146

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے؟ انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

کس کس کی کس کس فاش غلطی یا جرم پہ کوئی کیا سر پیٹے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ریزرو اسوقت محض 6.7 ارب ڈالرز ہیں جو 2019 میں 6.6 ارب ڈالرز تھے۔ یعنی چار پانچ ہفتوں کے درآمدی بل کے برابر۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو کو پشاور بھیجا کہ معلوم کریں کہ پاکستان سے کتنا ڈالر، گندم اور یوریا افغانستان سمگل ہورہا ہے۔ معلوم پڑا کہ تقریباً ایک سے دو ارب ڈالرز کی کرنسی اور پاکستان کی درآمد کردہ گندم اور یوریا افغانستان سمگل ہورہا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعہ افغانستان سے پاکستان سمگلنگ بھی اربوں ڈالرز میں ہے اور اب تک اس سے متعلق ضروری شرائط پوری ہوئی ہیں، نہ افغانستان کو ئی بات مانتا ہے۔ افغانستان اور ایران کے بارڈرز پہ جاری سمگلنگ میں بڑی بڑی مافیاز، کسٹمز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کارندے اس دھندے میں شامل ہیں۔ پچھلی حکومت کے علم میں تھا، نہ موجودہ حکومت کے علم میں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے کیا مذاکرات ہوئے اور اعتماد سازی کے لیے کیا کیا اقدامات اُٹھائے گئے جس میں دہشت گردوں کی رہائی ، سزاﺅں میں معافی اور بہت سوں کی واپسی شامل تھی۔ وہ کون سی نادیدہ قوتیں تھیں جنہوں نے قبائل اور ان کے نوجوانوں کی امن و آتشی کی تحریک جو طالبان مخالف ہے کو دبایا اور پھر سے دہشت گردوں کی واپسی کے لیے حالات پیدا کیے۔ جو افغانستان کو پانچواں صوبہ یا اپنی تذویراتی گہرائی بنانے پہ مصر تھے، لگتا ہے کہ ان کا خواب ایک اُلٹی خوفناک کھائی میں بدل گیا ہے۔ تحریک طالبان افغانستان کے پاس اب پاکستان میں تذویراتی گہرائی کے لیے تحریک طالبان پاکستان ہے۔ 40 سالہ فاش جہادی مہم جوئی کے بعد بھی افغانستان پاکستان کے لیے بڑا عذاب بننے جارہا ہے۔ ہر ماہ 385,000 افغان پاکستان آرہے ہیں اور جس طرح کا انسانی المیہ افغانستان میں جاری ہے اور جو جابرانہ نظام طالبان بزور طاقت افغان عوام پر مسلط کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں کہیں یہ نہ ہو کہ افغانستان کی آبادی کا بڑا حصہ پاکستان منتقل ہوجائے۔ پاکستان کے لیے مشرقی سرحد کے مقابلے میں شمال مغربی سرحد ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ جو آگ دہائیوں پہلے لگائی گئی تھی، وہ حالات بدلنے کے باوجود بجھنے کی بجائے پھیلتی جارہی ہے۔ جاگے بھی ہیں تو ہمارے قبائل اور ان کے بہادر نوجوان جو امن کے جھنڈے لے کر باہر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن نہ کسی کی اُن کی جانب توجہ مبذول ہوئی اور نہ وہ میڈیا میں بڑی خبر بنے۔ حالات کی سنگینی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ نیشنل کاﺅنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (NACTA) جسے 2013 میں پھر سے کروفر سے لانچ کیا گیا تھا، اس کا دو برس سے اجلاس ہی نہیں ہوا۔ ڈیڑھ برس تک عمران حکومت اور ان کے وزیر داخلہ شیخ رشید سوتے رہے۔ ناکٹا کی ویب سائٹ ایک عرصہ سے اپ ڈیٹ ہی نہیں ہوئی، نہ اس کی اداراتی سرگرمی کہیں نظر آئی۔ کیا دہشت گردی کے خلاف بڑا قومی ادارہ مختلف اداروں اور ایجنسیوں کی باہمی ٹرف وار کی بھینٹ چڑھ گیا، یا پھر سلامتی کے سوال پر سویلین بالادستی قبول نہیں تھی۔ اب وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس کا اجلاس طلب کیا اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس ادارے کو امریکہ کے ہوم سکیورٹی کے ادارے کی طرز پر ازسرنو منظم کیا جائے گا۔ یہی المیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک مرکز کے تحت لانے کی اداراتی کوشش سے ہوا۔ سلامتی، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے سدباب کی ذمہ داری اگر منتخب حکومت کے سر پر نہیں ہوگی تو کیا پھر سویلین قیادت اور منتخب حکومتوں نے گھاس کھانا ہے؟یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ آخر سویلین قیادت کیوں فوج کی قیادت کو خارجی تعلقات اور معاشی سفارتکاری کی دعوت دیتی ہے اور پھر سول ملٹری تعلقات میں خرابی کا رونا پیٹتی ہے۔ ایک عرصے کے بعد ایک ایسا آرمی چیف آیا ہے جو کہہ رہا ہے کہ وہ ہدایات نہیں دے گا ہدایات لے گااور آئین کا احترام اور حکومتی رٹ کی اطاعت کرے گا۔ آپ اسے کہہ رہے ہیں کہ اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران جنرل عاصم منیر سعودیوں سے تین ارب ڈالرز کے مزید قرض کے لیے درخواست کرے۔ اگر یہ کام جنرل عاصم منیر نے ہی کرنا ہے تو وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کی کیا ضرورت ہے؟ جب دنیا کو آپ بتائیں گے کہ اصل دارالحکومت راولپنڈی ہے اسلام آباد نہیں تو عالمی برادری اور دوست ممالک منتخب حکومتوں کو کیوں گھاس ڈالیں گے۔ اور جب پیسے بھی عسکری قیادت دلوائے گی تو پھر معاشی پالیسی بھی وہی ترتیب دے گی اور پاکستان اپنے معاشی وجودی بحران سے کبھی نہیں نکل پائے گا۔ ابھی دونوں اہم فوجی عہدوں پہ تعیناتی ہوئے ہفتہ دس دن نہیں گزرے تھے کہ انہیں نشان امتیاز پیش کرتے ہوئے ساری سیاسی قیادت کورنش بجالانے کے لیے حاضر تھی۔ کسی فوجی کا دماغ ٹھکانے پہ ہو تو سویلین قیادت کیوں اُنہیں طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ہونے پہ اکساتی ہے۔
جو ملک معاشی اعتبار سے ہر وقت ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہو اور جو اپنی محدود استطاعت اور کمیاب ذرائع کے باوجود اپنے نحیف سر پر بڑے بڑے بوجھ اُٹھائے رکھنے پہ بضد ہو اور جہاں حکمران طبقات اور امرا سب کچھ سمیٹنے کے باوجود اپنے ملک کی اونرشپ لینے پہ تیار نہ ہوں، ایسے ملک کے مستقبل کے بارے میں یقین سے کچھ بھی تو نہیں کہا جاسکتا۔ جس ادارے کو آپ بڑا اختیار دے دیں تو پھر مت پوچھیں کہ وہ کیا کیا گل کھلاسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال ریکوڈک کے نئے معاہدے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی توثیق ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ 2013 میں اسی سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں عبدالحق بلوچ بمقابلہ وفاق کے کیس میں ریکوڈک معاہدے کو معطل کردیا تھا جس کی پاداش میں پاکستان کو تقریباً چھ ارب ڈالرز کا ہرجانہ ہوا تھا۔ 9 برس تک سونے اور تانبے کی کان پہ کام بند رہا اور اب آﺅٹ آف کورٹ مصالحت کے ذریعے ایک ارب ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنے کے بعد پھر سے اسی فرم کے ساتھ معاہدہ بحال کرنا پڑا ہے۔ سپریم کورٹ کا گزشتہ جمعہ کا فیصلہ کیسے 2013 کے فیصلے سے مطابقت رکھتا ہے؟ پاکستان کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا اور بلوچستان کے لوگوں کی محرومی میں اور اضافہ ہوا۔ ایسے ججوں کا مواخذہ کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ لیکن میں اس مطالبے کی حمایت کرنے سے اس لیے ہچکچا رہا ہوں کہ اگر پارلیمنٹ کو یہ اختیار دے دیا گیا تو جس طرح کے وزرائے اعظم ہمیں ملتے رہے ہیں تو وہ اس اختیار کو عدلیہ کو نکیل ڈالنے کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن کہیں تو کوئی جوابدہی ہو۔ اسی دوران ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی سالانہ رپورٹ شائع ہوئی ہے جسکے مطابق نیب سمیت اینٹی کرپشن اداروں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ پولیس، ٹھیکوں، عدلیہ اور محکمہ تعلیم کرپشن کی دوڑ میں مقابلہ کرتے نظرآرہے ہیں۔ اور کرپشن میں 140 واں نمبر بھی احتساب کی علمبردار عمران حکومت کے زمانے میں حاصل ہوا۔ عدلیہ کی آزادی سے جو حاصل ہوا اور احتساب کے حوالے سے جو ہوا، اس کے بعد کوئی کیا تقاضہ کرے اور کس سے منصفی چاہے ۔ ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں