83

تیرگی میں اُمید سحر کی بات انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

آج لاہور میں فیض امن میلہ کا انعقاد باغ جناح کے سکون اور ماحول میں منعقد ہورہا ہے۔ ترقی پسند دوستوں نے بلا کی معاشی تباہ حالیوں اور سیاسی بے یقینیوں کے ماحول میں سر پھروں کی محفل سجائی بھی ہے تو فیض ہی کے ایک مصرے پہ بحر کی بات امید سحر کی بات سنو! ایسی رجائیت اور اتنے مخدوش حالات میں ؟ داد دیئے بغیر نہیں رہا جاتا۔ ہمارے احمد شاہ نے بھی الحمرا میں پاکستان لٹریری فیسٹیول کا ہنگامہ بپا کیا ہوا ہے۔ اور آئندہ ہفتے ہماری سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی بھی 19-17 فروری کو فیض فیسٹیول کا اہتمام کر کے فیض احمد فیض کی یادیں تازہ کرنے جارہی ہیں۔ لگتا ہے جیسے کلچرل ولٹریری لاہور کو زمان پارک میں بیٹھے مشتعل خان کی سیاسی دھما چوکڑیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ ویسے بھی لاہور میں رات گئے تک تکہ کہاب کی بے پناہ محفلوں سے لگتا نہیں کہ ملک ڈیفالٹ کی نذر ہے، یا پھر یہ کہ مہنگائی 34 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ گو کہ سراسیمگی، بے یقینی ، قیاس آرائیوں اور تاریکی میں ڈوبے مستقبل کے حوالے سے کوئی اُمید کی کرن کہیں سے پھوٹتی نظر نہیں آرہی۔ پھر بھی لگتا ہے کہ اسی عطار کے لونڈے سے درد کی دوا پانے کے وسیلہ کے بالآخر ملنے کے آثار نمایاں ہوئے تو ہیں۔ جو نسخہ کیمیا نومبر میں مل جانا چاہیے تھا، اُسے وہ چار ماہ کے بلا وجہ توقف سے کڑوے گھونٹ کے طور پر پینا پڑا رہا ہے۔ یہی نسخہ عمران خان کی حکومت میں دوبار جاری نہ رکھا جاسکا اور پھر اسحاق ڈار نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح سے دوست ممالک کی فیاضی سے توازن ادا ئیگی کو سنبھال کر آئی ایم ایف کے ساتھ آسان شرائط پر معاہدہ ہو، لیکن ان کی چالا کی ن لیگ کی سیاسی ساکھ بچانے کے کام نہ آسکی اور وہ لاچار ہو کر آئی ایم ایف سے معانقہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ایسے میں جب ساری اشرافیہ، میڈیا اور معیشت دان آئی ایم ایف کے کرم خوردہ مالی نسخوں کی رطب اللسانی میں تمام حدیں کراس کر گئے تو بچارے ڈار کا ڈالر کی بے پر کی اڑان نے خوب تمسخر اڑایا۔ عمران خان کی بھر پور سیاسی افراتفری سے ڈیفالٹ یقینی تھا اور میڈیا کے پاس نادھندگی کی سراسیمگی پھیلانے کے علاوہ کوئی مقبول کہانی نہ تھی۔ لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے کوئی ایسی بری ڈیل بھی نہیں کی۔ دنیا بھر سے بھی سیلاب زدہ پاکستان میں غریبوں پر مزید بوجھ نہ ڈالنے کی دہائی دی جا رہی تھی لہذا بات 170 ارب کے نئے ٹیکسوں ، مراعات یافتہ طبقات کو دی گئی کچھ چھوٹوں کے خاتمے اور توانائی کے شعبے میں جاری مفت خوری اور چوری چکاری کو مزید بڑھنے سے روکنے پہ ختم ہوگئی اور صارفین کو بجلی کی قیمتوں پر مزید 237 ارب ادا کرنے ہوں گے اور 300 یونٹ تک کے صارفین کی بچت ہو گئی ہے۔ لیکن بار بار معاہدے توڑنے والے ملک یہ اعتبار کرے تو کیوں کرے۔آئی ایم ایف نے پہلے عمل کرو پھر رقم لو کے مصداق کوئی راہ فرار نہیں چھوڑی۔ بدترین حالات میں یہ معاہدہ وقتی استحکام کا باعث تو بنے گا، لیکن ہماری از لی بیماریوں کا تریاق نہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ قرضوں کو ری شیڈ ول کروائے بنا اگلے پانچ برس میں مالی و مالیاتی احکام کیسے آئے گا۔ اگلے پانچ برس پاکستان کو ہر سال 25 ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی اور دس ارب ڈالرز بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔ اگر قرضوں کا بار ایسے ہی رہا تو کسی طرح کی کوئی حکومت چل نہیں پائے گی۔ جانے کیوں ڈار صاحب کس زعم میں قرضوں کو ری شیڈول کروانے کی طرف راغب نہیں ہورہے؟ اس کے سوا چارا نہیں۔ قرضوں کا التوا ہو بھی جائے تو بھی یہ دست نگر، کرایہ خور اور مفت خور معیشت اور ریاست چلنے والی نہیں۔ پاکستان کی جتنی آمدنی ہے اس سے آدھے خرچے پر چلنے والی ریاست چاہیے۔ اشرافیہ، سول و ملٹری و جوڈیشل بیوروکریسی کے رہن سہن، مراعات و مفادات کو دیکھتے ہوئے ، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک دیوالیہ اور خستہ خال ملک کے حکمران ہیں۔ ایسے اللے تللے تو ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کے نصیب میں بھی نہیں ہیں۔ ملک بھر میں تیزی سے پھیلتی ہوئی جدید ترین ہاؤسنگ سوسائٹیز اور درآمدی لگژری گڈز سے بھرے اسٹورز اور سڑکوں پر دوڑتی مہنگی ترین گاڑیوں کی ریل پیل دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں چالیس فیصد بچے جسمانی و دینی نشونما سے محروم ہیں اور جس ملک کے خزانے میں صرف مانگے تانگے کا زرمبادلہ ہو۔ ایسے میں کفایت شعاری کی کمیٹی نے بڑا تیر مارا ہے تو اخراجات و مراعات میں 15 فیصد کمی کا۔ ریاست اور اس کے کالے صاحبوں کے مصارف میں کم از کم 50 فیصد کٹوتی کیوں نہیں کی جاتی اور ایک پلاٹ کی رعایت بھی کیوں برقرار رکھی جارہی ہے جبکہ دو پلاٹوں کے دفاع میں حکومت اپیل میں جاچکی ہے اور ہمارے پنجاب سپیڈ والے وزیر اعظم کی کابینہ شرمناک طور پر وسیع ہو کر 84 اراکین کا ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ بیورو کریٹس کو حال ہی میں 150 فیصد تک اضافی الاؤنس کا اعلان کسی برتے یہ کیا گیا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو جو گنوا ہیں اور مراعات ہیں وہ تیسری دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہیں۔ اسی طرح پاک افواج دنیا کی سب سے مراعات یافتہ سپاہ کیوں ہیں اور ان کے افسران کروڑوں اور اربوں روپے کے وظائف کس مال غنیمہ سے حاصل کر رہے ہیں۔ ایک غریب ملک کی ایسی عیاش ریاست دنیا میں کہیں نہیں ۔ ہماری زمیندار اشرافیہ کو دیکھ لیں۔ مراعات ہی مراعات اور ہر طرح کی استعیات ۔ رہے سرمایہ دار جو ہر وقت تحفظات ورعایات کے مطالبات کرتے رہتے ہیں لیکن معیشت کو تو انا بنانے اور ملک کو دست نگری سے نکالنے کے لیے کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔ ذرا تاجر برادری سے بھی ٹیکس لے کر دکھائیں اور معیشت کو دستاویزاتی بنانے کا جتن تو کر کے دیکھیں، پھر دیکھیے شوکت اسلام کے کتنے جلوس نکلتے ہیں۔ نظام تعلیم فارغ ہے اور اس سے تحصیل یافتہ ٹیم پڑھے لکھے اور بے ہنر نوجوانوں کی فوج بوگس ڈگریاں تھامے دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔ صحت و انسانی سلامتی اور روزگار کے مواقع ہماری قومی اولیوں میں کہیں نظر نہیں آئے ۔ جو ملک چلتا ہی رہا ہو بیرونی ایڈ کے سہارے، وہ اپنے پاؤں میں کھڑا ہو تو کیسے۔ اس معاشی ابتلا میں کسی نے سوچا ہو یا کہا ہو کہ بھئی افراط زر اور مہنگائی کے ہاتھوں جو بدحالی آئی ہے اور محنت کشوں اور متوسط طبقوں کی جتنی قوت خرید کم ہوئی ہے، اس کے تناسب سے اجرتیں بھی بڑھائی جائیں ؟ گزشتہ دس برسوں میں قوت خرید کم از کم تین گنا کم ہوئی ہے، جبکہ اجرتوں اور تنخواہوں میں حقیقی اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج کے حالات میں 50 ہزار روپے کم از کم اجرت بھی نا کافی ہے۔ اس پر غریبوں کی جھوٹی دہائی دیتی پارٹیاں کیوں منہ نہیں کھولتیں۔ بھلے تبدیلی والے ہوں یا پھر ”ووٹ کو عزت دینے والے یا پھر ” طاقت کا سرچشمہ عوام والے سبھی نے سفاکانہ طریقے سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ بس مافیاز اور اشرافیہ کا قبضہ ہے اور امرا کی مشکلوں کے حل کے لیے تمام تر ذرائع استعمال ہورہے ہیں۔ اوپر سے سیاسی بحران ہے کہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ انتخابات ہونے ہیں، کب ہونے ہیں کیسے ہوتے ہیں مخالفین ساتھ بیٹھنے پر راضی نہیں۔عدالتیں ہیں جو انصاف دینے کی بجائے ہر طرح کے انتظامی و سیاسی و پارلیمانی امور میں مداخلت پر تلی بیٹھی ہیں، جبکہ ہائبرڈ نظام کے مصنفین اپنی غیر آئینی دراندازیوں کے زخم چاٹ رہے ہیں۔ نہ جانے یہ بیہودہ تماشہ کب اور کیسے ختم ہوگا؟ ان حالات میں فیض امن میلہ منعقد کرنے والوں کو داد دینی چاہیے کہ وہ ابھی بھی امید سحر کی بات کر رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں