156

عمران خان کی ”نااہلی“ اور سیاست کی مغفرت انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

لاڈلے کے انتخاب کی طرح، اس کی نااہلی بھی متنازعہ ہوچلی ہے۔ الیکشن کمشن نے ایک لمبے توقف کے بعد سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف جناب عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپٹ پریکٹسز، غلط بیانی، اثاثے چھپانے اور بدعنوانی کی بنیاد پر وقتی طور پر انکو اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا ہے جس سے وہ پہلے ہی مستعفی ہونے کا اعلان کرچکے تھے مگر اپنے استعفیٰ کو سپیکر کے روبرو کنفرم کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ واحد صادق و امین کے ”کرپٹ“ قرار دئیے جانے پر جہاں اتحادی جماعتوں کو ”چور بھی کہے چور وچور“ کا جوابی بیانیہ بنانے کا موقع ملا ہے تو وہیں وکلا کے جم غفیر کی لا متناہی وشگافیوں نے الیکشن کمشن کے فیصلے اور اس کے عدالتی اختیار کو متنازعہ بنادیا ہے۔ عمران خان کی سیاست پر پردہ ابھی گرا نہیں، اس کھیل کے کئی ایکٹ ابھی عدالتی سٹیج پر کھیلے جانے ہیں اور معاملہ گلیوں یا پھر ووٹ سے حل ہونے کی بجائے عدلیہ کے پلیٹ فارم پر طے کیا جانا ہے۔ فریقین کے مابین ایک طویل قانونی جنگ میں عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ میں ان کے اپنے فیصلے کی بے مثال نظیریں نظام انصاف کے لیے سوھان روح بنی رہیں گی۔ ایک اور سابق وزیراعظم اور جماعت کے سابق صدر جناب نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور صدارت سے عدالتی علیحدگی ایک آسیب کی طرح عمران خان کے قانونی مستقبل پر چھائی رہے گی، تب معلوم پڑے گا کہ صداقت و امانت کی کسوٹیوں پر سیاست کی حشر سامانیوں میں کیا زقند لگتی ہے۔ سیاہی کس کے منہ پر لگتی ہے یا پھر کس کے گناہ کس کے صدقے سے معاف ہوتے ہیں جسے ”لیول پلینگ فیلڈ“ کی تیاری کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ اردو محاورے میں اسے سیدھ بھی میری پٹھ بھی میری اور انگریزی محاورے میں ہیڈ یو لوزچین آئی ون بھی کہا جاتا ہے۔ آخری تجزیہ میں کامیابی مقتدرہ ہی کا مقدر رہتی ہے۔ بھلے فائنانشل ٹاسک فورس کی گرے لسٹ کی سولی پہ چڑھایا جانا ہو یا اس سے اتروائے جانے کے لیے دہشتگردی کے گناہوں سے خلاصی پانے کے لیے ریاست کو کتنی ہی ناک سے لکیریںنکالنی پڑیں، ”تمہیں نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا“ کے مصداق سہرہ مقتدرہ ہی کے سر ہے۔ وزارت خارجہ اور بیچارے حماد اظہر، بلاول بھٹو اور حنا ربانی کھر مبارک بادیں کیا وصول کرتے، ٹرافی پہلے ہی کوئی اور اُچک چکا تھا۔ ویسے بھی تاریخ وہی لکھتا ہے جس کے پاس طاقت ہوتی ہے، بھلے پانچ ہفتوں کے لیے ہی سہی!
تاریخی طور پر مجذوب جمہوریت کے مقدر میں سیاستدانوں کی نااہلیاں ہی رہی ہیں، یا پھر ان زخموں پہ کی جانے والی احتجاجی سیاست۔ پروڈا تھا یا ایبڈو، نیپ، عوامی لیگ پر پابندی تھی یا بھٹو کی پھانسی، محترمہ بے نظیر بھٹو کا دن دیہاڑے قتل یا پھر میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور پارٹی صدارت سے قانونی بے دخلی، سب منہ پھاڑے مقتدرہ کے تراشے ایک اور عوامی کلٹ کو ہڑپ کرنے کھڑے ہیں۔ لاڈلا، لاڈلا نہ رہا، اک عذاب بن گیا۔ لیکن اب متحارب سیاست کو کون عقل کے ناخن دے۔ جس طرح بھٹو کی پھانسی پہ قومی اتحاد والوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی پہ تحریک انصاف نے بھنگڑے ڈالے تھے، اسی طرح عمران خان کی ناہلی پر اتحادی پارٹیاں مبارکبادیں وصول کرتی نظر آرہی ہیں۔ فوج کے سیاست سے تائب ہونے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے واضح اعلانات کے باوجود نظریں پارلیمنٹ پر نہیں جی ایچ کیو میں تبدیلی پر ہیں۔ جب سیاست کا یہ دیوالیہ پن ہو تو پھر بیچاری پارلیمنٹ کی بے نوری پہ کون نوحہ گری کرے۔ اگر مملکت اور سیاست کے مستقبل کا فیصلہ عوام کے حق رائے رہی نے نہیں کرنا، عدالتوں جو مقتدرہ ہی کا حصہ ہیں نے کرنا ہے تو پھر سیاست کے لیے مغفرت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
حیرانگی الیکشن کمشن کے فیصلے پہ نہیں، حیرانگی اس پر ہے کہ اس محفوظ فیصلے کا اعلان حالیہ ضمنی انتخابات سے پہلے کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی اور حیرانی اس پر بھی ہے کہ اتنے مقبول عوامی لیڈر کی نااہلی پہ جب انقلاب کے آغاز کی نوید محترم فواد چوہدری نے دی تھی، وہ گلیوں میں بپا ہی نہ ہوا اور قائد انقلاب نے لواحقین کو صبر کرنے کی استدعا کی اور معاملہ عدالتوں کے سپرد کرنے کا اشارہ دیا۔ بھلا عدالتوں نے کب سیاست و جمہوریت کی شان میں اضافہ کیا ہے، جواب اُمید کی جائے۔ اس سے قطع نظر کہ عدالت عالیہ و عظمیٰ اپنے ہی سابقہ فیصلوں کی تشریح میں کیا نئے گل کھلاتی ہیں، سیاستدانوں کو پرانے گناہوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے جمہوری و آئینی عمرانی معاہدے پہ اتفاق کرنے کے لیے اپنی ہی پارلیمنٹ سے باوقار رجوع کرنا چاہیے۔ سیاستدانوں کے جھگڑے کوئی اور ضامن نمٹائے گا تو ان کے ہاتھ کیا آئے گا۔ ویسے بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ سیاست کو مسخ کرنے کی عدالتی و عسکری مداخلتوں سے ملک سنورا نہ جمہورت آئی۔ آئندہ بھی اس کی توقع کوئی نابینا ہی کرسکتا ہے۔ سیاستدانوں کی غیر سیاسی اور غیر جمہوری طریقوں سے پہلے کوئی لیڈر اپنے تاریخی رول سے بے دخل ہوا ہے، نہ بھٹو، نہ نواز شریف ہوئے اور نہ اب عمران خان تاریخ کے کوڑے کی نذر ہوں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آئینی و جمہوری حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور تاریخی خجالت ہی کا بار بار سامنا کرنا پڑا جو پاکستانی ریاست کی ناکامی کا ایک بڑا مظہر ہے۔
چلیے سیاست کے میدان سے نہ سہی، عالمی سفارتی محاذ سے اچھی خبر آتی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر کے گرے لسٹ سے نکل گیا ہے۔ لیکن اس خود اصلاحی کے عمل میں لگتا ہے گندم کے ساتھ ساتھ گھن بھی پس گیا ہے۔ دہشت گردی کی فنڈنگ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی سول سوسائٹی کی تنظیموں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ جو وقتی استثنا اکنامک افیئرز ڈویژن اور وزارت داخلہ نے دیا بھی ہے تو وہ سیلاب زدگان کی بحالی تک محدود ہے۔ اتھارٹیرئین ڈھانچوں کے ہاتھوں سول سوسائٹی کی تنظیموں کا قتل جمہوریت کے دائر عمل کو مخدوش کرتا ہے۔ اس لیے جو بندشیں سول سوسائٹی کی تنظیموں پر لگائی گئی ہیں، وہ فوری طور پر اٹھائی جائیں۔ اس کے باوجود کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے باہر بیٹھی ہے، آجکل پارلیمنٹ میں ریاستی تشدد، جبری اغوا اور دیگر حساس موضوعات پر اچھی پیشرفت ہورہی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ یہ پارلیمنٹ دور رس معاشی و سماجی اصلاحات، اداراتی دائرہ ہائے کار، انتخابات، عوامی حکمرانی و پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بڑے آئینی و قانونی اقدامات کرے۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آئے اور اپنا مقدمہ عدالتوں یا سڑکوں پہ لڑنے کی بجائے پارلیمنٹ میں لڑے۔ اصل سوال انتخابات کے مہینے کا نہیں ہے، خود پارلیمنٹ کے استحقاق کا ہے۔ اس استحقاق اور بالادستی کو قائم کیے بغیر اگلے انتخابات سے بھی سیاسی بحران حل نہ ہوگا۔ انتخابات سے قبل سیاستدانوں کو سیاست و مملکت کے گراﺅنڈ رولز طے کرنے ہونگے۔ وگرنہ یہی بیہودہ کھیل چلتا رہے گا۔ آج ایک شکار کل دوسرا۔ اس پر تالیاں بجانے اور سڑکوں پہ سینہ کوبی سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ سیاستدان کب تک اپنی نکیل اداروں کے حوالے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ناک کاٹتے رہیں گے؟ پارلیمنٹ میں جاﺅ اور پھر عوام سے رجوع کرو!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں