81

کمان میں تبدیلی کے ساتھ ہی فوری انتخابات کیلیئے عمران خان کا تمام اسملیاں چھوڑنے کا اعلان ‎انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

عمران خان نے لانگ مارچ کو دارلحکومت پہ چڑھائ کیلیئے استعمال نہ کرکے نہایت سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یوں انہوں نے ممکنہ فساد اور خون خرابے سے بچتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ کر تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کرکے نئے انتخابات کے جلد انعقاد کے سوا تقریباً کوئ چارا نہیں چھوڑا۔ وفاقی حکومت اور اسکی اتحادی جماعتیں بھلے شوق سے پنجاب اور پختون خوا میں عدم اعتماد کا ووٹ لا کر کچھ روز کیلیئے دونوں اسمبلیوں کو بچا بھی لیں تو اگر دونوں وزرائے آعلی عمران خان کی تائید میں اسمبلیاں توڑ دیں یا پھر پی ٹی آئ کے سارے اراکیںن تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں تو عام انتخابات کروانے کے سوا کوئ آئینی راستہ بمشکل دستیاب ہوگا۔ البتہ اگر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے آعلی صوبائ اسمبلیاں توڑنے سے انکار کردیں تو وفاقی حکومت اور اسکی اتحادی پارٹیوں کیکئے پی ٹی آئ سے کسی بارگینںگ کی کافی گنجائش نکل سکتی ہے۔ عمران خان کو اگر کوئ مشکل میں ڈال سکتا ہے توہ ہیں آصف زرداری جو پنجاب کے وزیر آعلی کو انکی وزارت آعلی کے تسلسل کا یقین دلا کر عمران خان کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں اور ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان کے وزرائے آعلی کی مدد سے کم اِز کم تین صوبائ اسملیوں کو تحلیل ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اگر پنجاب اور پختون خوا کی اسمبلیاں ٹوٹ بھی جائیں تو سندھ اور بلو چستان صوبائ انتخابات سے انکار کرسکتے ہیں۔ لیکن عمران خان نے اپنی پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کی بات کرکے، مذاکرات کی گنجائش برقرار رکھی ہے۔ گسی بھی بارگیننگ کیلیئے پی ڈی ایم کی پارٹیوں اور پی پی پی کو اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کی ضد چھوڑنی ہوگی اورستمبر/اکتوبر سے پہلے انتخابات پہ راضی ہونا ہوگا۔ اسی طرح مارچ/اپریل میں فوری انتخابات کے حوالے سے عمران خان کو کچھ لچک دکھانا ہوگی۔ درمیانی مہینوں مئ/جون میں انتخابات کے انعقاد پر ممکنہ طور پر اتفاق ہوسکتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ صاف اور شفاف انتخابات کیلیئےقومی اتفاق رائے پہ مبنی قانون سازی اور اداراتی اقدامات کیئے جائیں جس کیلیئے تین چار ماہ لگ سکتے ہیں۔ بہر صورت اب انتخابات کو اکتوبر تک ٹالا نہیں جاسکتا اور اپریل/مئی میں عبوری حکومت پہ اتفاق کے ساتھ نئے عام انتخابات کا اعلان ہوسکتا ہے۔
‎ باوجود یکہ، امریکی سازش کی طفلانہ کہانی اور رجیم چینج میں شامل نام نہاد سہولت کار قصہ پارینہ ہوئے اور ایک صفحے کے سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوچکا، نئے انتخابات کے فوری انعقاد کی تاریخ کی دم ایسی پھنسی ہے کہ سیاسی بحران کا گیا ہستان ایک چنگاری سے جل کر خاکستر ہوسکتا ہے۔ گو کہ لانگ مارچ کی سانس پھول چکی تھی اور نہ ہی اب راولپنڈی سے انتخابات کی تاریخ کا مراسلہ ملنے کی امید باقی بچی، خان دم ہارنے والا نہیں۔ اس سے پہلے کہ کپتان ہفتہ کو کوئی نیا حیران کن دھماکہ کرتا، دو روز قبل ہی قومی اتفاق رائے سے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتیوں کا عمل بخیر و خوبی انجام پاچکا ہے۔ اب گیند سیاستدانوں کے میدان میں ہے، وہ اسے واپس جی ایچ کیو کے کورٹ میں پھینک کر پھر سے اپنی انگلیاں کیوں کٹوائیں گے؟ ریٹائر ہوتے وقت جنرل قمر جاوید باجوہ ستر برس تک فوج کی سیاست میں آئین کُش مداخلت کے ہاتھوں رسوائی پہ معافی مانگ چکے اور فوج کے بطور ادارہ سیاست سے کنارہ کشی کا عہد دہرا چکے، اب نظریں نئی فوجی قیادت کی جانب لگی ہیں کہ وہ کس حد تک فوج کی سیاست سے دست کشی کے عہد پر کتنا آگے بڑھتی ہے اور افواج پاکستان اور اس کی ایجنسیاں آئینی اعتبار سے کتنی قلب ماہیئت کرتی ہیں۔ لیکن تشکیک پسند ہیں کہ کہے جارہے ہیں کہ :چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی (زوق)؟ ایک عرصے بعد سینئر ترین تھری اسٹار جنرل اور وہ بھی فوجی معیار پہ پورا اترنے والے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی سے اُمید کی جارہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کے بارے میں پھیلی وسیع سیاسی بدگمانیوں کو دور ہی نہیں کریں گے، بلکہ اپنے پیش روﺅں کی بونا پارٹسٹ روایات سے ہٹ کر بطور ادارہ فوج کو تمام سویلین معاملات سے علیحدہ کرتے ہوئے اس کی آئین و قانون کی منشا کے مطابق اداراتی اصلاح کرتے ہوئے قائداعظم کے فرمان پہ عمل پیرا ہوکر منتخب اداروں کی طے کردہ پالیسیوں پہ نہ صرف سلامتی و خارجی بلکہ دیگر غیر عسکری شعبہ جات میں عملداری کریں گے۔ گو کہ یہ توقع باندھنا عین آئینی اور قومی منشا کے مطابق ہے، لیکن 75 برس سے جاری بعداز نوآبادیاتی وائسرائی نوکر شاہانہ قومی سلامتی کی ریاست کے آہنی ڈھانچے کی جڑیں اتنی گہری ہیں اور اس کے تانے بانے اتنے وسیع تر ہیں کہ اس کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بہر کیف، ابتدا تو کی جاسکتی ہے اور ایک جامع و مستحسن ابتداءبالآخر ایک پائیدار جمہوری ریپبلک کی جانب سفر کو آسان بناسکتی ہے، بشرطیکہ سیاستدان موقع پر ستانہ اور بے اصول سیاست کی سر پھٹول میں پھنسے رہنے کی بجائے افہام و تفہیم، جمہوری رواداری اور باہم افہام و تفہیم کی پارلیمانی روایات پر عمل کرتے ہوئے نئے انتخابات کے انعقاد ہر متفق ہوجائیں۔

‎اب اس کا کیا کیجئے کہ عمران خان چوٹی پہ چڑھ کر بیٹھ گئے ہیں اور آئے روز چھلانگ مارنے کی دھمکیوں سے باز نہیں آرہے اور حکومت ہے کہ لاینحل معاشی و اداراتی بحران کے منجدھار میں پھنسی بے بسی سے ہاتھ پاﺅں مارنے پر مصر ہے۔ عمران خان نے جو مقبولیت کی اونچ پانی تھی پاچکے، وہ نیچے آئے گی بھی تو ان کی اپنی بے مقصد اچھل کود سے۔ وہ سیاسی عدم استحکام کی دہائی تو دے رہے ہیں، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ وہ خود اس سیاسی عدم استحکام کے سب سے بڑے محرک ہیں کہ یہ انہیں سوٹ کرتی ہے۔ انہیں جیسے سیاسی طور پر پالا پوساگیا، ان کے مخالفوں کو کیسے کیسے ناکام و رسوا کیا گیا اور ایک صفحہ کی برکت سے فیضیاب کیا گیا، وہ بھی قصہ پارینہ ہوا۔ اب وہ اپنے تئیں خود ایک پاپولر لیڈر بن چکے ہیں اور انہیں اب کسی کی بیساکھیوں کی ضرورت بھی نہیں رہی تو وہ کیوں باربار پلٹ کر پھر سے مقتدرہ کا بغل بچہ بننے کی آرزو میں مبتلا ہیں۔ ماں کی گود کی عدم موجودگی میں وہ عوام کی گود میں رہنے پہ اکتفا کرتے ہوئے انہیں مقتدرہ کی گود میں پھر سے پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کی آخری پناہ گاہ پارلیمنٹ ہے اور اسی پارلیمنٹ کو وہ آج تکریم بخشیں گے تو وہ کل ان کی ممکنہ منتخب حکومت کی مضبوط اساس بنے گی۔ اگر وہ فوری انتخابات چاہتے ہیں تو اب تمام اسمبلیاں چھوڑنے کے زور پر وہ وفاقی حکومت کو جلد انتخابات پہ مجبور کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب اتحادیوں کی وسیع تر حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ جاری معاشی و سیاسی بحران کو وہ تن تنہا سنبھال نہیں پارہی۔ اس کے سو جتن کے باوجود معاشی ابتری جلد ختم ہونے والی نہیں۔ دودھ، شہد کی نہریں تو اگلے جہان کے معجزے ہیں۔ اس دہائی میں تو ماضی کے قرض چکانے اور روکھی سوکھی پہ گزاراکرنا ہوگا۔ معاشی بحران اتنا گھمبیر ہے کہ اس کا بھار اگلی حکومتوں کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اس دوران اگر ہم کچھ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس پہ کوئی پیسہ خرچ کیے بغیر بھی خود پیدا کردہ بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔
‎فوری و درمیانی مدت کے جو اقدامات ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ : ریاست کم از کم اپنے خرچے آدھے کردے، تمام ادارے اپنی مراعات و مشا ہیر ایک تہائی کردیں، کسی بھی غیر پیداواری خرچے کے لیے قطعی طور پر کوئی قرض حاصل نہ کیا جائے، تمام آمدنیوں پہ واجب الادا ٹیکس دیا جائے۔ تمام ٹیکس استثناعات ختم کردی جائیں۔ کم آمدنی والوں کے لیے امدادی رقوم کو سختی سے مخصوص کردیا جائے۔ ہر طرح کی اجارہ داری، سٹہ بازی اور مافیاز کا قلع قمع کردیا جائے۔ خواص کا غلبہ ختم کرتے ہوئے، عوام کو ترقی اور اس کے ثمرات میں حصہ دار بنایا جائے۔ جاگیرداری اور کرپٹ کرایہ داری کے نظام کو تہس نہس کردیا جائے۔ دست نگرمعیشت کی جگہ معاشی و مادی اور سائنسی پیداواری قوتوں کو فروغ دیا جائے اور عوامی ترقی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے عوام کو سماجی خدمات، تعلیم و صحت، ہنر مندی اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ قومی سلامتی جو کہ ایک نیوکلیئر طاقت بننے کے بعد محفوظ ہوچکی سے آگے بڑھ کر معاشی و عوامی سلامتی کے نظریہ کو اپناتے ہوئے خطے میں امن و تعاون کی حکومت عملی پہ مستقل مزاجی سے عمل کیا جائے۔ سی پیک کو اپنی ضرورتوں کے مطابق آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک جازب نظر مارکیٹ بنایا جائے۔ آئین کے مطابق تمام ریاستی اداروں کے دائرہ عمل کا سختی سے تعین کیا جائے۔ سول ملٹری تعلقات کے تاریخی مسئلہ کو آئین کی منشا کے مطابق پھر سے استوار کرتے ہوئے جمہوری بالا دستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری سے وابستہ کیا جائے۔ نیز ریاست کے بھاری بالائی ڈھانچے کو محدود معاشی استعداد کے بنیادی ڈھانچے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے کٹ ٹو سائز کیا جائے۔ قرضوں کے جال اور دست نگری کے خاتمے کے لیے جامعہ منصوبہ بندی۔ غرض یہ کہ خواص کے پاور سٹرکچر اور امرا کی سیاسی معیشت میں انقلابی تبدیلی کے بغیر فوجی چین آف کمانڈ میں تبدیلی سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں۔ ٹھیک ہونا ہے تو سب کو ٹھیک ہونا ہے اور ٹھیک کرنا پڑے گا
بہتر ہے کہ تمام سیاسدان اکٹھے بیٹھ کر آئندہ انتخابات اور موجودہ بحران پہ ایک قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں اور تمام پارٹیاں ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلیئے اپنے اپنے راہائےعمل عوام الناس کے سامنے پیش کریں اور رائے دھندگان کو مستقبل کی حکومت کو منتخب کرنے کا موقع فراہم کریں۔ عوام کو مینڈیٹ دینے کا وقت آپہنچا ہے۔ لوگوں کو فیصلہ کرنے دو!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں