258

لطیف لالہ اور خالد چوہدری کا رزمیہ انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

حشر کا ہفتہ تھا! پچاس برس کی انقلابی جدوجہد کا ساتھ ٹوٹ گیا۔ ایک نہایت دیرینہ ساتھی خواجہ احسان جنرل ضیا الحق کے مارشل لاءمیں ترک وطن پہ مجبور ہوئے اور پھر واپس نہ آپائے۔ اسی ہفتے ساتھی عبدالطیف آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کے بار روم میں قتل کروادیا گیا اور لاہور میں صحافیوں کے لیڈر خالد چوہدری داغ مفارقت دے گئے۔ ان کی رحلتوں نے قلب و روح کو تڑپا دیا ہے اور اُن سے وابستہ یادوں کے رزمیوں کی اندوہناک یادیں ہیں کے اُمڈتی چلی آرہی ہیں۔ غالباً افضل بنگش کے بعد خیبرپختونخوا میں لطیف لالہ سے زیادہ بائیں بازو کا کوئی مقبول رہنما نہ تھا اور خالد چوہدری ایوب اور ضیا کی آمریتوں سے لڑنے والے اُن نوجوانوں میں سے تھے جنہوں نے ظلمت کدوں میں حریت کے چراغ روشن کیے تھے۔ وہ سماج وادی اور مارکسی تھے۔ ان کے ہیرو چے گویرا، فدل کاسترو، ماو± اورہوچی منہ تھے۔ دونوں کی جدوجہد ایک روشن خیال، استحصال و آمریت سے پاک عوامی جمہوریہ کے لیے تھی اور ان کی مخاصمت ایک جدید نوآبادیاتی آمرانہ مقتدرہ سے تھی۔ ایک پختون تھا اور دوسرا پنجابی لیکن نظریہ حیات اور مقصد ایک ہی تھا۔ ان دونوں انقلابیوں کو میں 1968 کے عوامی ابھار کے دنوں سے جانتا ہوں اور ہم شریک سفر رہے۔ چھٹی دہائی کے عوامی ریلے نے کیسے کیسے انقلابی، گوں نہ گوں مزاحمتی مورچے، مفکر، دانشور، ادیب، فنکار اور بے لوث نظریاتی کارکن پیدا کیے۔ یہ سب تاریخ کے جوار بھاٹے کا کمال تھا اور دنیا بھر میں چلنے والی آزادی اور سوشلزم کی تحریکوں کا ثمر۔ جس نے ایسے ایسے عجوبہ روزگار لوگ پیدا کیے، جنہوں نے گھر بار تج دئیے، جان ہتھیلی پہ رکھ کر تاریک راہوں پہ چل نکلے، موت کا ڈر نہ ذات کا مفاد بس سماجی کایا پلٹ کی دھن۔ بقول فیض: یہ کون سخی ہیں، جن کے لہو کی، اشرفیاں چھن چھن چھن چھن، دھرتی کے پیہم پیا سے، کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں، کشکول کو بھرتی جاتی ہیں۔
ایوبی آمریت کے خلاف نوجوانوں کی جدوجہد میں لاہور میں خالد چوہدری، کراچی میں معراج محمد خان، پشاور میں لطیف آفریدی، حیدر آباد میں رسول بخش پلیجو، کوئٹہ میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور جانے کتنے سڑکوں پر نکلے تھے اور ہر طرف ایشیا سرخ ہے اور سوشلزم کے نعرے گونج رہے تھے۔ ایوب آمریت کو جانا پڑا اور بقول منیر نیازی: اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا۔ ایوب خان کی جگہ جنرل یحییٰ خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر مسلط ہوگئے۔ انتخابات ہوئے اور ملک کے دونوں بازوﺅں میں ترقی پسند، سیکولر اور قوم پرست جماعتیں کامیاب ہوئیں لیکن نصیب میں آئی تاریخ کی بدترین فوج کشی اور اجر میں ملی بنگلہ دیش کی آزادی اور مغربی پاکستان میں 1973 کے آئین کی جمہوریہ۔ بایاں بازو مشرقی پاکستان میں قربان ہوا تو مغربی پاکستان میں بھی جمہوریہ کے قیام کے کام آیا۔ ہم سب نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی مخالفت کی اور یحییٰ خان کی آمریت کا نشانہ بنے۔ پھر بھٹو صاحب کا پاپولسٹ دور آیا، لوگوں نے سمجھا کہ بس انقلاب آگیا ہے، مزدوروں نے فیکٹریوں پہ قبضے کرلیے اور کسانوں نے بیگار سے انکار کردیا کچی پکی اصلاحات ہوئیں اور آخر میں خون میں لتھڑی ہوئی شام۔ جن انقلابیوں نے بھٹو کے لبرل لیفٹ پاپولزم کو کندھا دیا تھا، سب کے سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ پیپلزپارٹی اور نیپ میں جھگڑا کیا ہوا کہ مستقبل کی جنرل ضیا الحق کی وحشیانہ آمریت کے لیے قومی اتحاد کی ”نظام مصطفےٰ“ کی دائیں بازو کی تحریک نے راہ ہموار کردی۔ بقول غوث بخش بزنجو قوم پرست (نیپ)جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی فوج کی گود میں چلی گئی۔ بھٹو صاحب کابائیں بازو اور قوم پرستوں سے جھگڑہ جمہوریہ کے زوال کا باعث بنا۔ اور جب ضیا الحق کا مارشل لاطویل تر ہوا تو یہ بائیں بازو کے کارکن اور پیپلزپارٹی کے جیالے تھے جو بہادری سے ظلم و استبداد کے خلاف کھڑے ہوئے۔ جن میں مرتضیٰ بھٹو، لطیف آفریدی، خالد چوہدری، نذیر عباسی اور طوطی جیسے انقلابی ڈٹ کر لڑے اور تحریک بحالی جمہوریت (MRD) کی قیادت بیگم نصرت بھٹو ، بے نظیر بھٹو، غوث بخش بزنجو، نوابزادہ نصراللہ خان، رسول بخش پلیجو اور معراج محمد خان نے سنبھالی۔ مجھے وہ دن نہیں بھولتا جب میں وارسک کے عقوبت خانے سے چھ ماہ کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور جیل کی ڈیوڈھی میں پہنچا تو لحیم شحیم لطیف آفریدی میری حالت اور میرا مسخ شدہ حلیہ دیکھ کر روپڑے تھے اور مجھے ایک زندہ لاش کے طور پر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنی بیرک میں لے گئے تھے، گرم پانی سے نہلا کر، جمی ہوئی میل، اور لمبے ناخنوں کو ترشوا کر میرے اوسان بحال کرنے میں لگ گئے تھے، مجھے لگا کہ جیسے میں اپنی ماں کی گود میں آگیا ہوں۔ پھر پانچ برس کی طویل جیل اور لطیف لالہ کی مہربانیاں اور جیل کا ساتھ جہاں مولانا فضل الرحمن ہمارے رفیق خاص رہے۔اُدھر پنجاب میں اک حشر بپا تھا اور خالد چوہدری جیسے انقلابی میدان کارزار میں تھے۔ خالد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ کو بم سے اُڑانے کی سازش میں گرفتار کیا گیا تھا اور ہمارے دیرینہ رفیق اعتزاز احسن جب ان کی وکالت کے لیے مولوی مشتاق کی عدالت میں پیش ہوئے تو مولوی صاحب نے خالد کی فائل اٹھا کر پھینک دی تھی۔ ان کے بھائی ساحر رشید اور بیگم الزبتھ انکی رہائی کے لیے مارے مارے پھرتے رہے۔ خالد چوہدری پی ایف یو جے کے رہنماﺅں منہاج برنا، نثار عثمانی اور حسین نقی کے ہمراہ آزادی صحافت کے لیے صف آرا ہوگئے۔ سافما میں خالد چوہدری کا ہروقت ساتھ رہا اور جب ہم 2004 میں کشمیر کے دورے پر گئے تو خالد نے اسی دورے کے حوالے سے بہت کالم لکھے جو کتاب کی صورت میں شائع بھی ہوئے۔
لطیف آفریدی شروع ہی سے جمہوری تحریک میں متحرک ہوگئے تھے اور فاطمہ جناح کی انتخابی مہم سے جنرل ضیا کی آمریت اور پھر قبائلی عوام کے حقوق اور مزدوروں کسانوں کی جدوجہد کے ہر اول دستے میں شامل رہے۔ جب قبائل کو حق بالغ رائے دہی ملا وہ خیبر سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ،اے این پی اور قومی انقلابی پارٹی کے بانیوں میں شامل تھے۔ دہشت گردی اور طالبانائزیشن کے خلاف وہ پختونوں کی سب سے زوردار آواز بنے اور پشتون تحفظ موومنٹ ہویا مسنگ پرسنز یا پشاور کے سکول کے بچوں کے لواحقین سب اُن کی داد رسی کے طلبگار رہے۔ قانونی محاذ پر وہ انسانی حقوق اور اقلیتوں و خواتین کے حقوق کے لیے پختونوں میں سب سے توانا آواز بنے۔ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی کے صدر بھی بنے۔ مجھے یاد ہے جب اسلام آباد میں وکلا کا کنونشن منعقد ہوا تو انہوں نے مجھے اس کا اعلامیہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اسی کنونشن نے جو قرار دادیں پاس کیں وہ پاکستان کے جمہوری اور فاقی مستقبل کی ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتی ہیں جن کی تمام سیاسی جماعتوں کو تائید کرنی چاہیے۔ خالد چوہدری تو اچانک وفات پاگئے، لیکن لالہ لطیف کو ایک سازش کے تحت قتل کروایا گیا ہے۔ ان کا کسی خاندانی قبائلی خون خرابے سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا، وہ ایک امن دوست نیک شخصیت تھے۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ آفریدی قبیلے میں جاری قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے سیشن جج آفتاب آفریدی اور لطیف آفریدی کو مصالحت کنندہ مقرر کیا گیا اور انہی دونوں کو مار دیا گیا۔ اور جس سمیع اللہ آفریدی نے لطیف لالہ کو قتل کیا اس کے ڈانڈے مبینہ طور پر نادیدہ قوتوں سے ملے ہیں۔ لطیف لالہ کی آخری تقریر پھر سے تحریک طالبان پاکستان کو واپس لانے اور دہشت گردی کا بازار پھر گرم کرنے کے خلاف تھی اور پختونخوا میں جاری امن تحریک کے وہ روح رواں تھے۔ ایک عرصہ سے وہ دہشت گردوں کے نشانہ یہ تھے اور بالآخر شہادت ان کا مقدر ٹھہری۔
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں