164

کوئی چوائس نہیں(No Choice Left) انگیخت: امتیاز عالم

Spread the love

سب سے بڑا معمہ جو ملک کو درپیش ہے، وہ ہے تباہ حال لوگوں کو بحال کرلو یا پھر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہوئے مالی و مالیاتی خسارے اور معاشی نمو کم کرلو۔ سیلاب کی قدرتی و انسانی آفت نے آئی ایم ایف کے حالیہ دو ریویوز کو سیلاب برد کردیا ہے۔ آفت زدہ اور بحران زدہ معیشت میں کوئی دم خم نہیں کہ یہ آئی ایم ایف کی جکڑ بندیوں کو سہار پائے۔ ورلڈ بنک کے بعد از سیلاب حالیہ ترین جائزے کے مطابق حکومتی اخراجات (خاص طور پر سیلاب کے حوالے سے) کم ہوئے تو معاشی نمو 2023ءمیں صفر ہوجائے گی۔ جبکہ اس برس یہ 1.2 فیصد سے 1.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ زراعت میں نمو 4.4 فیصد سے کم ہوکر 2.6 تک منفی ہوسکتی ہے۔ نہ ٹیکس پورے جمع ہوں گے اور نہ بجٹ خسارے کا ہدف پورا ہوگا اور حکومت کے اخراجات 20 فیصد تک کم ہوجائیں گے۔ خوردونوش کی ضروری اشیا 40 فیصد سے زیادہ مہنگی ہوچکیں جو ابھی اور بڑھیں گی اور ہیڈلائن افراط زر 27 فیصد سے اوپر جاچکی ہے۔ جہاں کاٹن کی درآمد بڑھے گی وہیں زرعی و دیگر اجناس کی برآمدات کم ہوں گی۔ صنعتی نمو میں کمی اور برآمدات میں سکڑاﺅ کے باعث تجارتی و بیرونی خسارہ بڑھے گا۔ ایسے میں ایک کروڑ 54 لاکھ مزید پاکستانی افلاس کی نذر ہوجائیں گے۔ اب وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل ایک طرف خسارے پورے نہ کرپائیں گے اور اس کوشش میں ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی بحالی میں مکمل ناکامی پر صرف آنسو بہاتے رہ جائیں گے۔ ویسے بھی ان کا ایمان آزاد منڈی ہے لیکن آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے باوجود روپیہ ہے کہ ڈوبتا چلا جارہا ہے اور اسٹیٹ بینک کے مطابق وہ اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے حالانکہ اس عرصہ میں پرائیویٹ بینکوں کا منافع 300 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ لگتا ہے کہ 33 ملین پاکستانیوں کو نامساعد حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ ہماری دست نگر معیشت اور عالمی مالیاتی اداروں کی فرما برداری اور مفت خور استحصالی طبقات کے مفادات کی قیمت عوام کو ادا کرنی ہے۔ تاآنکہ غریب عوام ان کا تختہ الٹ دیں۔
اس بار ماحولیاتی طوفان آیا ہے وہ 2010 کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ 2010 کے سیلاب میں 78 اضلاع 2 کروڑ بیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اس بار 116 اضلاع اور تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ اس بار سترہ لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں، 269 پل، 6700 کلومیٹر سڑکیں اور 20 لاکھ ایکڑ زمین پر فصلیں تباہ ہوگئیں۔ موسمیات کے حوالے سے ایک عالمی تنظیم (WWA) کی حالیہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق عالمی ماحول کے 1.2 سیلسیس مزید گرم ہونے کے باعث پاکستان میں فقط 5 روز میں بارشوں میں 75 فیصد اضافہ ہوا اور آئندہ اس سلسلہ میں مزید شدت آئے گی۔ یقینا دنیا میں 80 فیصد آلودگی کے ذمہ دار جدید صنعتی ممالک ہیں اور شمال کے یہ ممالک جنوب کے ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی تباہی کے اثرات کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے دو بڑے ہمسائے بھارت اور چین دنیا کے بڑے آلودگی پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہیں اور وہ 2060 اور 2070 تک کاربن کے پھیلاﺅ کو ختم کرنے پہ راضی ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیاءکے گلیشیئرز کے پگھلنے کی بڑی وجہ یہی ہمسائے ہیں۔ اور ہم یہ کہتے فخر کیوں محسوس کرتے ہیں کہ ہم تو دنیا میں کاربن کا فقط 1 فیصد پیدا کر رہے ہیں، حالانکہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس ملک کی کاربن کی آلودگی 0.7 فیصد ہو اس کا مستقبل مخدوش ہوجاتا ہے۔ ریاست کی سنجیدگی کا تو یہ عالم ہے کہ فلڈ کنٹرول اتھارٹیز نے جو رپورٹ 2010 کے سیلاب کے بعد مرتب کی تھی اور جس کا اطلاق 2015-2023 کے عرصہ کے دوران ہونا تھا اس پر سرے سے عمل ہی نہیں ہوا۔ اب پھر نقصانات کا ازسرنو تخمینہ لگایا جارہا ہے جو غالباً 40 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ لیکن ماحولیاتی نقصانات کو پورا کرنے کے لیے کیوٹو اور پیرس کے ماحولیاتی اعلان ناموں میں کوئی شق نہیں ہے۔ ابھی تک 160 ملین کی فوری امداد کی اپیل پر بھرپور ردعمل نہیں آیا اور جب تک ہم تباہیوں کا میزانیہ بنائیں گے، سیلاب کے اترتے ہی یہ خبر عالمی میڈیا سے غائب ہوجائے گی۔ سلامتی کے نام پر ہماری ایجنسیوں، وزارت داخلہ اور اکنامک افیئر ڈویژن نے عالمی و مقامی سول سوسائٹی آرگنائزیشنز کا ایسا ناطقہ بند کیا ہے کہ 2010 میں اگر 158 تنظیمیں متحرک تھیں تو اسوقت صرف 70 ریلیف تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے بھی صرف سرکاری محکموں کے ذریعہ امداد فراہم کررہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان یو این سیکرٹری جنرل کی اپیل کو آگے بڑھاتے ہوئے قرض کو سیلاب زدگان کی بحالی اور ماحولیاتی انصاف کے لیے استعمال کرنے کی آئی ایم ایف و دیگر عالمی اداروں سے دخواست کرے اور CoP27 کے مصر میں اجلاس کے موقع پر 30 ارب ڈالرز کا بحالی کا منصوبہ پیش کردیا۔ بعداز سیلاب صورتحال میں آئی ایم ایف کو تمام اہداف ریویو کرنے کا کہا جائے تاکہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کچھ تو کیا جاسکے۔
تاشقند سے اچھی خبر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے روسی صدر پیوٹن، چینی صدر ژی ودیگر سربراہان سے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے چوٹی کے اجلاس کے دوران اچھی ملاقاتیں رہیں۔ روسی صدر نے روسی گیس لائن کو تاجکستان سےا ٓگے پاکستان تک لے جانے اور کراچی لاہور گیس پائپ لائن کی تعمیر کے علاوہ ریلوے سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ ایسی پیشکشیں ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہیں جو ہم اپنی امریکہ نوازی کے باعث سبوتاژ کرتے رہے۔ چین کے صدر نے بھی سی پیک پر عملدرآمد کے لیے آگے بڑھنے کا اشارہ دیا ہے۔ ایران نے دو طرفہ بارٹر تجارت اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بظاہر وزیراعظم نے مثبت ردعمل دیا ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ اُن میں کتنا دم خم ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ جب پاکستانی وفد تاشقند میں کانفرنس میں شریک تھا تو ہمارے آرمی چیف ہنگری کے دورے پہ تھے جو کہ یوکرین کا بڑا اتحادی ہے۔ لیکن SCO اب اتنی بڑی تنظیم بن چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس کا کچھ زیادہ بگاڑ نہیں سکتے۔ بدقسمتی سے تاشقند سمٹ میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے فاصلہ برقرار رکھا، حالانکہ ماحولیاتی تباہی کا مسئلہ پورے جنوبی ایشیاءکا سانجھا مسئلہ ہے۔ کالم کی ابتدا میں کہا تھا کہ نو چوائس لیفٹ۔ لیکن سیاست کے دل میں کوئی انسانی جذبہ نہیں۔ عمران خان کو صرف انتخابات چاہئیں، بھلے عوام جائیں بھاڑ میں اور اتحادی حکومت کو اقتدار چاہیے بھلے ہر نیا روز نئی رسوائیاں لے کر آئے گا اور یہ رسوائیاں بڑھ کر اگلی منتخب حکومت کا سواگت کریں گی۔ بکرے کی اماں کب تک خیر منائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں