مشترکہ مقدر کی (عالمی) برادری جسکا مستقبل سانجھہ ہو“۔ کے ہم معنی ہے۔ کبھی وقت تھا کہ ”ہندی چینی بھائی“ کا چرچا تھا، اب وقت ہے کہ بھارت اور چین ہمسائے ہوتے ہوئے متحارب کیمپوں کا حصہ بن گئے ہیں، حالانکہ دونوں جنوب کے ترقی پذیر ممالک کی ترقی یافتہ شمال کے ممالک کے مالیاتی و نوآبادیاتی استحصال کے خلاف جدوجہد کے بڑے داعی ہیں۔ اس کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نے ہندوستان (انڈیا) کو فرقہ وارانہ بنیا دپر تقسیم کرتے (جو 1947 کی مذہبی بنیاد پر تقسیم کا ہی تسلسل ہے) ہوئے عالمی سطح پر شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کی تقسیم کو پاٹنے کا ذمہ لیتے ہوئے خود کو ”عالمی گُرو“ کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ ہے ظالم سیاست کی شاطرانہ قلابازیاں۔ سوشل میڈیا پہ خوب بحث چل رہی ہے اور مجھ پر ہندوتوا کے حامی خوب ترشول برسارہے ہیں تو پاکستانیوں کی ضد کا اظہار کرتے ہوئے میں نے مزاحاً پھبتی کسی کہ اگر انڈیا بھارت میں بدل سکتا ہے (جسے پاکستان میں بھارت کہنا پسند کیا جاتا ہے) تو پاکستان میں اینٹی انڈیا قوم پرستی کا تقاضہ بن سکتا ہے کہ پاکستان ریپبلک آف انڈس کہلائے جس پر خوب قہقہے گونج رہے ہیں۔ حالانکہ میری آخری خواہش یہی ہے کہ پاکستان ایک غیر مذہبی وفاقی جمہوریہ بنے جو وادی سندھ کی تہذیب کی امین ہو۔
G20 میں یقینا بھارت ایک بڑی ابھرتی ایشیائی طاقت بن کر عالمی اسٹیج پر نمودار ہوا ہے۔ اب پاکستان و بھارت میں تاریخی مقابلہ تاریخ کا بھولا بھٹکا خواب ہوچکا۔ لیکن بھارت اور چین میں جاری کھٹ پٹ سے جنوب کے ترقی پذیر ممالک کی آشاﺅں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پیرس اعلان نامے میں ماحولیات کو بچانے کیلئے جو عہد و پیماں کیے گئے تھے، وہ سب بھلا دئیے گئے ہیں اور انسان اور کرہ ارض کاربن کے اخراج اور بڑھتی تپش کے ہاتھوں تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ نئی دہلی کی چوٹی کی ملاقات سے صدر ژی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی غیر حاضری سے اس کی کامیابی پہ اوس پڑگئی ہے۔ گوکہ مغرب کی غیر مساویانہ عالمی سرمایہ دارانہ اجارہ داری کے خلاف جنوب کے ممالک متبادل عالمی نظام کیلئے کوشاں ہیں۔ اب پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ ازلی دشمنی کے نظریہ سے دستبردار ہونا ہوگا اور اپنی عوام کی معاشی بقا کیلئے امن پسندی، علاقائی تعاون، تجارت اور علاقائی باہمی سرمایہ کاری کی جانب بڑھنا ہوگا۔
اسلحوں کو خیر باد کہیے! تجارت کو خوش آمدید!(Farewell to Arms)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں