156

ہوش کے ناخن اب بھی نہ لیے تو کب؟ انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

بحران ایسا کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ سیاسی انتشار ہو، یا معاشی ابتلا یا پھر ریاستی بندو بست سب بیک وقت الجھاؤ میں ہیں۔ اور سراہاتھ نہیں آرہا کہ ماضی کی سب تدبیریں الٹ پلٹ ہو گئیں، نہ پرانے نسخے کسی کام کے رہے اور نہ ایسی کوئی سوجھ جونئی راہ سجھا دے۔ غرض ہر کوئی اپنی اپنی دھن کی بے فکری میں مگن اور مارنے مرنے پہ تیار۔ اب اگر عمران خان دیواروں سے سر ٹکرانے کی بجائے ساتھ بیٹھنے پر مائل ہورہے ہیں تو وقت پر انتخابات کی ضد کوئی کس برتے پہ کرے جب معیشت کی کوئی کل سیدھی ہونے کی امید نہیں ۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عدم اعتماد کی کامیابی گلے پڑگئی ہے اور وہ گلے پڑا ڈھول کب تک بجا پائے گی۔ سیاسی حریف اپنی اپنی چالیں چلتے نڈھال ہوئے جاتے ہیں مگر سیاسی اناؤں کی اسیری میں بدحال مملکت کو در پیش بحران ایسالایخل ہے کہ سب کی سٹی گم ہوئی لگتی ہے۔ سیاسی سرکس کا تماشہ ایسا لگا ہے کہ حقیقی وجودی بحران اور معاشی دیوالیہ سب کو لپیٹنے جارہا ہے اور المیہ ہے کہ کس کو فکر لاحق نہیں۔ سیاسی بحران تو کوئی بڑا معمہ نہیں ،اگر عمران خان انا کی بلند ترین چوٹی سے نیچے اُتر آئیں اور اتحادی حکومت کسی بڑے معجزے کی اُمید ترک کر دے تو ایک عملی حل نکل سکتا ہے۔ انتخابات اکتوبر میں نہ سہی، کچھ پہلے کر لینے میں کیا حرج ہے۔ ویسے بھی اگلے برس جون میں بجٹ پیش کرنے کی اتحادی حکومت متحمل نہیں ہوسکتی، یہ بلاعبوری حکومت کے سرمنڈھ دی جائے تو اسی میں سب کی عافیت ہے۔ کیا عمران خان مارچ اپریل میں انتخابات کروا کر، کامیابی کی صورت میں اگلا بجٹ پیش کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں جو اتنا جلد انتخابات پر اصرار کر رہے ہیں ۔ میرا وجدان ہے کہ درمیانی مدت پر اتفاق ہوسکتا ہے۔ مئی کے آخر تک سب اسمبلیاں اتفاق رائے سے تحلیل کر کے جون میں 90 روزہ عبوری حکومت پر اتفاق کر لیا جائے جو اگست میں انتخابات کا انعقاد کروادے۔ فقط انتخابات کی تاریخ پہ اتفاق کافی نہیں ہوگا۔ آزادانہ و منصفانہ انتخابات پہ کبھی جماعتوں میں اتفاق رائے ضروری ہوگا تا کہ انتخابات کے نتائج پہ نیاسیاسی جھگڑا نہ کھڑا ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی و سلامتی کی پالیسیوں پر بھی کڑوی گولیاں کھانے پر سب کو تیار ہونا ہوگا۔ جس معاشی نا پائیداری کی وارننگ ایک عرصہ سے ان کالموں میں دی جارہی تھی ، وہ بد قسمتی سے ایک پورے کروفر کے ساتھ آپہنچا ہے اور اس کا کوئی فوری حل نہیں۔ اس کے لیے ایمر جنسی اقدامات کے ساتھ ساتھ درمیانی اور لمبی مدت کے حقیقی اصلاحی اقدات اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔ پھر بھی اگلی دو چار حکومتیں معاشی بحران کو سنبھالنے میں خرچ ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ستاروں پر کمند ڈالنے اور خودی کو بلند کرنے کی لایعنی نعرہ بازیوں کی بجائے، حقیقت وحقائق کی زمین پہ آنا ہوگا اور اپنے تمام تر بلند و بالا ہوائی قلعوں اور علاقائی مہم جوئیوں سے تائب ہونا ہوگا۔
سوال اور چیلنجز بڑے ہیں اور حل دشوار اور پیچیدہ تر۔ پہلا بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان قومی سلامتی کی عسکریت پسند ریاست کے طور پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس کے لیے دانے تو نہ تھے اور جو تھے وہ مک گئے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالرز ہیں اور بھارت کے 600 ارب ڈالرز سے اوپر ہیں۔ افغان جہاد اسٹریٹجک گیرائی کی بجائے گہری کھائی بن گیا ہے۔ اب تو افغان طالبان نے پاکستان کے پورے شمال مغربی علاقے کے ساتھ ساتھ کشمیر تک افغان راجدھانی کے ابدالی خواب کا نقشہ بھی شائع کر دیا ہے اور تحریک طالبان پاکستان اور برصغیر کی داعش نے غزوہ ہند کا آغاز پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے جہاد سے شروع کر دیا ہے، جبکہ جاری دفاعی بجٹ کے لیے قرض ملنے کی اُمید کم ہی ہے اور اگر کچھ ملا بھی تو کن شرائط پر؟ سب سے پہلے تو دفاعی کمر کہنے کی ضرورت ہوگی اور طاقتور اس پر راضی ہوں گے بھی یا نہیں ۔ ملک کے اندر جاری سورشوں کا سیاسی حل تلاش نہ کیا گیا تو پھر بیرونی طاقتوں کو کھل کھیلنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ رہا ہائبرڈ سیاسی نظام تو اس کا خمیازہ اس کے موجدین بھگت چکے، اس کی نوک پلک سنوارنے کی بجائے سیاست سے کنارہ کشی کا اداراتی تقاضہ بڑا چیلنج ہوگا۔ شکر ہے کہ نئے آرمی چیف صفحہ اول سے غائب ہیں اور آئی ایس پی آرنئی تعیناتیوں پر بھی خاموش ہے۔ فوج کوسول معاملات سے علیحدہ کرنے اور کارپوریٹ دائرہ عمل کو محدود تر کرنے میں ہی سول سوسائٹی کی عافیت ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج پاور سٹرکچر سیاسی معیشت کو بدلنے اور اسے آئین سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ریاست کے اندر متوازی ریاست کو خیر باد کہنے کے لیے اداراتی اصلاحات کی ضرورت ہوگی جس کے لیے پہل افواج پاکستان ہی کو کرنی ہوگی ۔ تیسرا بڑا چیلنج دست نگری ، مفت خوری، کرایہ خوری اور قرض خواہی کو خیر باد کہتے ہوئے پیداواری معیشت کے ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ ایسی برآمدات جو درآمدات پر انحصار کریں کے ہوتے ہوئے اور اعلیٰ قدر کی برآمدات اور انکا تنوع بڑھائے بنا کرنٹ اور بجٹ خسارہ کم نہ ہوگا اور نمو کے ساتھ خساروں کے چکر سے نکلنا محال ہوگا۔ ہماری زراعت فرسودہ جاگیردارانہ رشتوں اور دقیانوسی طرز پیداوار کے ہوتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتی ، نہ ہی کرایہ خوری معاشی کاروبار کو آگے بڑھنے دے گی ۔ جدید سائنسی وتکنیکی بنیاد کے بغیر صنعتی ترقی بھی مانند ر ہے گی ۔ جبکہ قرض خوری اور پبلک سیکٹر کی بدحالی سے جان خلاصی کے لیے بڑی سخت گیر پالیسی درکار ہوگی۔ معاشی جو سٹریٹجک نظریہ اپنائے بنا نا کام جیو سٹریٹجگ نظریات سے خلاصی ممکن نہیں ۔ اصل مرکز عوام کی ترقی اور سلامتی ہے جس کے لیے سماجی شعبہ جات کی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیم و ہنرمندی کے فروغ کے بغیر بے کارنو جوانوں کا جم غفیر طوائف الملوکی کا ایندھن تو بن سکتا ہے کار آمد نہیں ہو سکتا۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ ریاست اور اس کے تینوں ستونوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ لیکن سوائے محنت کش عوام کے امرا کا کوئی طبقہ پاکستان کا والی وارث بنے کو تیار نہیں ۔ سب لوٹ
مار کر کے باہر جانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کون ہے جو پاکستان کو عافیت اور ترقی کے راستے پر ڈالے؟
آخری سوال اور چیلنج جوشاید پرنسپل تضاد ہے وہ ہے سول ملٹری تعلقات جس کا آئین کی روح کے مطابق از سر نو عین ضروری ہے۔ اس میں پہلی شرط تو یہ ہے کہ افواج ما سوا دفاع کے تمام معاملات سے خود کو سختی سے علیحدہ کریں اور دوسری شرط یہ ہے کہ سیاستدان افواج کو سیاست میں ملوث کرنے کی بجائے اپنے معاملات آپس میں افہام و تفہیم سے حل کرنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی و سماجی قوتوں کے مابین ایک نئے میثاق کی بنیاد ڈالیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں جو میثاق جمہورت ہوا اور جس جمہوری عبور کا آغاز ہوا تھا، اسے ہائبرڈ سیاسی نظام سے اُلٹ دیا گیا تھا۔ اب ہائبرڈ نظام کا تجربہ بری طرح سے فیل ہونے پر پھر سے جمہوری و آئینی راہ پہ پلٹنا ہو گا۔ ورنہ بحران در بحران ہمارا مقدر رہے گا اور جانے یہ
کہاں جا کر ختم ہو۔ ہوش کے ناخن اب بھی نہ لیئے تو کب؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں