82

گندی سیاست انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

طوفان بدتمیزی کے جلُو میں گندی سیاست سے بڑے سیاسی اختلافات تو کیا دور ہونے تھے، اس کے ہاتھوں سیلابی آفت اور معاشی بدحالی پر قومی اور بین الاقوامی توجہ مانند پڑگئی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو عالمی امداد اور قرضوں میں رعایت کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے اجلاس میں شریک رہنماﺅں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان اس نہایت اہم سفارتکاری کے بخیے ادھیڑنے اور ہر حالت میں فوری (اب غالباً مارچ میں) انتخابات اور اس کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے اسلام آباد پر دوسری یلغار کی تیاریاں کررہے ہیں۔ ایک تہائی ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور یو این کے سیکرٹری جنرل پانی اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے پاکستان کی مدد کے لیے عالمی امداد اور قرضوں میں چھوٹ کے لیے بار بار اپیلیں کررہے ہیں، لیکن اسلام آباد کا خوفناک سیاسی منظرنامہ انتہائی مختلف پیغام بھیج رہا ہے کہ نہ جانے حکومت کب چلی جائے یا پھر سیاسی طوائف الملوکی ملک کو لپیٹ میں لے لے۔ ایسے میں کون ماحولیاتی تباہی پہ کروڑوں پاکستانیوں اور تباہ حال وسیع علاقوں کی مدد کو سنجیدگی سے لے گا۔ یہ گندی سیاست ہی ہے جس نے ملک کو درپیش دو وجودی بحرانوں یعنی سیلابی تباہی اور معاشی بحران سے نہ صرف توجہ ہٹائی بلکہ عمران خان سمیت تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پہ نہایت گمراہ کن پراپیگنڈہ مہم چلائی کہ مالی امداد موجودہ حکمران ہڑپ کرجائیں گے۔ گویا، یہ کہا گیا کہ پاکستان کی مدد نہ کی جائے اور اگر کی جائے گی غبن ہوجائے گی۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح مالیاتی دیوالیہ اور معاشی دھڑن تختے کو یقینی بنانے کے لیے عمران حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے توڑا اور عدم اعتماد کے بعد جون تک معاشی دیوالیہ کے لیے حالات پیدا کردیتے تھے اور پھر نئی منتخب حکومت کی آئی ایم ایف سے بات چیت اور ہونے والے معاہدے کو سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ شرمندہ ہونے کی بجائے، غصہ اس بات پر نکالا گیا کہ ان کی ٹیلی فون پہ گفتگو کیوں اور کس نے ٹیپ کی؟ اس گندی سیاست کے ہاتھوں، مذہب محفوظ ہے، نہ مملکت، سیاست گالی گلوچ کی نذر ہوئی، مکالمہ زہر آلود ہوا، مقتدر اداروں کی دوبارہ حمایت حاصل کرنے کے لیے سو جتن کیے گئے، آرمی چیف کی تعیناتی کا آئینی عمل خراب کیا گیا، عدلیہ کے معاملات میں فوجداری توہین عدالت کی گئی، الیکشن کمشن جیسے ادارے کی مٹی پلید کی گئی، میڈیا کو گند کا ٹوکرا ظاہر کیا گیا اور ان کے بِرتے پہ جو صحافت کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ عالمی طاقتوں سے بے مقصد محاذ آرائی کی گئی کہ عوامی قبولیت ملے، نہ کوئی نظریہ، نہ مقصد۔ حقیقی آزادی کی لایعنی جدوجہد اور مرنے مارنے کی اشتعال انگیزیاں۔ زرا کوئی ان احمقوں سے پوچھے کہ ایک جدید نوآبادیاتی ریاست جس پر امرا کا قبضہ ہے، جس کی معیشت قرضوں میں ڈوبی ہوئی اور دست نگر ہے اور جو عالمی طاقتوں کی باجگزار ہے اور جو مفت خور ہے (ویسے ہی جیسے خان صاحب خود )کی حقیقی آزادی کے لیے ان کے پاس اگر کوئی انقلابی پروگرام نہیں تو کوئی حقیقت پسندانہ متبادل پروگرام کیا ہے۔ وہ وفاقی اور سندھ حکومت پہ تو سیلاب زدگان کی بحالی کے حوالے سے خوب برس رہے ہیں، لیکن سیلاب اور سیلاب زدگان ان کی تھوڑی بہت توجہ کے بھی مستحق نہیں رہے، نہ ہی ان کی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں کوئی امدادی سرگرمیاں کرتی نظر آتی ہیں۔ محترمہ ثانیہ نشتر مشکل میں پھنسی ہیں کہ پی ٹی آئی کی دو صوبائی حکومتوں کو کس طرح احساس پروگرام کا حصہ بنائیں۔ سوائے چور چور، غدار غدار، سازش سازش اور مغلضات کے ان کے بیانیہ کے پلے کیا ہے؟ ایسے غیر ذمہ دار، کھلنڈرے اور لونڈے لپاٹوں کے ہاتھوں اس ملک کی باگ ڈور ہاتھ لگ گئی تو جانے ملک کیسے کیسے دیوالیہ پن اور دیوانگی کا شکار ہوجائے۔
ویسے بھی ملک کے پلے کیا بچا ہے، اس کو ہر طرح سے نہ صرف بچانے بلکہ آگے بڑھنے کے لیے نہایت منفرد اور تحقیقی و پائیدار، خوشحال اور سبزہ زار متبادل پروگراموں او رمنصوبوں کی ضرورت ہے۔ لیکن 13 جماعتوں کی دو ووٹوں کی اکثریت پہ ٹکی کمزور حکومت کر بھی کیا سکتی ہے۔ عمران خان فوری انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کررہے ہیں جو سیلاب میں ڈوبے ہوئے ایک تہائی پاکستان کو ووٹ کے حق سے محروم رکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ مارچ تک تو پانی نے اترنا ہے اور انتخابات زیادہ سے زیادہ اگست /ستمبر میں ہوسکتے ہیں، وہ بھی تب اگر پھر سے طوفانی بارشیں اور سیلاب نازل نہ ہوئے۔ بھلا دو چار مہینے سے کونسی قیامت ٹوٹ جائے گی، گندی سیاست تو سیلاب زدگان کی عدم بحالی اور تعمیر نو میں تاخیر پہ بھی کی جاسکتی ہے۔ پھر اس کا دوسرا مطالبہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہے، آخر وہ ان کے ہاتھ میں کیوں اور کیسے دے دیا جائے۔ یہ وزیراعظم کا استحقاق ہے اور اس کا ایک آئینی طریقہ ہے۔ بجائے اس کے کہ سیاسی مخالفین اسے فٹ بال بنائیں، بہتر ہوگا کہ سینئر ترین کو اس کا حق دے دیا جائے۔ عمران خان کو اب اتنی قبولیت حاصل ہونے کے باوجود آخر فوجی بوٹ کی ابھی بھی کیا ضرورت ہے۔ فوجی سیاسی مدد کے دوبارہ حصول کی سیاست نے ان کی سیاست کے پلے کوئی جمہوری رمق بھی نہیں چھوڑی۔ وہ اپوزیشن کو مانتے ہیں، نہ ناقدانہ میڈیا کو اور نہ غیر جانبدار غیر سیاسی اداروں کو۔ ان کا حتمی مقصد ذاتی مطلق العنانئیت ہے جس کے زور پہ وہ کسی بنا پر جس کو چاہے تختہ دار پہ لٹکا دیں اور ان کے اس فسطائی خیال کی حمایت میں بڑے بڑے فسطائی جفادری دن رات زہر اُگل رہے ہیں۔
معیشت کی بری حالت سیلاب سے اور تباہی کا شکار ہوچکی ہے۔ مستقبل نہایت تشویشناک ہے۔ اس وقت پاکستان کے ذمہ 97 ارب ڈالرز کا بیرونی قرضہ ہے۔ بلاول بھٹو نے سیلاب اور قرضوں کے حوالے سے بہت عمدہ لائن لی ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ قرضے تو معاف ہونے سے رہے، نہ انہوں نے بھیک مانگی۔ ان کا زور ماحولیاتی انصاف اور عالمی ماحولیاتی بحران کے حوالے سے بڑے کثافت کاروں کے سامنے ان کے ہاتھوں ماحولیاتی تباہی کے ازالے کا کیس بدرجہ اتم پیش کیا ہے۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی چیف سے اس کے پروگرام کی شرائط میں نرمی اور تین ارب ڈالرز کی یکمشت ادائیگی کا تقاضہ کیا ہے اور وزیر خزانہ نے پیرس کنسورشیم کے ممالک سے 10 ارب ڈالرز کے قرض کی ری شیڈولنگ کی درخواست کی ہے۔ فرانس کے صدر اور یو این سیکرٹری جنرل نے ڈونرز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، ان کی قرض کی ادائیگی کے بجائے قرض کی قسطوں کا سیلاب سے بحالی کے لیے استعمال کی تجویز کو کافی پذیرائی ملی ہے ۔ جبکہ سیلاب کی تباہ حالی کا جائزہ اگلے ماہ تک تیار ہوجائے گا جس کی بنیاد پر اسلام آباد میں بھی ڈونرز کانفرنس منعقد کی جاسکے گی۔ امریکہ کے صدر بائیڈن نے بھی پانی میں ڈوبے ہوئے پاکستان کی بھرپور مدد کی اپیل کی ہے۔ عالمی امداد کی مہم کے لیے اکتوبر، نومبر بہت اہم ہوں گے اور یہی وہ وقت ہے جب عمران خان پاکستان کے سری لنکا بننے کے امکان کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے اسلام آباد پہ فیصلہ کن یلغار کریں گے۔ یہ صرف گندی سیاست ہی نہیں، خطرناک سیاست بھی ہے جو عوام کے مفاد میں ہے نہ ملک کے مستقبل کے لیے اچھا شگون ہے۔ عوامی سیاست یا پوپولزم کا ایسا جمہور مخالفت ، جمہوریت دشمن اور معاشی تباہی کا ایجنڈا نہ کبھی سنا نہ دیکھا۔ بنی گالہ سے اگر ایسا ہی کوئی تباہ کون ریلا برآمد ہوگا، تو جانے راولپنڈی سے کیا برآمد ہوجائے؟ کیا عمران خان یہی چاہتے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں