85

فوجی کمانڈ میں تبدیلی کے ساتھ ، نظام حکمرانی میں تبدیلی : انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

بروز ہفتہ، دم تحریر بس ایک ہی دعا ہے کہ عمران خان کا راولپنڈی کا جلسہ بخیر و عافیت اختتام پذیر ہو، وزیر آباد کا حادثہ بدتر صورت رونما نہ ہو۔ باوجود یکہ، امریکی سازش کی طفلانہ کہانی اور رجیم چینج میں شامل نام نہاد سہولت کار قصہ پارینہ ہوئے اور ایک صفحے کے سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوچکا، نئے انتخابات کے فوری انعقاد کی تاریخ کی دم ایسی پھنسی ہے کہ سیاسی بحران کا گیا ہستان ایک ٹمی سے جل کر خاکستر ہوسکتا ہے۔ گو کہ لانگ مارچ کی سانس پھول چکی اور نہ ہی اب راولپنڈی سے انتخابات کی تاریخ کا مراسلہ ملنے کی امید باقی بچی، خان دم ہارنے والا نہیں۔ اس سے پہلے کہ کپتان ہفتہ کو کوئی نیا حیران کن دھماکہ کرتا، دو روز قبل ہی قومی اتفاق رائے سے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتیوں کا عمل بخیر و خوبی انجام پاچکا ہے۔ اب گیند سیاستدانوں کے میدان میں ہے، وہ اسے واپس جی ایچ کیو کے کورٹ میں پھینک کر پھر سے اپنی انگلیاں کیوں کٹوائیں گے؟ ریٹائر ہوتے وقت جنرل قمر جاوید باجوہ ستر برس تک فوج کی سیاست میں آئین کُش مداخلت کے ہاتھوں رسوائی پہ معافی مانگ چکے اور فوج کے بطور ادارہ سیاست سے کنارہ کشی کا عہد دہرا چکے، اب نظریں نئی فوجی قیادت کی جانب لگی ہیں کہ وہ کس حد تک فوج کی سیاست سے دست کشی کے عہد پر کتنا آگے بڑھتی ہے اور افواج پاکستان اور اس کی ایجنسیاں آئینی اعتبار سے کتنی قلب ماہیئت کرتی ہیں۔ لیکن تشکیک پسند ہیں کہ کہے جارہے ہیں کہ :چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی (زوق)؟ ایک عرصے بعد سینئر ترین تھری اسٹار جنرل اور وہ بھی فوجی معیار پہ پورا اترنے والے جنرل عاصمر منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی سے اُمید کی جارہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کے بارے میں پھیلی وسیع سیاسی بدگمانیوں کو دور ہی نہیں کریں گے، بلکہ اپنے پیش روﺅں کی بونا پارٹسٹ روایات سے ہٹ کر بطور ادارہ فوج کو تمام سویلین معاملات سے علیحدہ کرتے ہوئے اس کی آئین و قانون کی منشا کے مطابق اداراتی اصلاح کرتے ہوئے قائداعظم کے فرمان پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے منتخب اداروں کی طے کردہ پالیسیوں پہ نہ صرف سلامتی و خارجی بلکہ دیگر غیر عسکری شعبہ جات میں عملداری کریں گے۔ گو کہ یہ توقع باندھنا عین آئینی اور قومی منشا کے مطابق ہے، لیکن 75 برس سے جاری بعداز نوآبادیاتی وائسرائی نوکر شاہانہ قومی سلامتی کی ریاست کے آہنی ڈھانچے کی جڑیں اتنی گہری ہیں اور اس کے تانے بانے اتنے وسیع تر ہیں کہ اس کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بہر کیف، ابتدا تو کی جاسکتی ہے اور ایک جامع و مستحسن ابتداءبالآخر ایک پائیدار جمہوری ریپبلک کی جانب سفر کو آسان بناسکتی ہے، بشرطیکہ سیاستدان موقع پر ستانہ اور بے اصول سیاست کی سر پھٹول میں پھنسے رہنے کی بجائے افہام و تفہیم، جمہوری رواداری اور باہم افہام و تفہیم کی پارلیمانی روایات پر عمل کرنا شروع کریں۔
اب اس کا کیا کیجئے کہ عمران خان چوٹی پہ چڑھ کر بیٹھ گئے ہیں اور آئے روز چھلانگ مارنے کی دھمکیوں سے باز نہیں آرہے اور حکومت ہے کہ لاینحل معاشی و اداراتی بحران کے منجدھار میں پھنسی بے بسی سے ہاتھ پاﺅں مارنے پر مصر ہے۔ عمران خان نے جو مقبولیت کی اونچ پانی تھی پاچکے، وہ نیچے آئے گی بھی تو ان کی اپنی بے مقصد اچھل کود سے۔ وہ سیاسی عدم استحکام کی دہائی تو دے رہے ہیں، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ وہ خود اس سیاسی عدم استحکام کے سب سے بڑے محرک ہیں۔ انہیں جیسے سیاسی طور پر پالا پوساگیا، ان کے مخالفوں کو کیسے کیسے ناکام و رسوا کیا گیا اور ایک صفحہ کی برکت سے فیضیاب کیا گیا، وہ بھی قصہ پارینہ ہوا۔ اب وہ اپنے تئیں خود ایک پاپولر لیڈر بن چکے ہیں اور انہیں اب کسی کی بیساکھیوں کی ضرورت بھی نہیں رہی تو وہ کیوں باربار پلٹ کر پھر سے مقتدرہ کا بغل بچہ بننے کی آرزو میں مبتلا ہیں۔ ماں کی گود کی عدم موجودگی میں وہ عوام کی گود میں رہنے پہ اکتفا کرتے ہوئے انہیں مقتدرہ کی گود میں پھر سے پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کی آخری پناہ گاہ پارلیمنٹ ہے اور اسی پارلیمنٹ کو وہ آج تکریم بخشیں گے تو وہ کل ان کی ممکنہ منتخب حکومت کی مضبوط اساس بنے گی۔ دوسری جانب اتحادیوں کی وسیع تر حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ جاری معاشی و سیاسی بحران کو وہ تن تنہا سنبھال نہیں پارہی۔ اس کے سو جتن کے باوجود معاشی ابتری جلد ختم ہونے والی نہیں۔ دودھ، شہد کی نہریں تو اگلے جہان کے معجزے ہیں۔ اس دہائی میں تو ماضی کے قرض چکانے اور روکھی سوکھی پہ گزاراکرنا ہوگا۔ معاشی بحران اتنا گھمبیر ہے کہ اس کا بھار اگلی حکومتوں کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اس دوران اگر ہم کچھ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس پہ کوئی پیسہ خرچ کیے بغیر بھی خود پیدا کردہ بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔
فوری و درمیانی مدت کے جو اقدامات ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ : ریاست کم از کم اپنے خرچے آدھے کردے، تمام ادارے اپنی مراعات و مشا ہیر ایک تہائی کردیں، کسی بھی غیر پیداواری خرچے کے لیے قطعی طور پر کوئی قرض حاصل نہ کیا جائے، تمام آمدنیوں پہ واجب الادا ٹیکس دیا جائے۔ تمام ٹیکس استثناعات ختم کردی جائیں۔ کم آمدنی والوں کے لیے امدادی رقوم کو سختی سے مخصوص کردیا جائے۔ ہر طرح کی اجارہ داری، سٹہ بازی اور مافیاز کا قلع قمع کردیا جائے۔ خواص کا غلبہ ختم کرتے ہوئے، عوام کو ترقی اور اس کے ثمرات میں حصہ دار بنایا جائے۔ جاگیرداری اور کرپٹ کرایہ داری کے نظام کو تہس نہس کردیا جائے۔ دست نگرمعیشت کی جگہ معاشی و مادی اور سائنسی پیداواری قوتوں کو فروغ دیا جائے اور عوامی ترقی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے عوام کو سماجی خدمات، تعلیم و صحت، ہنر مندی اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ قومی سلامتی جو کہ ایک نیوکلیئر طاقت بننے کے بعد محفوظ ہوچکی سے آگے بڑھ کر معاشی و عوامی سلامتی کے نظریہ کو اپناتے ہوئے خطے میں امن و تعاون کی حکومت عملی پہ مستقل مزاجی سے عمل کیا جائے۔ سی پیک کو اپنی ضرورتوں کے مطابق آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک جازب نظر مارکیٹ بنایا جائے۔ آئین کے مطابق تمام ریاستی اداروں کے دائرہ عمل کا سختی سے تعین کیا جائے۔ سول ملٹری تعلقات کے تاریخی مسئلہ کو آئین کی منشا کے مطابق پھر سے استوار کرتے ہوئے جمہوری بالا دستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری سے وابستہ کیا جائے۔ نیز ریاست کے بھاری بالائی ڈھانچے کو محدود معاشی استعداد کے بنیادی ڈھانچے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے کٹ ٹو سائز کیا جائے۔ قرضوں کے جال اور دست نگری کے خاتمے کے لیے جامعہ منصوبہ بندی۔ غرض یہ کہ خواص کے پاور سٹرکچر اور امرا کی سیاسی معیشت میں انقلابی تبدیلی کے بغیر فوجی چین آف کمانڈ میں تبدیلی سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں۔ ٹھیک ہونا ہے تو سب کو ٹھیک ہونا ہے اور ٹھیک کرنا پڑے گا۔۔۔ ورنہ وہی ڈھاک کے تین پات!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں