116

سلامتی اور کنگالی انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

سلامتی اور کنگالی (Security and Bankruptcy) کا اضدادِ مجموعہ بن کے رہ گیا ہے میرا پاکستان۔ اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے کہ سلامتی سنبھلی ہے، نہ کنگالی!! وہی سیاسی قیادت ، وہی سلامتی کے رکھوالے، وہی مستقل بحران، وہی بوسیدہ معاشی و تذویراتی نظریات اور وہی کرم خوردہ اعلانات۔ ایسے میں کسی بڑی یا چھوٹی تبدیلی کی اُمید ماحولیاتی کثافت کی نذر۔ اب تو سوال یہ ہے کہ سلامتی رکھنی ہے یا کنگالی بڑھانی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ سلامتی بڑھے گی تو کنگالی بڑھے گی اور کال بڑھے گا تو کونسی سلامتی اور کس کی سلامتی؟ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ سلامتی سلامتی کرتے، سلامتی میسر آئی نہ کنگالی سے جان چھوٹی۔ بڑے کروفر سے ”نئی سلامتی پالیسی“ کا اعلان کیا گیا تھا کہ معاشی سلامتی کا سوال ہی بنیادی ہے، لیکن اس کے تذویراتی پہلو کو حربی سلامتی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا اور ”قومی سلامتی کی ریاست“ کے تقاضے برقرار رہے۔ بھلا، سیاسی معیشت کی صفتی تبدیلی کے بغیر معاشی پہیہ کیوں چلنا تھا؟ اُلٹا مشرقی محاذ کے مستقل خطرے کے ساتھ ساتھ شمال مغربی محاذ اب اُ س سے بھی بڑا خطرہ بن کے 40 سالہ جہادی پالیسی کے گناہوں کے اجر کا طلبگار ہے۔ طالبان کی استعمار کے خلاف کامیابی کا ملبہ کوئی اٹھائے تو کیسے جب اپنا ہی تاریخی ملبہ بہت ہے۔ کوئی ہے مائی کا لال جو ان ملبوں کا ڈھیر اُٹھائے اور عوام الناس کی تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لائے۔ غالباً یہ سوشل سائنس کسی یونیورسٹی یا ملٹری اکادمی میں نہیں پڑھائی جاتی۔ لیکن قومی سلامتی کمیٹی میں کوئی ایک سیاسی معیشت کا ماہر نہیں اور جو معیشت دان ہیں، ان کے پاس آزاد منڈی کے نیولبرل نسخے اور اُمرا کے قبضے کو برقرار رکھنے کے کرم خوردہ نسخوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور نسخے یاد آتے بھی ہیں تو ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے۔ اُن کے پاس جو ٹونے ٹوٹکے تھے، کیا وہ آزما نہیں چکے۔ اصل سوالوں پہ آتے ان کا دم ٹوٹتا ہے۔ کسی میں جرا¿ت ہے جو کہے کہ یہ سسٹم چلنے والا نہیں اور اس کا کوئی حل بھی نہیں، تاآنکہ آپ بیماری کی علامات کی بجائے بیماری کی وجہ تلاش کر کے، اسے دور کرنے کے لیے پہلے اپنے طبقاتی اور اداراتی مفادات کو ترک کرنے کا ارادہ باندھیں۔ لیکن کوئی اپنے پاﺅں پہ کلہاڑہ مارے تو کیوں؟ کیسے تو بعد میں آتا ہے۔
ہے کوئی سیاسی معیشت دان جو قومی سلامتی کی کمیٹی کو وارن کرے کہ ایک نحیف و دست نگر معیشت کی غیر پیداواری بنیاد پر آپ اتنا ہیوی ریاستی سپر سٹرکچر نہیں کھڑا کرسکتے۔ اس بھاری بھرکم ریاستی ڈھانچے کے بوجھ کو قابل برداشت حد تک کم کرنے کی سعی مستفدین کریں تو کیوں کر؟ کیا تمام ادارے اپنے اخراجات پچاس فیصد کم کرنے پہ تیار ہیں اور کیا ریاستی افسر شاہی اور ان کے کشٹم پشٹم ڈھانچے نصف کیے جاسکتے ہیں؟ کیا محکمہ دفاع کا بجٹ آدھا کیا جاسکتا ہے اور وفاق کے وہ تمام محکمے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس چلے گئے فی الفور بند کیے جاسکتے ہیں؟ کیا پبلک سیکٹر کارپوریشنز کو زیرو میٹر پر نہیں لایا جاسکتا؟ کیا اُمرا کو دی گئی کھربوں روپے کی مراعات و رعایات بیک جنبش قلم واپس نہیں لی جاسکتیں؟ کیا غیر پیداواری اخراجات کے لیے قرضوں پہ بندش نہیں لگ سکتی۔ کیا تمام آمدنیوں پہ اور خاص طور پر اُمرا اور زمینداروں پہ ٹیکس نہیں لگ سکتا۔ کیا ہر طرح کی مافیاز کا غلبہ ختم نہیں کیا جاسکتا؟ کیا وفاقی اکائیاں خود مختار معاشی نمو کے ذریعہ وفاق کو سبسیڈائز نہیں کرسکتیں؟ کیا پاکستان کی نوجوان آبادی کو کارآمد بنانے کے لیے تعلیم و تربیت اور انسانی ترقی کے لوازمات سے مسلح نہیں کیا جاسکتا۔ کیا دیہات کی غریب آبادی اور شہروں کی کچی آبادیوں کو ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں لایا جاسکتا؟۔یہ سب کچھ ہوسکتا ہے بشرطیکہ ریاست کی موجودہ سماجی ساخت کو بدلا جائے۔ سماجی کایا پلٹ کی جائے۔ لیکن اس کی اُمید کم از کم قومی سلامتی کی کمیٹی سے نہیں کی جاسکتی نہ باہر بیٹھی تحریک طفلاں سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔
اسوقت علامات کے حل کی بات کی جارہی ہے۔ اندرونی و بیرونی خسارے، مالیاتی ڈیفالٹ، افراط زر اور معاشی تنزلی (Stagflation) کی فوری روک تھام کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کی مالیاتی مجبوری۔ عارضی بندوبست تو نکل آئے گا، لیکن مستقل عارضہ برقرار رہے گا۔ مستقل عارضے کے علاج کے لیے تو درمیانی اور دور مدتی پالیسیاں اور منصوبہ بندی درکار ہوگی۔ عیش و عشرت کی ہاﺅسنگ سوسائٹیز کا پاکستان، غربت کے سمندر میں نہیں ٹھہرسکتا۔ ایک غریب و پسماندہ ملک میں یہ لائف سٹائل نہیں چل سکتا۔ پھر ترقی کا یہ تصور کے پسماندہ پاکستان امریکہ کی آگو ریاست کے نقش قدم پہ چل سکتا ہے، نہ ہونا تھا، نہ ہوپایا۔ جہادی اسلام کا جنازہ ہم افغانستان میں دیکھ چکے، سیاسی اسلام کا تجربہ مصر میں ناکام ہوچکا اور اب ایران میں بند گلی میں پہنچ چکا۔ اور قوم ہے کہ جانے کس سراب کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھارہی ہے اور جدید دنیا کے سائنسی و مادی تقاضوں سے منہ موڑے بیٹھی ہے۔
سب کچھ بدلنے کے لیے، آغاز تو کرنا ہوگا، اس سے پہلے کہ آغاز کے لیے زمین پاﺅں تلے سے کھسک جائے ۔ سب سے پہلے سکیورٹی پیراڈائم اور معاشی ماڈل کو بدلنا ہوگا۔ اگر معاشی سلامتی کے اثاثی نظریہ کو مان لیا جائے تو خطے اور دنیا میں اپنے تعلقات کو تجارتی مفادات سے منسلک کرتے ہوئے مشرقی سرحد کو تجارتی شاہراہ بناتے ہوئے، شمالی مغربی سرحد پر دہشتگردی کی روک تھام کے لیے بندوبست کرتے ہوئے، ایران اور وسطیٰ اشیا کے ساتھ تجارتی شاہراہوں کو فروغ دینا ہوگا۔ چین کے ساتھ تجارتی، صنعتی، سائنسی اور تکنیکی تعلقات کو اپنی قومی ضرورتوں کے ناطے فروغ دینا ہوگا۔ چین کے عوامی ترقی کے ماڈل کو اپنانے میں کیا قباحت ہے جو ہماری بے ہنر نوجوان نسل کو بار آورکاموں پہ لگادے۔ رہی قرضوں کے جال سے خلاصی، تو پہلے ان پر روک لگائی جائے اور بعدازاں رفتہ رفتہ اس چنگل سے جان چھڑائی جائے۔ توانائی اور غذائی درآمدات میں کفالت اور خود انحصاری یا پائیداری کے حصول کے ساتھ ساتھ برآمدات کی بڑھوتری کے لیے اکانومی کے سٹرکچر کو وسیع کرنا اور سکیل کو بڑھانا ہوگا۔ سوشل سیکٹرز، تعلیم و صحت اور انسانی وسائل کی ترقی پہ بنیادی زور دیتے ہوئے، قومی ترقی کو مہمیز لگانی ہوگی اور بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ رہے سلامتی کے فوری سوال: طالبان کو ہر قیمت پر روکنا ہوگا، بلوچستان میں جاری خلفشار کا فوجی کی بجائے سیاسی حل کے سوا کوئی چارا نہیں۔ کیوں نہ بلوچ قیادت کو قومی سلامتی کے اجلاس میں بلا کر ان کا مقدمہ سنا جائے اور ایک پائیدار حل تلاش کیا جائے۔ جو دائمی سلامتی کے ایشوز ہیں جیسے کشمیر اُنہیں کسی مناسب وقت پر کسی عملی حل کے لیے اٹھا رکھنا چاہیے۔ ہمارا مستقبل دنیا کی بڑی معیشت بننے جارہے چین اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بھارت سے وابستہ ہے۔ پاکستان کا بھارت سے مقابلہ نہیں بنتا، جس طرح بھارت چین سے نہیں جیت سکتا۔ اگر ہم چین اور امریکہ سے بیک وقت تعلقات کی سفارت کاری کرسکتے ہیں تو چین اور بھارت سے بیک وقت مثبت تعلقات کیوں نہیں بڑھاسکتے۔ ملک میں امن اور خطے میں تعاون ہی پاکستان کی ضرورت ہے۔جو جنگیں جیتی نہیں جاسکتیں انہیں ہارنے کی بجائے ملتوی کرنا اچھا ہے۔ پہلے جینے اور بچ نکلنے کی راہ نکالیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں