121

خونیں 16 دسمبر انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

آج 16 دسمبر ہے جب سقوط ڈھاکہ ہوا اور جب پشاور میں معصوم نونہالوں کے بہیمانہ قتل پر قلم دل و دماغ پہ چھائے غم و غصہ کی گرفت میں ہے۔ 51 برس بیت گئے جب مشرقی پاکستان میں بنگالی بھائیوں کی نسل کُشی کی گئی جو تاریخ میں (25 مارچ تا 16 دسمبر 1971) بدترین قتل عام کے طور پر جانی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کا بہیمانہ قتل (تین لاکھ تا تیس لاکھ) اور عورتوں کا ریپ (دو لاکھ تا چار لاکھ) انسانیت کے ضمیر پہ بوجھ تو ہے، لیکن قاتلوں کے دلوں میں زرہ بھر احساس گناہ نہیں جسے چھپانے کے لیے کبھی بیرونی سازش، کبھی شرابی جرنیل کی بدمستی اور کبھی سیاستدانوں کی ناکامی تو کبھی بھارت کی دیرینہ دشمنی کے تانے بانے۔ کیا قومیں اپنے گناہوں کا اعتراف کیے بنا اور اصلاح و اسباق بنا اپنے ناقابل معافی ماضی سے خلاصی پاسکتی ہیں۔ اور تو اور قاتلوں نے شکرانہ ادا کیا کہ ”بھوکے بنگال“ سے جان چھوٹی۔ اور تاریخ کا ایک تازیانہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش اپنی قومی آزادی کی جنگ جیت کر معاشی و سماجی اور انسانی پیمانوں پہ پاکستان سے ہر اعتبار سے آگے نکل گیا ہے۔ وہ بنگالی جنہوں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں ہر اول کا کردار ادا کیا، وہی غدار وطن ٹھہرائے گئے۔ ان کی اکثریت، قومی زبان بنگالی، ان کے ذرائع اور منفرد تاریخی مقام کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں ایک محکوم و مجبور کالونی میں بدل دیا گیا۔ نتیجتاً پاکستان جمہوریہ بنا اور نہ چونتیس برس تک ایک حقیقی آئینی مملکت، مارشل لا کی ریاست کا انہدام ہونا تھا، سو 16 دسمبر 1971 کو ہوگیا۔ جس جنرل نیازی نے بنگالیوں کی نسل بدلنے کا عہد کیا تھا، اسے مکتی بہینی اور جنرل اروڑا کے سامنے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔ حمود الرحمان کمشن کی غیر مکمل رپورٹ پر تو عمل درآمد کس نے کرنا تھا۔ اب جنگی جرائم میں ملوث افسران کی قربانیوں کے قصے سنائے جانے لگے ہیں۔ یہاں تک جنرل باجوہ نے تاریخ کی ”درستگی“ کرتے ہوئے 1971ءکی جنگ کو فوجی شکست ماننے سے پھر انکار کردیا۔ محترم جنرل صاحب سے فقط یہ گزارش ہے کہ وہ ملٹری سائنس کے عظیم چینی مفکر سن زو کی ”آرٹ آف وار“ سے رجوع کرتے ہوئے ذرا جنرل اروڑا اور جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکمت عملی پہ غور کرلیں۔ جنرل اروڑا نے سن زو کے اس موقولے پر عمل کیا کہ ”فتحیاب فوج پہلے کامیاب ہوتی ہے اور بعد میں جنگ لڑتی ہے“۔ یہی ہوا کہ 8 ماہ کی خانہ جنگی کے بعد جب پاک فوج بالکل تنہا اور پسپا ہوگئی تو بغیر لڑے کامرانیاں لپیٹ کر فقط 13 روز کی باقاعدہ جنگ میں جنرل اروڑا نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے پہ مجبور کردیا، حالانکہ وہ تین چار ماہ ابھی اور لڑسکتے تھے۔ جبکہ جنرل یحییٰ خان نے سن زو کے اس مقولے پر عمل کیا کہ ”شکست خوردہ فوج پہلے جنگ لڑتی ہے اور بعدازاں جیت کی طلبگار ہوتی ہے“۔ جنرل باجوہ کے انکار شکست سے قطع نظر آپ پاکستانی سلیبس اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ 1971 کی جنگ کو کیسے خود فریبی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تو شکریہ ادا کریں ذوالفقار علی بھٹو کا جس نے شملہ معاہدہ کرتے وقت یہ شرط منوالی تھی کہ پاکستان سے تاوان جنگ وصول نہیں کیا جائے گا، نہ ہی بنگلہ دیش جنگی جرائم میں مقدمات چلائے گا اور انہوں نے نہ صرف مغربی پاکستان کے مفتوحہ علاقے باجگزار کروائے، بلکہ 93ہزار جنگی قیدیوں کی باعزت واپسی یقینی بنوائی۔ لیکن بھٹو کو نشان حیدر تو کیا ملتا، نشان عبرت ضرور بنادیا گیا۔ اگر مشرقی پاکستان کے المیہ سے کوئی سبق سیکھا ہوتا تو بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری فوج کشی کیوں ہوتی اور دو بار مارشل لا اور پھر ہائبرڈ رجیم یوں گھڑے جاتے اور عوام کی حکمرانی کیوں ایک خواب بن کے رہ جاتی۔
آٹھ سال بیت گئے جب 2014 میں 148 معصوم طلبا و اساتذہ کو دہشت گردوں نے انتہائی سفاکی سے گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور سینکڑوں خاندانوں کی زندگیاں تاحیات غم و اندوہ سے بھر دی تھیں۔ پانچ دہائیوں سے جہاد کے نام پر سرکاری سر پرستی میں جاری دہشت گردی سے صبح شام نوالہ بنتی نہتی قوم جاگی تو معصوم طلبا کے سفاکانہ قتل عام سے۔ معصوم بچوں کے خون اور چیخوں نے پوری قوم کوہلا کر رکھ دیا۔
نتیجتاً دہشت گردی بطور حکمت عملی کو وقتی طور پر بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ تمام سیاسی جماعتوں اور مسلح افواج کے اتفاق رائے سے ایک نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا۔ اور آپریشن ضرب عذب کا آغاز کیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت ڈیورنڈ لائن پار حجرت پر مجبور ہوگئی اور جہاں تحریک طالبان پاکستان کو تحریک طالبان افغانستان خاص طور پر حقانی نیٹ ورک نے محفوظ کمیں گاہیں فراہم کیں۔ جنرل مشرف کی اور جنرل کیانی کی غضب کی دہری حکمت عملی نے جہاں افغان طالبان کی فتح کے لیے ضروری کمک پہنچائے رکھی، وہیں ٹی ٹی پی نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور امریکہ کے خلاف افغان جہاد میں اپنا حصہ ڈالا۔ داعش اور القاعدہ کو پاکستان میں غزوہ ہند اور خراساں کی حکومت کے لیے شام و عراق سے پسپا ہونے کے بعد ان کو افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں میسر آگئیں۔ افغان طالبان نے نہایت کامیاب حکمت عملی اور سفارت کاری سے امریکیوں کے ساتھ دوحہ میں امن معاہدہ کر کے صدر اشرف غنی کی حکومت اور اس کے تمام تر جدید نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچوں کو فارغ کردیا۔ امریکہ کی بیس سالہ ریاستی تعمیر خاک میں مل گئی اور اس کے ساتھ ہی جدید پڑھی لکھی مڈل کلاس دربدر ہوگئی۔ ایک بڑے انخلاءاور ریاستی مسماری کے بعد بچا بھی ہے تو پتھر کے زمانے کا افغانستان اور اس پر طالبان دہشت کا نظام۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان کی خانہ جنگی، تباہی بربادی اور معاشی ملبہ اب پاکستان کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔ مظلوم افغان عوام بدترین افلاس اور قحط کی نذر ہورہے ہیں اوپر سے طالبان کا وحشیانہ نظام انہیں جلا وطنی پہ مجبور کررہا ہے۔ لاکھوں افغان ہر ماہ پاکستان نقل مکانی کررہے ہیں اور اربوں ڈالرز اور درآمد شدہ گندم، کھاد افغانستان سمگل ہورہی ہے اور افغان ٹریڈ سے پورا پاکستان بھرا پڑا ہے۔ افغانستان پاکستان کی محفوظ پشت بننے کی بجائے پاکستان کے لیے بڑا قبرستان بننے جارہا ہے۔ افغان طالبان نظریاتی، حربی اعتبار سے تحریک طالبان پاکستان کے حقیقی اتحادی ہیں اور وہ کسی صورت میں ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روک سکتے ہیں، نہ انہیں کسی امن سمجھوتے پہ مجبور کرسکتے ہیں۔ الٹا افغان حکومت انہیں پاکستان پر دباﺅ کے لیے استعمال کررہی ہے اور ہر طرح کی کمک پہنچا رہی ہے۔ جنرل فیض حمید نے ٹی ٹی پی سے جو مذاکرات کیے تھے اور اس میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے کارندے بھی شامل تھے کے نتیجہ میں ہمارے قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے دستوں کی آمد اور دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ دوسری طرف پاک افغان بارڈر (ڈیورنڈ لائن) جسے طالبان تسلیم نہیں کرتے آئے روز جارحیت کا نشانہ بن رہی ہے۔ افغانستان کی جہادی منڈی میں کرائے کے جہادیوں کو دنیا کی کوئی بھی ایجنسی بشمول را استعمال کرسکتی ہیں اور کر بھی رہی ہیں۔ جو آگ افغانستان میں لگائی گئی تھی اسے ہم پانچ دہائیوں سے بھگت رہے ہیں اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس نے نہایت سنجیدہ اور خوفناک صورت اختیار کرلی ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی اور جہادی نظریہ پر مکمل نظر ثانی کرے، یا پھر نئے المیوں کے لیے تیار رہے۔ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں وہ اپنی خود کشی کا اہتمام کرتی ہیں۔ آخر کب تک؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں